سن دو ہزار سولہ کے دوران رضا کارانہ طور پر جرمنی چھوڑنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا۔ ساتھ ہی ایسے مہاجرین کی تعداد بھی بڑھی ہے، جنہیں جرمنی کی سرحدوں سے واپس بھیج دیا گیا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے جرمن میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ سن دو ہزار سولہ کے دوران رضا کارانہ طور پر جرمنی سے واپس جانے والے مہاجرین کی تعداد گزشتہ سولہ برسوں میں سب سے زیادہ رہی۔ رواں برس ایسے مہاجرین کی تعداد تقریبا 55 ہزار تھی، جو واپس اپنے ملکوں کو لوٹ گئے تھے جبکہ بیس یزار ایسے تھے، جنہیں جرمنی داخل ہونے سے ہی روک دیا گیا۔
جرمن اخبار ’زُوڈ ڈوئچے سائٹنگ‘ نے بدھ کے دن اپنی ایک رپورٹ میں جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرین BAMF کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ اپنے وطنوں کو واپس لوٹنے والے مہاجرین میں سے بڑی تعداد کا تعلق بلقان کی ریاستوں سے تھا، جنہیں جرمنی میں پناہ دیے جانے کے امکانات انتہائی کم تھے۔
جرمن حکومت گزشتہ دو برسوں سے پناہ کے قوانین میں سختی لا چکی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یورپ کے اس اقتصادی پاور ہاؤس میں پناہ حاصل کرنے کے خواہش مند غیر ملکیوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا تھا، جس کے بعد اس تناظر میں قوانین میں ترامیم کی گئیں۔ ایک سال قبل 2016 کے استقبال کے موقع پر جرمن شہر کولون میں خواتین پر کیے گئے سلسلہ وار جسمانی اور جنسی حملے بھی ان قوانین میں سختی کے محرک قرار دیے جاتے ہیں۔
مہاجرت کے بحران کے نتیجے میں یورپ اور بالخصوص جرمنی پہنچنے والے مہاجرین میں سب سے زیادہ تعداد مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ جرمن آئین بھی جنگ اور ظلم و ستم کے مارے لوگوں کو ملک میں پناہ دیے جانے پر زور دیتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق رواں برس کے دوران جرمنی سے ڈی پورٹ کیے جانے والے مہاجرین کی کل تعداد پچیس ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر رضا کارانہ طور پر اپنے ممالک کو گئے یا جائیں گے کیونکہ وہ زبردستی جرمنی سے نکالے جانے سے بچنا چاہتے ہیں۔ جرمن قوانین کے مطابق ایسے مہاجرین جنہیں زبردستی ملک سے نکالا جاتا ہے، وہ کئی برسوں تک دوبارہ جرمنی میں داخل نہیں ہو سکتے۔
یورپ میں مہاجرین کا بحران کیسے شروع ہوا؟
مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ممالک میں بڑھتی ہوئی شورش مہاجرت کے عالمی بحران کا سبب بنی ہے۔ اس تناظر میں یورپ بھی متاثر ہوا ہے۔ آئیے تصویری شکل میں دیکھتے ہیں کہ اس بحران سے نمٹنے کی خاطر یورپ نے کیا پالیسی اختیار کی۔
تصویر: picture-alliance/PIXSELL
جنگ اور غربت سے فرار
سن دو ہزار چودہ میں شامی بحران کے چوتھے سال میں داخل ہوتے ہی جہاں اس عرب ملک میں تباہی عروج پر پہنچی وہاں دوسری طرف انتہا پسند گروہ داعش نے ملک کے شمالی علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا۔ یوں شام سے مہاجرت کا سلسلہ تیز تر ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی تنازعات اور غربت نے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ان ممالک میں عراق، افغانستان، ارتریا، صومالیہ، نائجر اور کوسووو نمایاں رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پناہ کی تلاش
شامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد سن دو ہزار گیارہ سے ہی جنگ و جدل سے چھٹکارہ پانے کی خاطر ہمسائے ممالک ترکی، لبنان اور اردن کا رخ کرنے لگی تھی۔ لیکن سن دو ہزار پندرہ میں یہ بحران زیادہ شدید ہو گیا۔ ان ممالک میں شامی مہاجرین اپنے لیے روزگار اور بچوں کے لیے تعلیم کے کم مواقع کی وجہ سے آگے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ تب مہاجرین نے یورپ کا رخ کرنا بھی شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
طویل مسافت لیکن پیدل ہی
سن دو ہزار پندرہ میں 1.5 ملین شامی مہاجرین نے بلقان کے مختلف رستوں سے پیدل ہی یونان سے مغربی یورپ کی طرف سفر کیا۔ مہاجرین کی کوشش تھی کہ وہ یورپ کے مالدار ممالک پہنچ جائیں۔ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے سبب یورپی یونین میں بغیر ویزے کے سفر کرنے والا شینگن معاہدہ بھی وجہ بحث بن گیا۔ کئی ممالک نے اپنی قومی سرحدوں کی نگرانی بھی شروع کر دی تاکہ غیر قانونی مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
