جرمنی: پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی ملک بدریوں میں اضافہ
شمشیر حیدر ڈی پی اے کے ساتھ
23 فروری 2019
جرمنی کی وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق ملک سے پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی ملک بدریوں میں اضافہ ہوا ہے۔ سب سے نمایاں اضافہ بھارت، روس اور شمالی افریقی ممالک کے شہریوں کی ملک بدریوں میں دیکھا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
اشتہار
وفاقی جرمن وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ عرصے کے دوران جرمنی سے پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی ملک بدریوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق ملک بدریوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ جرمنی اور تارکین وطن کے آبائی ممالک کے ساتھ مہاجرین کی شناخت کے بارے میں مزید معاہدے بھی ہیں۔
’پناہ گزینوں کے آبائی ممالک کے ساتھ معاہدے‘
جرمنی نے 32 ممالک کے ساتھ گزشتہ کئی برسوں سے ایسے معاہدے کر رکھے ہیں کہ وہ اپنے اپنے شہریوں کی وطن واپسی میں تعاون کریں گے۔ علاوہ ازیں یورپی یونین نے بھی پاکستان سمیت 13 ممالک کے ساتھ پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی واپسی کے معاہدے کیے ہوئے ہیں۔
ان معاہدوں کے باوجود یورپ میں سیاسی پناہ کی تلاش میں آنے والے افراد کی پناہ کی درخواستیں مسترد کر دیے جانے کے بعد بھی انہیں واپس بھیجے جانے کی راہ میں کئی انتظامی رکاوٹیں حائل ہوتی رہی ہیں۔ حالیہ برسوں کے دوران جرمنی نے ملک بدری کا عمل آسان بنانے کے لیے کئی ممالک کے ساتھ مذاکرات شروع کر رکھے ہیں۔
جرمنی نے گزشتہ برس ہی مراکش، الجزائر اور تیونس سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی افراد کی وطن واپسی کا عمل آسان بنانے کے لیے ان ممالک کے ساتھ معاہدے بھی کیے ہیں۔ اس کے بعد ہی گزشتہ برس کے دوران جرمنی سے تیونس اور الجزائر جیسے شمالی افریقی ممالک واپس بھیج دیے جانے والے پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی تعداد سن 2015 کے مقابلے میں چودہ گنا زیادہ رہی۔
افغانستان کے ساتھ ایسا ہی ایک معاہدے سن 2017 میں طے پایا تھا جس کے بعد جرمنی سے افغان مہاجرین کی اجتماعی ملک بدری کے عمل میں تیزی آئی ہے۔
کن ممالک کے شہریون کی ملک بدریاں زیادہ رہیں؟
جرمن وزارت داخلہ کی ایک داخلی دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے مقامی میڈیا نے بتایا ہے کہ گزشتہ برس کے دوران 1873 شمالی افریقی شہری ملک بدر کیے گئے۔ اس سے تین برس قبل یعنی سن 2015 میں ان ممالک کے محض ساٹھ افراد ہی ملک بدر کیے جا سکے تھے۔
جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری ابھی تک ایک متنازعہ معاملہ ہے۔ تاہم گزشتہ برس افغان شہریوں کی واپسی میں بھی اضافہ ہوا اور مجموعی طور پر 284 افغان کو وطن واپس بھیجا گیا۔ اس سے گزشتہ برس ایسے افغانوں کی تعداد 121 رہی تھی۔
جرمنی: سات ہزار سے زائد پاکستانیوں کی ملک بدری طے
جرمنی میں غیر ملکیوں سے متعلق وفاقی ڈیٹا بیس کے مطابق ملک کی سولہ وفاقی ریاستوں سے سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کو لازمی ملک بدر کیا جانا ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس صوبے سے کتنے پاکستانی اس فہرست میں شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
باڈن ورٹمبرگ
