جرمنی کی ایک عدالت نے افغانستان اور ایران سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی چار افراد کو سزائیں سنا دی گئی ہیں۔ ان پر الزام تھا کہ وہ جرمن شہر امبرگ میں شہریوں پر حملوں میں ملوث تھے۔
اشتہار
خبر رساں اداروں کے مطابق جرمن شہر امبرگ کی ایک عدالت نے چار مہاجرین کو سزائیں سنا دی ہیں۔ جرمن صوبے باویریا میں ان غیر ملکیوں نے راہ چلتے لوگوں پر مبینہ حملے کیے تھے۔ سن دو ہزار اٹھارہ کے سال نو کے موقع پر کیے گئے ان حملوں کی خبریں عام ہونے کے بعد جرمنی بھر میں یہ بحث شروع ہو گئی تھی کہ پناہ کے متلاشی ایسے افراد کو ملک بدر کر دیا جائے، جو جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔
طویل عدالتی کارروائی کے بعد دس مئی بروز جمعہ امبرگ کی عدالت نے تین ملزمان کو معطل سزائیں سنائیں جبکہ چار مہاجرین کو دو دو برس کی سزائے قید سنائی۔ انتیس دسمبر سن دو ہزار اٹھارہ میں کیے گئے ان حملوں میں پندرہ شہری زخمی ہوئے تھے۔ ان واقعات کو جرمن میڈیا میں بڑے پیمانے پر کوریج بھی دی گئی تھی۔
حملے کس نوعیت کے تھے
ایران اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے چار نوجوان مہاجرین نے باویریا کے شہر امبرگ میں اکیس افراد کو جسمانی اور زبانی تشدد کا نشانہ بنایا
ان حملوں میں پندرہ افراد زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر بچے تھے۔
حملوں آوروں میں سے تین نے اعتراف کیا کہ حملوں کے وقت وہ الکوحل اور ممنوعہ منشیات کے اثر میں تھے۔
نہ ختم ہونے والی بحث
ان واقعات کی وجہ سے جرمنی میں شروع ہونے والی بحث ابھی تک جاری ہے۔ انہی حملوں کے بعد قدامت پسند جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے حکومت پر زور دیا تھا کہ ایسے مہاجرین کو ملک بدر کیے جانے کی راہ ہموار کرنا چاہیے، جو جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کے حلقوں نے بھی ان واقعات کو اپنے مقاصد کی خاطر استعمال کیا۔ جرمنی میں مہاجرین کے بحران کی وجہ سے مہاجرت مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی کی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔
جرمن قوانین کے مطابق پناہ کا متلاشی کوئی فرد اگر کسی جرم میں کم از کم تین سال کی سزا پاتا ہے تو اسے آسانی کے ساتھ ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ایسے مہاجرین جو چھوٹے موٹے جرائم کے تحت سزا پاتے ہیں، یا وہ امن عامہ یا سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیے جاتے ہیں تو انہیں جرمنی سے نکالنا قانونی طور پر ایک پیچیدہ عمل ہے۔
ع ب / ع ت / خبر رساں ادارے
مہاجرین کے مبینہ جرائم پر دائیں بازو کا رد عمل شدید تر
جرمنی میں حالیہ کچھ عرصے میں ایک طرف جہاں مہاجرین کی طرف سے مبینہ جرائم کی خبریں سامنے آ رہی ہیں وہیں ملک میں انتہائی دائیں بازو کی جانب سے ان کے خلاف جذبات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ملاحظہ کیجیے یہ پکچر گیلری۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
جرمن شہری کی ہلاکت اور مظاہروں کا آغاز
کیمنٹس میں چھبیس اگست سے انتہائی دائیں بازو کی سوچ کے حامل افراد نے مظاہروں کا سلسلہ اُس وقت شروع کیا تھا جب ایک جرمن شہری کو سیاسی پناہ کے دو متلاشیوں نے ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: Jan Woitas/dpa/picture alliance
مظاہروں کے خلاف مظاہرے
اگرچہ رواں ماہ کی سات تاریخ کو کیمنٹس میں رائٹ ونگ گروپوں کے ارکان نے بھرپور مہاجرین مخالف مظاہرے کیے تاہم اگلے ہی روز کیمنٹس کے شہریوں نے بھی بڑی تعداد میں مہاجرین مخالف مظاہروں کے خلاف مظاہرے کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
مسائل کی ماں مہاجرت
انہی مظاہروں کے درمیان جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کی جانب سے بھی پناہ گزینوں کی مخالفت میں ایک تنقیدی بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ مہاجرت ہی تمام مسائل کی ماں ہے۔ زیہوفر نے کیمنٹس میں رائٹ وِنگ کی جانب سے کیے گئے مظاہروں پر تنقید بھی نہیں کی۔
تصویر: Imago/Sven Simon/F. Hoermann
میا وی کے قاتل کو سزائے قید
ستمبر کی تین تاریخ کو جنوب مغربی جرمن شہر لنڈاؤ میں ایک جرمن عدالت نے عبدل ڈی نامی ایک افغان تارک وطن کو پندرہ سالہ جرمن لڑکی میا وی کو قتل کرنے کے جرم میں ساڑھے آٹھ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ میا وی کی ہلاکت پر بھی اُس کے شہر کانڈل میں تارکین وطن کے خلاف مظاہرے کیے گئے تھے۔
تصویر: DW/A. Prange
ایک اور افغان مہاجر جیل میں
رواں ہفتے کے اختتام پر جرمن شہر ڈارم شٹڈ کی ایک عدالت نے ایک اور افغان مہاجر کو اپنی سترہ سالہ سابقہ گرل فرینڈ کو چاقو سے شدید زخمی کرنے کے جرم میں سات سال جیل کی سزا سنائی تھی۔ نو عمر افغان پناہ گزین پر الزام تھا کہ اس نے سن 2017 میں کرسمس سے قبل اپنی سابقہ گرل فرینڈ پر چاقو سے حملہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stein
کوئتھن، جرمن نوجوان کی ہلاکت
ابھی کیمنٹس شہر میں تناؤ پوری طرح کم نہ ہوا تھا کہ جرمن ریاست سیکسنی اَن ہالٹ کے شہر کوئتھن میں ایک بائیس سالہ جرمن نوجوان کی دو افغان مہاجرین کے ہاتھوں مبینہ قتل نے ہلچل مچا دی۔ ریاست کے وزیر داخلہ ہولگر شٹالک نیخت نے شہریوں سے پر امن رہنے کی اپیل کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Hein
کوئتھن میں مظاہرے
مقامی پولیس کے مطابق ’کیمنٹس پرو‘ گروہ کی طرف سے سوشل میڈیا پر کوئتھن میں مظاہرے کی کال دی گئی جس پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے مثبت ردعمل ظاہر کیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس مظاہرے میں پچیس ہزار افراد شریک ہوئے۔ جس میں چار سو سے پانچ سو افراد کا تعلق انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل افراد سے تھا۔