تصویر: Getty Images/M. Cardy
سمندرعبور کرنے کی کوشش
افریقی ممالک سے یورپ پہنچنے کے خواہمشند پناہ کے متلاشی نے بحیرہ روم کو عبور کرکے اٹلی پہنچنے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ اس دوران گنجائش سے زیادہ افراد کو لیے کئی کشتیاں حادثات کا شکار بھی ہوئیں۔ اپریل سن 2015 میں کشتی کے ایک خونریز ترین حادثے میں آٹھ سو افراد ہلاک گئے۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ رواں برس اس سمندری راستے کو عبور کرنے کی کوشش میں تقریبا چار ہزار مہاجرین غرق سمندر ہوئے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
یورپی ممالک پر دباؤ
مہاجرین کی آمد کے سلسلے کو روکنے کی خاطر یورپی یونین رکن ممالک کے ہمسایہ ممالک پر دباؤ بڑھتا گیا۔ اس مقصد کے لیے ہنگری، سلووینیہ، مقدونیہ اور آسٹریا نے اپنی قومی سرحدوں پر باڑیں نصب کر دیں۔ پناہ کے حصول کے قوانین میں سختی پیدا کر دی گئی جبکہ شینگن زون کے رکن ممالک نے قومی بارڈرز پر عارضی طور پر چیکنگ کا نظام متعارف کرا دیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/B. Mohai
کھلا دروازہ بند ہوتا ہوا
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مہاجرین کی یورپ آمد کے لیے فراخدلانہ پالیسی اپنائی۔ تاہم ان کے سیاسی مخالفین کا دعویٰ ہے کہ میرکل کی اسی پالیسی کے باعث مہاجرین کا بحران زیادہ شدید ہوا، کیونکہ یوں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو تحریک ملی کہ وہ یورپ کا رخ کریں۔ ستمبر سن دو ہزار سولہ میں بالاخر جرمنی نے بھی آسٹریا کی سرحد پر عارضی طور پر سکیورٹی چیکنگ شروع کر دی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
ترکی کے ساتھ ڈیل
سن دو ہزار سولہ کے اوائل میں یورپی یونین اور ترکی کے مابین ایک ڈیل طے پائی، جس کا مقصد ترکی میں موجود شامی مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنا تھا۔ اس ڈیل میں یہ بھی طے پایا کہ یونان پہنچنے والے مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کیا جائے گا۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس ڈیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ڈیل کی وجہ سے یورپ آنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan
مہاجرین کا نہ ختم ہونے والا بحران
مہاجرین کے بحران کی وجہ سے یورپ میں مہاجرت مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپی ممالک ابھی تک اس بحران کے حل کی خاطر کسی لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ رکن ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا کوٹہ سسٹم بھی عملی طور پرغیرمؤثر ہو چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور دیگر کئی ممالک میں بدامنی کا خاتمہ ابھی تک ختم ہوتا نظر نہیں آتا جبکہ مہاجرت کا سفر اختیار کرنے والے افراد کی اموات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Mitrolidis
8 تصاویر1 | 8
جرمن میڈیا نے بدھ کے دن ہی بتایا کہ رواں برس کے دوران جرمن سرحدوں سے واپس بھیجے جانے والے مہاجرین کی تعداد تقریبا بیس ہزار بنتی ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق جنوری سے نومبر تک انیس ہزار سات سو بیس مہاجرین کو جرمنی میں داخل ہونے سے روکا گیا۔ اس حوالے سے سن دو ہزار سولہ کے آخری مہینے کے اعداد و شمار ابھی تک مرتب نہیں کیے گئے۔
سن دو ہزار پندرہ میں ملکی سرحدوں سے واپس بھیجے جانے والے مہاجرین کی تعداد آٹھ ہزار نو سو تیرہ رہی تھی، یوں سن دو ہزار سولہ میں اس تعداد میں سو فیصد سے بھی زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ دو ہزار سولہ میں جرمنی بدر کیے جانے والے افغان مہاجرین کی تعداد تین ہزار چھ سو پچانوے بتائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ملکی سرحدوں سے واپس بھیج دیے جانے والے شامیوں کی تعداد دو ہزار ایک سو بیالیس، عراقیوں کی ایک ہزار چورانوے اور نائجیریا سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد ایک ہزار دو سو سینتیس بنتی ہے۔