جرمنی: پناہ کی درخواست مسترد ہونے کے بعد کیا کیا جا سکتا ہے؟
شمشیر حیدر مانسی گوپالا شرما
20 جون 2019
جرمن حکام اگر کسی تارک وطن کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد کر دیں تو اس کے پاس کیا انتخاب بچتا ہے؟ پناہ کے متلاشی انتظامی عدالت میں اپیل کے علاوہ انسانی حقوق کی یورپی عدالت سے بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔
اشتہار
حالیہ رپورٹوں کے مطابق اس برس جرمن انتظامی عدالتوں میں پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی اپیلوں کی تعداد پچھلے برس کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے۔ ایک مقامی اخبار کے مطابق اس برس کی پہلی ششماہی کے دوران تین لاکھ بیس ہزار تارکین وطن نے پناہ کی درخواستیں مسترد ہونے کے خلاف اپیلیں کی ہیں۔
وفاقی جرمن دفتر برائے مہاجرت و تارکین وطن (بی اے ایم ایف) کے حکام کسی تارک وطن کی پناہ کی درخواست کا جائزہ لیتے ہوئے اگر یہ سمجھیں کہ متعلقہ شخص کو جرمنی میں کسی بھی طرح کے تحفظ کی ضرورت نہیں ہے تو وہ درخواست مسترد کر سکتے ہیں۔ پناہ کی کئی اقسام ہیں، تسلیم شدہ مہاجر، سیاسی پناہ، عارضی تحفظ اور ملک بدری پر پابندی جیسے مختلف درجات میں تارکین وطن کو پناہ دی جاتی ہے۔
جرمنی: افغان مہاجرین کی اجتماعی ملک بدری پھر سے شروع
01:33
ملک بدری کی دو بنیادی اقسام ہیں: سادہ طور پر پناہ کی درخواست رد کرنا، جب حکام اسائلم یا پناہ کا دعویٰ رد کر دیں اور "offensichtlich unbegründet”۔ (واضح طور پر بے بنیاد) رد، ایسا جواب تب دیا جاتا ہے جب پناہ کا درخواست گزار اپنے آبائی وطن کے بارے میں جھوٹ بولے، یا پناہ کے دعوے کے میں ناکافی شواہد فراہم کرے، اسے معاشی تارک وطن سمجھا جائے یا پھر وہ جرمنی کی سکیورٹی کے لیے خطرہ سمجھا جائے۔
ایک اور طرح کا انکار اس صورت میں کیا جاتا ہے جب حکام پناہ کے متلاشی شخص کو inadmissible یعنی ’ناقابل قبول‘ سمجھیں۔ ایسا فیصلہ اس وقت سنایا جاتا ہے جب تارک وطن نے جرمنی میں پناہ کی درخواست دینے سے پہلے کسی دوسرے یورپی ملک میں پناہ کی درخواست جمع کرائی ہو۔
پناہ کی درخواست مسترد کیے جانے کے فیصلے کے ساتھ ملک بدری کا نوٹس بھی دیا جاتا ہے۔ اگر سادہ طور پر پناہ کی درخواست رد کی گئی ہو تو تارک وطن کو تیس دن کے اندر ملک چھوڑنے کا کہا جاتا ہے اور وہ فیصلے کے دو ہفتوں کے اندر اندر اس فیصلے کے خلاف انتظامی عدالت میں درخواست جمع کرا سکتا ہے۔ تاہم ’واضح طو پر بے بنیاد‘ یا ’ناقابل قبول‘ درجوں کے تحت پناہ کی درخواست مسترد ہونے کی صورت میں درخواست گزار کو ایک ہفتے کے اندر اندر اپیل کرنا ہوتی ہے۔
یونان میں غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کا المیہ
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
11 تصاویر1 | 11
درخواست رد ہونے کے خلاف اپیل
پناہ کی درخواست مسترد ہونے کے بعد انتظامی عدالت میں اپیل کی جاتی ہے جس کے بعد ابتدائی طور پر عدالت بی اے ایم ایف کے فیصلے کا جائزہ لیتی ہے جس کے بعد درخواست گزار کو سماعت کے لیے طلب کیا جاتا ہے۔ اگر جج یہ سمجھے کہ تارک وطن پناہ کا مستحق ہے یعنی تارک وطن کے حق میں فیصلہ ہو جائے تو بی اے ایم ایف کا ادارہ تارک وطن کو تحفظ فراہم کرنے کا پابند ہو جاتا ہے۔
تاہم اگر جج بھی اپیل مسترد کر دے تو پناہ گزین کو جرمنی سے جانا ہوتا ہے۔ تاہم اس صورت میں بھی درخواست گزار ’اعلیٰ انتظامی عدالت‘ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتا ہے اور اگر یہ عدالت بھی اپیل رد کر دے تو وفاقی آئینی عدالت میں اپیل کی جا سکتی ہے۔
وفاقی آئینی عدالت بھی اگر پناہ کی درخواست مسترد کر دے اور درخواست گزار یہ سمجھے کہ اس کے حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو ایسی صورت میں انسانی حقوق کی یورپی عدالت میں بھی اپیل کی جا سکتی ہے۔
یورپ جانے کا شوق، ’پاکستانی مہاجرین بھی پھنس گئے‘
02:38
This browser does not support the video element.
ملک بدری
پناہ کی درخواست مسترد ہونے کا عام طور پر یہ مطلب ہوتا ہے کہ تارک وطن کو بی اے ایم ایف کی جانب سے دی گئی مدت کے اندر جرمنی سے بہرصورت جانا پڑتا ہے۔ اگر تارک وطن ملک نہ چھوڑنا چاہے تو حکام زبردستی ملک بدر کر سکتے ہیں۔ تاہم اگر کسی وجہ سے ملک بدری ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں تارک وطن کو ’ڈُلڈنگ‘ tolerated permit to stay” یعنی ’عبوری قیام کا اجازت نامہ‘ دے دیا جاتا ہے۔
کچھ خاص صورتوں میں اگر تارک وطن کے آبائی ملک کی صورت حال خراب ہو، یا پھر وہ خود مثلاﹰ ’بعد از جنگ شدید ذہنی صدمے‘ میں مبتلا ہو، تو ایسی صورت میں وہ تارک وطن پناہ کی ایک اور درخواست، جسے جرمن زبان میں "Asylfolgeantrag” کہا جاتا ہے۔ اس صورت میں تارک وطن کو ممکنہ طور پر پناہ بھی مل سکتی ہے یا پھر اس کی ملک بدری پر پابندی بھی لگائی جا سکتی ہے۔
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