وفاقی جرمن ریاست باڈن ورٹمبرگ سے سن 2017 کے اختتام تک ساڑھے پچیس ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا تھا۔ ان میں 1803 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
باویریا
جرمن صوبے باویریا میں ایسے غیر ملکی شہریوں کی تعداد تئیس ہزار سات سو بنتی ہے، جنہیں جرمنی سے ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں 1280 پاکستانی بھی شامل ہیں، جو مجموعی تعداد کا 5.4 فیصد ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Anspach
برلن
وفاقی جرمن دارالحکومت کو شہری ریاست کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ برلن سے قریب سترہ ہزار افراد کو لازماﹰ ملک بدر کیا جانا ہے جن میں تین سو سے زائد پاکستانی شہری شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
برانڈنبرگ
اس جرمن صوبے میں ایسے غیرملکیوں کی تعداد قریب سات ہزار بنتی ہے، جنہیں لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں سے سات فیصد (471) کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Oliver Mehlis
ہیسے
وفاقی صوبے ہیسے سے بھی قریب گیارہ ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا ہے جن میں سے 1178 کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا
جرمنی میں سب سے زیادہ آبادی والے اس صوبے سے بھی 71 ہزار غیر ملکیوں کو لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں افغان شہریوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے زائد ہے۔ پاکستانی شہری اس حوالے سے پہلے پانچ ممالک میں شامل نہیں، لیکن ان کی تعداد بھی ایک ہزار سے زائد بنتی ہے۔
تصویر: imago/epa/S. Backhaus
رائن لینڈ پلاٹینیٹ
رائن لینڈ پلاٹینیٹ سے ساڑھے آٹھ ہزار غیر ملکی اس فہرست میں شامل ہیں جن میں پانچ سو سے زائد پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
سیکسنی
جرمن صوبے سیکسنی میں ساڑھے گیارہ ہزار غیر ملکی ایسے ہیں، جن کی ملک بدری طے ہے۔ ان میں سے 954 پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دیگر صوبے
مجموعی طور پر سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کی ملک بدری طے ہے۔ دیگر آٹھ جرمن وفاقی ریاستوں میں پاکستانیوں کی تعداد پہلے پانچ ممالک کی فہرست میں شامل نہیں، اس لیے ان کی حتمی تعداد کا تعین ممکن نہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
9 تصاویر1 | 9
ماضی میں جرمنی حکام بھارت پر الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ وہ اپنے شہریوں کی واپسی کے عمل میں تعاون نہیں کر رہا۔ گزشتہ برس بھارتی شہریوں کی وطن واپسی میں بھی نمایاں اضافہ نوٹ کیا گیا، جرمنی سے ملک بدر کردہ بھارتیوں کی تعداد 212 رہی جب کہ اس سے پچھلے برس یہ تعداد محض 32 تھی۔
گھانا اور گیمبیا جیسے دیگر افریقی ممالک کی جانب ملک بدریوں میں بھی اضافہ ہوا۔
پاکستانی شہریوں کی ملک بدری
مہاجرین کے حقوق کے لیے سرگرم ایک جرمن تنظیم کے مطابق گزشتہ برس جرمنی چار مختلف اوقات میں خصوصی پروازوں کے ذریعے پاکستانی شہریوں کی اجتماعی ملک بدری کی گئی۔ گزشتہ برس چھ دسمبر کو ایک چارٹرڈ طیارے کے ذریعے چالیس پاکستانی شہریوں کی اجتماعی ملک بدری کی گئی تھی۔
سن 2018 کے پہلی ششماہی کے دوران کم از کم سات ہزار پاکستانی شہری ایسے تھے جنہیں لازمی طور پر جرمنی سے ملک بدر کر کے واپس پاکستان بھیجا جانا تھا۔ تاہم پاکستانی شہریوں کی ملک بدریوں کے عمل میں تسلسل نہیں پایا جاتا۔
