1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

جرمنی پہلے کی نسبت ایک کم قابل بھروسہ پارٹنر، سروے

7 اکتوبر 2022

جرمنی کو بین الاقوامی طور پر پہلے کے مقابلے میں اب ایک نسبتاﹰ کم قابل اعتماد پارٹنرکے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔یہ بات حال ہی میں کیے گئے ایک سروے کے نتائج سے اخذ کی گئی ہے۔

Deutschland | Bundestag zu Coronapandemie | Angela Merkel und Olaf Scholz
تصویر: Markus Schreiber/AP Photo/picture alliance

جرمنی سے متعلق یہ سروے یورپ اور شمالی امریکہ کے درمیان تعاون کے فروغ کے لیے قائم امریکی تھنک ٹینک دی جرمن مارشل فنڈ(جی ایم ایف( اور ایک غیر سرکاری تنظیم بیرٹلزمن فاؤنڈیشن کی جانب سے 14 ممالک میں کیا گیا۔جرمنی کے ایک قابل اعتماد شراکت دار کے تصور میں2021 ء کے مقابلے میں سب سے زیادہ 15 پوائنٹس کی کمی پولینڈ میں آئی جبکہ ترکی میں یہ کمی 11 اور امریکہ میں نو پوائنٹس نوٹ کی گئی۔

بیرٹلزمن فاؤنڈیشن کے ایک محقق اور اس رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک، برینڈن بوہرن نے کہا کہ جرمنی پر اس کے دیگر شراکت داروں کی طرف سے اعتماد میں اس کمی کی وجوہات کافی واضح ہیں،''آپ یورپ میں جس قدر مشرق میں جائیں گے وہاں جرمنی کی  یوکرین کی جنگ میں شمولیت اور فوجی مدد کے بارے میں احساسات پائے جاتے ہیں- مجھے لگتا ہے کہ ہم پولینڈ کے معاملے میں یہی دیکھ رہے ہیں۔‘‘

یوکرینی صدر وولادیمیر زیلنسکی نے مارچ میں جرمن اراکین پارلیمنٹ سے خطاب کیاتصویر: Markus Schreiber/AP Photo/picture alliance

تاہم جرمن مارشل فنڈ کے سینئر فیلو بروس اسٹوکس کے مطابق جرمنی سے متعلق یہ تصور ہمیشہ ہی درست نہیں۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ برلن حکومت رومانیہ اور لتھوانیا میں تعینات نیٹو افواج میں ایک اہم حصہ دار ہے اور ان ملکوں میں بالتریب 82 اور 70 فیصد شہری جرمنی کو ایک قابل بھروسہ شراکت دار کے طور پر دیکھتے ہیں۔ بروس اسٹوکس کا مزید کہنا تھا، ''یہ اس کے برعکس ہے جس کی توقع آپ  آج کل کی خبریں پڑھ کر لگا سکتے ہیں۔‘‘

اس مطالعہ کے دوسرے شریک مصنف اور پیرس میں جی ایم ایف کے تحقیقی تجزیہ کار جیسین ویبر کا کہنا ہے کہ درحقیقت جرمنی دنیا کے تین سب سے زیادہ قابل اعتماد ممالک میں شامل ہے، اس سروے میں اوسطاً 70فیصد جواب دہندگان جرمنی کو ایک قابل اعتماد پارٹنر سمجھتے ہیں۔ ویبر نے کہا، ''ہم ایک بہت ہی اعلی سطح پر اعتماد کھو جانے کے نقصان کے بارے میں شکایت کر رہے ہیں۔‘‘

بھروسہ کیا ہے؟

رائے عامہ کا اس سروےمیں 14 ممالک(تمام بڑے یورپی یونین کے ممبران کے علاوہ ترکی، برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا) میں سے ہر ایک میں 1500 افراد کے نمائندہ نمونوں کا احاطہ کیا گیا تھا۔

جرمن چانسلر اولاف شولس کو اقتدار میں آنے کے بعد سے متعدد علاقائی اور عالمی چیلنجز کا سامنا ہےتصویر: Markus Schreiber/AP Photo/picture alliance

یہ سروے جون کے آخر اور جولائی کے اوائل میں روس۔یوکرین جنگ کے چار ماہ بعد کیا گیا تھا۔ ''بھروسے کے لائق‘‘ ہونےکے بارے میں مختلف جواب دہندگان کے مختلف تصورات ہو سکتے ہیں، حالانکہ جی ایم ایف کے تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ اس سروے کے وقت کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ روس کے یوکرین پر حملے سے پیدا ہونے والی بین الاقوامی ہنگامہ آرائی نے جواب دہندگان کے ردعمل کو متاثر کیا ہوگا۔

