جرمن استغاثہ نے پناہ کے متلاشی ایک افغان لڑکے کو سنائی جانے والی ساڑھے آٹھ سال کی سزا کے خلاف اپیل دائر کر دی ہے۔ اسے یہ سزا ایک پندرہ سالہ جرمن لڑکی کو ہلاک کرنے کے جرم میں رواں ہفتے ہی سنائی گئی ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے جرمن حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ لنڈاؤ شہر کے استغاثہ نے تصدیق کر دی ہے کہ افغان مہاجر عبدل ڈی کی سنائی جانے والی سزا کے خلاف باقاعدہ طور پر اپیل درج کرا دی گئی ہے۔ تاہم اس بارے میں زیادہ معلومات عام نہیں کی گئی ہیں کہ اس اپیل میں کن امور کو بنیاد بنایا گیا ہے۔
جرمن شہر لنڈاؤ کی عدالت نے تین دن قبل ہی انیس سالہ عبدل کو پندرہ سالہ جرمن لڑکی میا وی کی ہلاکت کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے یہ سزا سنائی تھی۔ استغاثہ نے عبدل کے لیے دس سال کی سزا کا مطالبہ کیا تھا تاہم وکلاء دفاع نے اپنے موکل کے لیے ساڑھے سات سال کی سزا کی درخواست کی تھی۔
اس افغان مہاجر کی عمر کے بارے میں درست اندازہ نہ ہو سکنے کے بعد اس کا مقدمہ بچوں کی خصوصی عدالت میں چلایا گیا۔ ماہرین نے جرم کے وقت اس کی عمر کا اندازہ سترہ اور بیس برس کے درمیان لگایا ہے۔
تاہم میڈیا میں عبدل کو جرم کے ارتکاب کے وقت عبدل کی عمر انیس برس تھی۔ اسی لیے عدالت نے عبدل کو شک کی بنیاد پر چھوٹ دی اور اس کا مقدمہ بالغوں کی عدالت میں نہیں چلایا گیا۔
عبدل پر الزام تھا کہ اس نے گزشتہ برس ستائیس دسمبر کو دن دیہاڑے کانڈل شہر میں اپنی سابقہ گرل گرینڈ میا کو چاقوؤں سے وار کر کے ہلاک کیا تھا۔ اس کیس کے بعد جرمنی میں ایک نئی بحث بھی شروع ہو گئی تھی کہ مہاجرین کی طرف سے کیے جانے والے جرائم سے نمٹنے کی خاطر کیا حکمت عملی اختیار کی جائے۔
کانڈل میں رونما ہونے والے اس واقعے کے نتیجے میں نو ہزار پر مشتمل اس چھوٹے سے شہر میں جرمنوں نے احتجاج کا سلسلہ بھی شروع کر دیا تھا۔ جرمنی میں مہاجرین کے بحران شروع ہونے کے بعد ایسے واقعات جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی مہاجر دوست پالیسی کے خلاف عوامی غم و غصے کا باعث بھی بنے ہیں۔ اسی دوران جرمن میں مہاجر مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی نے عوام حمایت حاصل کرنے میں کامیابی بھی حاصل کر لی ہے۔
ع ب / ص ح / خبر رساں ادارے
جرمنی: جرائم کے مرتکب زیادہ تارکین وطن کا تعلق کن ممالک سے؟
جرمنی میں جرائم سے متعلق تحقیقات کے وفاقی ادارے نے ملک میں جرائم کے مرتکب مہاجرین اور پناہ کے متلاشیوں کے بارے میں اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ اس گیلری میں دیکھیے ایسے مہاجرین کی اکثریت کا تعلق کن ممالک سے تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
1۔ شامی مہاجرین
جرمنی میں مقیم مہاجرین کی اکثریت کا تعلق شام سے ہے جو کل تارکین وطن کا قریب پینتیس فیصد بنتے ہیں۔ تاہم کُل جرائم میں شامی مہاجرین کا حصہ بیس فیصد ہے۔ سن 2017 میں تینتیس ہزار سے زائد شامی مہاجرین مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
2۔ افغان مہاجرین
گزشتہ برس اٹھارہ ہزار چھ سو سے زائد افغان مہاجرین جرمنی میں مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے اور مہاجرین کے مجموعی جرائم ميں افغانوں کا حصہ گیارہ فیصد سے زائد رہا۔
تصویر: DW/R.Shirmohammadil
3۔ عراقی مہاجرین
عراق سے تعلق رکھنے والے مہاجرین جرمنی میں مہاجرین کی مجموعی تعداد کا 7.7 فیصد بنتے ہیں لیکن مہاجرین کے جرائم میں ان کا حصہ 11.8 فیصد رہا۔ گزشتہ برس تیرہ ہزار کے قریب عراقی مہاجرین جرمنی میں مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
4۔ مراکشی تارکین وطن
مراکش سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد مجموعی تعداد کا صرف ایک فیصد بنتے ہیں لیکن جرائم میں ان کا حصہ چار فیصد کے لگ بھگ رہا۔ بی کے اے کے مطابق ایسے مراکشی پناہ گزینوں میں سے اکثر ایک سے زائد مرتبہ مختلف جرائم میں ملوث رہے۔
تصویر: Box Out
5۔ الجزائر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزین
مراکش کے پڑوسی ملک الجزائر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں میں بھی جرائم کی شرح کافی نمایاں رہی۔ گزشتہ برس چھ ہزار سے زائد مراکشی مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
6۔ ایرانی تارکین وطن
جرمنی میں جرائم کا ارتکاب کرنے میں ایرانی تارکین وطن چھٹے نمبر پر رہے۔ گزشتہ برس قریب چھ ہزار ایرانیوں کو مختلف جرائم میں ملوث پایا گیا جو ایسے مجموعی جرائم کا ساڑھے تین فیصد بنتا ہے۔
تصویر: DW/S. Kljajic
7۔ البانیا کے پناہ گزین
مشرقی یورپ کے ملک البانیا سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد بھی جرمنی میں جرائم کے ارتکاب میں ساتویں نمبر پر رہے۔ گزشتہ برس البانیا کے ستاون سو باشندے جرمنی میں مختلف جرائم کے مرتکب پائے گئے جب کہ اس سے گزشتہ برس سن 2016 میں یہ تعداد دس ہزار کے قریب تھی۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
8۔ سربین مہاجرین
آٹھویں نمبر پر بھی مشرقی یورپ ہی کے ملک سربیا سے تعلق رکھنے والے مہاجرین رہے۔ گزشتہ برس 5158 سربین شہری جرمنی میں مختلف نوعیت کے جرائم میں ملوث پائے گئے جب کہ اس سے گزشتہ برس ایسے سربین مہاجرین کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زیادہ تھی۔
تصویر: DW/S. Kljajic
9۔ اریٹرین مہاجرین
گزشتہ برس مہاجرین کی جانب سے کیے گئے کل جرائم میں سے تین فیصد حصہ اریٹریا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا تھا جن میں سے پانچ ہزار پناہ گزین گزشتہ برس مختلف جرائم میں ملوث پائے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Stache
10۔ صومالیہ کے تارکین وطن
اس ضمن میں دسویں نمبر پر صومالیہ سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور تارکین وطن رہے۔ گزشتہ برس 4844 صومالین باشندوں نے جرمنی میں جرائم کا ارتکاب کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt
11۔ نائجیرین تارکین وطن
گیارہویں نمبر پر بھی ایک اور افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن رہے۔ سن 2017 میں نائجیریا سے تعلق رکھنے والے 4755 پناہ گزین مختلف نوعیت کے جرائم کے مرتکب ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
12۔ پاکستانی تارکین وطن
وفاقی ادارے کی اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس اڑتیس سو پاکستانی شہری بھی جرمنی میں مختلف جرائم میں ملوث رہے جب کہ 2016ء میں تینتالیس سو سے زائد پاکستانیوں نے مختلف جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ مہاجرین کے جرائم کی مجموعی تعداد میں پاکستانی شہریوں کے کیے گئے جرائم کی شرح 2.3 فیصد رہی۔ جرمنی میں پاکستانی تارکین وطن بھی مجموعی تعداد کا 2.3 فیصد ہی بنتے ہیں۔