صوبہ باویریا میں مہاجرین کے لیے سرگرم ایک تنظیم کے مطابق دسمبر میں ملک بدر کیے گئے پاکستانیوں میں ایسے افراد بھی شامل تھے جن کے پاس پاسپورٹ یا دیگر سفری دستاویزات نہیں تھیں۔ ان میں سے زیادہ تر افراد جرائم پیشہ تھے اور انہیں قید سے ہی نکال کر پاکستان بھیج دیا گیا تھا۔
اس سے قبل تک پاکستانیوں کی ملک بدری کے لیے عام طور پر سفری دستاویزات کی موجودگی لازمی تھی۔ اسی تناظر میں امدادی تنظیم جرمنی میں مقیم پناہ کے مسترد درخواست گزار پاکستانیوں کو متنبہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ملک بدریوں سے بچنے کے لیے پہلے ہی اپنے وکلا سے مشاورت کر لیں۔
جرمنی میں برسر روزگار غیر ملکیوں کا تعلق کن ممالک سے؟
وفاقی جرمن دفتر روزگار کے مطابق جرمنی میں کام کرنے والے بارہ فیصد افراد غیر ملکی ہیں۔ گزشتہ برس نومبر تک ملک میں چالیس لاکھ اٹھاون ہزار غیر ملکی شہری برسر روزگار تھے۔ ان ممالک پر ایک نظر اس پکچر گیلری میں:
تصویر: picture alliance/dpa/H. Schmidt
1۔ ترکی
جرمنی میں برسر روزگار غیر ملکیوں میں سے سب سے زیادہ افراد کا تعلق ترکی سے ہے۔ ایسے ترک باشندوں کی تعداد 5 لاکھ 47 ہزار بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
2۔ پولینڈ
یورپی ملک پولینڈ سے تعلق رکھنے والے 4 لاکھ 33 ہزار افراد گزشتہ برس نومبر تک کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں برسر روزگار تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
3۔ رومانیہ
رومانیہ سے تعلق رکھنے والے 3 لاکھ 66 ہزار افراد جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔
تصویر: AP
4۔ اٹلی
یورپی یونین کے رکن ملک اٹلی کے بھی 2 لاکھ 68 ہزار شہری جرمنی میں برسر روزگار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/McPHOTO
5۔ کروشیا
یورپی ملک کروشیا کے قریب 1 لاکھ 87 ہزار شہری جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Gerten
6۔ یونان
یورپی یونین کے رکن ملک یونان کے قریب 1 لاکھ 49 ہزار باشندے جرمنی میں برسر روزگار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Steffen
7۔ بلغاریہ
جرمنی میں ملازمت کرنے والے بلغاریہ کے شہریوں کی تعداد بھی 1 لاکھ 34 ہزار کے قریب ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
8۔ شام
شامی شہریوں کی بڑی تعداد حالیہ برسوں کے دوران بطور مہاجر جرمنی پہنچی تھی۔ ان میں سے قریب 1 لاکھ 7 ہزار شامی باشندے اب روزگار کی جرمن منڈی تک رسائی حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kögel
9۔ ہنگری
مہاجرین کے بارے میں سخت موقف رکھنے والے ملک ہنگری کے 1 لاکھ 6 ہزار شہری جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔
جرمنی میں کام کرنے والے روسی شہریوں کی تعداد 84 ہزار ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Schmidt
17۔ افغانستان
شامی مہاجرین کے بعد پناہ کی تلاش میں جرمنی کا رخ کرنے والوں میں افغان شہری سب سے نمایاں ہیں۔ جرمنی میں کام کرنے والے افغان شہریوں کی مجموعی تعداد 56 ہزار بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-U. Koch
19۔ بھارت
بھارتی شہری اس اعتبار سے انیسویں نمبر پر ہیں اور جرمنی میں کام کرنے والے بھارتیوں کی مجموعی تعداد 46 ہزار سے زائد ہے۔
تصویر: Bundesverband Deutsche Startups e.V.
27۔ پاکستان
نومبر 2018 تک کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں برسر روزگار پاکستانی شہریوں کی تعداد 22435 بنتی ہے۔ ان پاکستانی شہریوں میں قریب دو ہزار خواتین بھی شامل ہیں۔