جرمن امریکہ کو کیسے دیکھتے ہیں؟

جرمنی اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں عدم توازن بھی شاید اتنا ہی دلچسپ ہے جتنا کہ جرمنی پر بھروسے  کے بارے میں امریکی تصور میں کمی آئی ہے۔ جرمنوں کے امریکہ کے بارے میں ایک پارٹنر کے تصور میں 2021ء کے مقابلے میں تقریباً 14 فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہوا ہے، جو کہ کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں بڑا اضافہ ہے۔

جرمنوں کے امریکہ پر اس اعتماد کی وجہ شاید 2021 ء کے آغاز میں امریکی انتظامیہ میں تبدیلی ہے، اور یہ احساس کہ صدر جو بائیڈن اپنے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں جرمنی کے ساتھ ٹرانس اٹلانٹک اتحاد کے بہت زیادہ حامی ہیں۔

لیکن اس بات کے بھی شواہد موجود ہیں کہ یوکرین کے لیے امریکہ کی فعال حمایت نے جرمنوں کی نظر میں واشنگٹن کی حیثیت میں اضافہ کیا ہے- ایک اور ملک جس نے جرمنی کے اس پر بھروسے میں اضافہ دیکھا وہ ملک برطانیہ ہے، جس پر گزشتہ سال کے مقابلے میں جرمنی کے بھروسے میں 11 پوائنٹس کا اضافہ ہوا ہے۔

یورپی شہریوں کی اکثریت امریکی صدر جو بائیڈن کے بین الاقوامی امور سے نمٹنے کی صلاحیتوں کی قائل ہےتصویر: picture alliance / Consolidated News Photos

بائیڈن کے بین الاقوامی معاملات سے نمٹنے کو پورے یورپ میں مثبت طور پر پذیرائی ملی ہے، خاص طور پر پولینڈ اور لتھوانیا میں، جہاں 70 فیصد سے زیادہ لوگوں میں بائیڈن کے اقدامات کی قبولیت ہے۔ تقریباً 64 فیصد جرمن بھی بائیڈن کے عالمی معاملات کو سنبھالنے کی منظوری دیتے ہیں۔

لیکن ساتھ ہی ساتھ مستقبل میں امریکہ کے کردار کےحوالے سے دوسرے ممالک کی طرح جرمنی میں بھی مایوسی بڑھ رہی ہے۔ اس سروے کے مطابق  بحر اوقیانوس کے دونوں اطراف کے لوگ توقع کرتے ہیں کہ اگلے پانچ سالوں میں امریکہ کا اثر و رسوخ کم ہو جائے گا، ''اس وقت 64 فیصد لوگ امریکہ کو سب سے زیادہ بااثر ملک سمجھتے ہیں جبکہ  مسقتبل میں صرف 37 فیصد لوگ اس امریکی اثروروسوخ کے قائل رہ جائیں گے۔‘‘

بروس اسٹوکس کے مطابق، ''میں کہوں گا کہ تقریباً ہر یورپی جس سے میں بات کرتا ہوں، گفتگو کے دوران کسی موقع پر پوچھے گا: کیا ٹرمپ واپس آ رہے ہیں؟‘‘

یوکرینی جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہچکچاہٹ کے بعد اب جرمنی یوکرین کو فوجی امداد مہیا کر رہا ہےتصویر: Frank Hofmann/DW

یوکرین کے لیے مضبوط حمایت

دریں اثنا، جرمنی کو کچھ حد تک یورپ میں سب سے زیادہ بااثر ملک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔سروے کے مطابق 14 ممالک میں اوسطاً 75فیصد ممالک میں جرمنی کے اثرورسوخ کو تسلیم کیا گیا جبکہ  فرانس میں 65  اور برطانیہ میں 55 فیصد جواب دہنگان جرمنی کو ایک با اثر ملک سمجھتے ہیں۔

اس بارے میں محقق جیسین ویبر نے جرمن وزیر دفاع کرسٹیان لامبریشٹ  کی ایک حالیہ تقریر کا حوالہ دیا جس میں  انہوں نے کہا تھا، ''جرمنی کو اکثر یورپی یونین میں اس کے اقتصادی وزن اور ووٹنگ کی طاقت کی وجہ سےقدرتی طور پر ایک یورپی رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

لیکن یقیناً اس رتبے سے بڑی توقعات بھی وابستہ ہیں۔ اس کا اندازہ یوکرین کو مزید ہتھیار بھجوانے کے لیے جرمنی پر ڈالے گئے بین الاقوامی دباؤ سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ ویبر نے کہا، "مجموعی طور پر، جب (یوکرین کو) ٹینکوں کی ترسیل کی بات آتی ہے، تو میرے خیال میں جرمنی شروع میں بہت تذبذب کا شکار تھا۔اس کے بعد فروری کے آخر میں چانسلر اولاف شولس کی مشہور ''ٹرننگ آف دی ٹائم‘‘ تقریر ہوئی، جس نے جرمنی سے توقعات کو بڑھا دیا۔‘‘

بینجمن نائٹ (ش ر ⁄ ع ب )

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں