جرمنی: پناہ کی درخواستوں پر فیصلے، مہاجرین کا بڑھتا انتظار
8 جون 2017جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق ملک میں جمع کرائی گئی تارکین وطن کی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے کرنے میں ماضی کے مقابلے میں زیادہ مدت صرف ہو رہی ہے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر برائے ترک وطن و مہاجرين (بی اے ایم ایف) نے اس سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران غیر ملکیوں کی جانب سے جمع کرائی گئی پناہ کی جن درخواستوں پر فیصلے سنائے، ان پر اوسطاﹰ دس اشاریہ چار مہینے صرف ہوئے۔
2017ء جرمنی سے ملک بدریوں کا سال ہو گا، جرمن وزیر
جرمنی کی وفاقی حکومت نے یہ اعداد و شمار بائیں بازو کی سیاسی جماعت کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں جاری کیے ہیں۔ جرمن حکومت کے مطابق بی اے ایم ایف کی جانب سے پناہ کی درخواستیں نمٹانے میں بتدریج زیادہ وقت لگ رہا ہے۔
گزشتہ برس کی چوتھی اور آخری سہ ماہی کے دوران تارکین وطن کی درخواستوں پر ابتدائی فیصلے 8.1 ماہ میں کر دیے گئے تھے۔ گزشتہ برس مجموعی طور پر پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والوں کو اپنی درخواستوں پر فیصلہ جاننے کے لیے 7.1 مہینے انتظار کرنا پڑا تھا۔ سن 2015 کے دوران ابتدائی فیصلے جاری کرنے میں اوسطاﹰ صرف 5.2 مہینے لگ رہے تھے۔
بائیں بازو کی جرمن سیاسی جماعت ’لنکے‘ نے حکومتی اعداد و شمار کو ’تباہ کن‘ قرار دیا ہے۔ حالیہ مہینوں کے دوران جرمن حکومت مسلسل دعویٰ کرتی رہی ہے کہ ملک میں جمع کرائی گئی پناہ کی درخواستیں جلد از جلد نمٹائی جا رہی ہیں۔
جرمنی کی وفاقی وزارت داخلہ نے ان اعداد و شمار کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی اے ایم ایف کو پناہ کی درخواستوں پر فیصلے سنانے میں اس لیے بھی زیادہ وقت لگ رہا ہے کہ اس مدت کے دوران پناہ کی جو پرانی درخواستیں نمٹائی جا رہی ہیں، ان کی نوعیت کافی پیچیدہ ہے۔ وزارت داخلہ کے مطابق وفاقی دفتر برائے ترک وطن اور مہاجرين نے اکتوبر 2016ء سے لے کر مارچ 2017ء تک نیا طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے قریب اکہتر ہزار درخواستیں اوسطاﹰ دو ماہ سے بھی کم وقت میں نمٹائیں۔
جرمنی میں پناہ کی درخواستوں پر ابتدائی فیصلے سنائے جانے کا انحصار درخواست گزاروں کی قومیت پر بھی ہے۔ مثال کے طور پر روسی تارکین وطن کو اپنی درخواستوں پر 15.2 ماہ، جب کہ صومالیہ کے شہریوں کو 14.9 ماہ اور نائجیریا سے آئے پناہ گزینوں کی درخواستوں پر 14.4 مہینے بعد ابتدائی فیصلے سنا دیے جاتے ہیں۔