1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: پناہ کی درخواست مسترد ہونے کے بعد کیا کیا جا سکتا ہے؟

شمشیر حیدر مانسی گوپالا شرما
20 جون 2019

جرمن حکام اگر کسی تارک وطن کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد کر دیں تو اس کے پاس کیا انتخاب بچتا ہے؟ پناہ کے متلاشی انتظامی عدالت میں اپیل کے علاوہ انسانی حقوق کی یورپی عدالت سے بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔

Berlin Ehtesham Haider, Flüchtling aus Pakistan
تصویر: DW/I. Aftab

حالیہ رپورٹوں کے مطابق اس برس جرمن انتظامی عدالتوں میں پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی اپیلوں کی تعداد پچھلے برس کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے۔ ایک مقامی اخبار کے مطابق اس برس کی پہلی ششماہی کے دوران تین لاکھ بیس ہزار تارکین وطن نے پناہ کی درخواستیں مسترد ہونے کے خلاف اپیلیں کی ہیں۔

2017ء جرمنی سے ملک بدریوں کا سال ہو گا، جرمن وزیر

جرمنی: اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد

درخواستیں مسترد ہونے کی اقسام

وفاقی جرمن دفتر برائے مہاجرت و تارکین وطن (بی اے ایم ایف) کے حکام کسی تارک وطن کی پناہ کی درخواست کا جائزہ لیتے ہوئے اگر یہ سمجھیں کہ متعلقہ شخص کو جرمنی میں کسی بھی طرح کے تحفظ کی ضرورت نہیں ہے تو وہ درخواست مسترد کر سکتے ہیں۔ پناہ کی کئی اقسام ہیں، تسلیم شدہ مہاجر، سیاسی پناہ، عارضی تحفظ اور ملک بدری پر پابندی جیسے مختلف درجات میں تارکین وطن کو پناہ دی جاتی ہے۔

جرمنی: افغان مہاجرین کی اجتماعی ملک بدری پھر سے شروع

01:33

This browser does not support the video element.

ملک بدری کی دو بنیادی اقسام ہیں: سادہ طور پر پناہ کی درخواست رد کرنا، جب حکام اسائلم یا پناہ کا دعویٰ رد کر دیں اور "offensichtlich unbegründet”۔  (واضح طور پر بے بنیاد) رد، ایسا جواب تب دیا جاتا ہے جب پناہ کا درخواست گزار اپنے آبائی وطن کے بارے میں جھوٹ بولے، یا پناہ کے دعوے کے میں ناکافی شواہد فراہم کرے، اسے معاشی تارک وطن سمجھا جائے یا پھر وہ جرمنی کی سکیورٹی کے لیے خطرہ سمجھا جائے۔

ایک اور طرح کا انکار اس صورت میں کیا جاتا ہے جب حکام پناہ کے متلاشی شخص کو inadmissible یعنی ’ناقابل قبول‘ سمجھیں۔ ایسا فیصلہ اس وقت سنایا جاتا ہے جب تارک وطن نے جرمنی میں پناہ کی درخواست دینے سے پہلے کسی دوسرے یورپی ملک میں پناہ کی درخواست جمع کرائی ہو۔

پناہ کی درخواست مسترد کیے جانے کے فیصلے کے ساتھ ملک بدری کا نوٹس بھی دیا جاتا ہے۔ اگر سادہ طور پر پناہ کی درخواست رد کی گئی ہو تو تارک وطن کو تیس دن کے اندر ملک چھوڑنے کا کہا جاتا ہے اور وہ فیصلے کے دو ہفتوں کے اندر اندر اس فیصلے کے خلاف انتظامی عدالت میں درخواست جمع کرا سکتا ہے۔ تاہم ’واضح طو پر بے بنیاد‘ یا ’ناقابل قبول‘ درجوں کے تحت پناہ کی درخواست مسترد ہونے کی صورت میں درخواست گزار کو ایک ہفتے کے اندر اندر اپیل کرنا ہوتی ہے۔

درخواست رد ہونے کے خلاف اپیل

پناہ کی درخواست مسترد ہونے کے بعد انتظامی عدالت میں اپیل کی جاتی ہے جس کے بعد ابتدائی طور پر عدالت بی اے ایم ایف کے فیصلے کا جائزہ لیتی ہے جس کے بعد درخواست گزار کو سماعت کے لیے طلب کیا جاتا ہے۔ اگر جج یہ سمجھے کہ تارک وطن پناہ کا مستحق ہے یعنی تارک وطن کے حق میں فیصلہ ہو جائے تو بی اے ایم ایف کا ادارہ تارک وطن کو تحفظ فراہم کرنے کا پابند ہو جاتا ہے۔

تاہم اگر جج بھی اپیل مسترد کر دے تو پناہ گزین کو جرمنی سے جانا ہوتا ہے۔ تاہم اس صورت میں بھی درخواست گزار ’اعلیٰ انتظامی عدالت‘ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتا ہے اور اگر یہ عدالت بھی اپیل رد کر دے تو وفاقی آئینی عدالت میں اپیل کی جا سکتی ہے۔

وفاقی آئینی عدالت بھی اگر پناہ کی درخواست مسترد کر دے اور درخواست گزار یہ سمجھے کہ اس کے حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو ایسی صورت میں انسانی حقوق کی یورپی عدالت میں بھی اپیل کی جا سکتی ہے۔

یورپ جانے کا شوق، ’پاکستانی مہاجرین بھی پھنس گئے‘

02:38

This browser does not support the video element.

ملک بدری

پناہ کی درخواست مسترد ہونے کا عام طور پر یہ مطلب ہوتا ہے کہ تارک وطن کو بی اے ایم ایف کی جانب سے دی گئی مدت کے اندر جرمنی سے بہرصورت جانا پڑتا ہے۔ اگر تارک وطن ملک نہ چھوڑنا چاہے تو حکام زبردستی ملک بدر کر سکتے ہیں۔ تاہم اگر کسی وجہ سے ملک بدری ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں تارک وطن کو ’ڈُلڈنگ‘ tolerated permit to stay” یعنی ’عبوری قیام کا اجازت نامہ‘ دے دیا جاتا ہے۔

کچھ خاص صورتوں میں اگر تارک وطن کے آبائی ملک کی صورت حال خراب ہو، یا پھر وہ خود مثلاﹰ ’بعد از جنگ شدید ذہنی صدمے‘ میں مبتلا ہو، تو ایسی صورت میں وہ تارک وطن پناہ کی ایک اور درخواست، جسے جرمن زبان میں "Asylfolgeantrag” کہا جاتا ہے۔ اس صورت میں تارک وطن کو ممکنہ طور پر پناہ بھی مل سکتی ہے یا پھر اس کی ملک بدری پر پابندی بھی لگائی جا سکتی ہے۔

’پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کو جیب خرچ نہیں ملنا چاہیے‘

ایک یونانی حراستی مرکز میں قید پاکستانی تارکین وطن کی صورت حال

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں