رواں برس جرمن حکام نے ڈبلن ضوابط کے تحت سختی کرتے ہوئے ایسے تارکین وطن کی دیگر یورپی ممالک کی جانب ملک بدریوں میں اضافہ کیا ہے، جنہوں نے جرمنی آمد سے قبل یونین کے کسی دوسرے رکن ملک میں پناہ کی درخواست جمع کرائی تھی۔
اشتہار
یورپی یونین مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی ترتیب دینے کی کوششوں میں ہے۔ اس معاملے میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر امانوئل ماکروں مشترکہ حکمت عملی کے مضبوط حامی ہیں جب کہ نئی اطالوی حکومت، آسٹریا اور دیگر مشرقی یورپی ممالک کے سربراہان اس حوالے سے جرمن تجاویز سے متفق نہیں ہیں۔
مہاجرین کا بحران شروع ہونے کے بعد سے اٹلی اور یونان سے مہاجرین کی دیگر یورپی ممالک میں منصفانہ تقسیم کا منصوبہ اختلافات کا سبب بنا رہا ہے اور اب نئی اطالوی عوامیت پسند حکومت ڈبلن ضوابط بھی ختم کرنا چاہتی ہے۔ ڈبلن ضوابط کے مطابق پناہ کے متلاشی افراد صرف اسی ملک میں اپنی پناہ کی درخواستیں جمع کرا سکتے ہیں، جس ملک کے ذریعے وہ یونین کی حدود میں داخل ہوئے تھے۔
چانسلر میرکل نے سن 2015 میں ڈبلن ضوابط عارضی طور پر ختم کرتے ہوئے ہنگری، آسٹریا اور بلقان کی ریاستوں میں موجود لاکھوں مہاجرین کے لیے جرمنی کے دروازے کھول دیے تھے۔ ان میں ایسے تارکین وطن کی بڑی تعداد بھی شامل تھی جنہوں نے جرمنی آمد سے قبل یونین کے کسی دوسرے رکن ملک میں حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرا رکھی تھی۔
ایک مقامی جرمن اخبار ’زوڈ ڈوئچے سائٹنگ‘ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ یورپی یونین کی سطح پر مشترکہ حکمت عملی ترتیب کے حوالے سے سامنے آنے والے اختلافات کے بعد سے جرمنی نے ڈبلن ضوابط کے تحت پناہ گزینوں کو ملک بدر کر کے دیگر یورپی ممالک کی جانب بھیجنے کا سلسلہ بھی تیز کر دیا ہے۔
رواں برس جنوری سے لے کر مئی کے اختتام تک چار ہزار ایک سو تارکین وطن کو ڈبلن ضوابط کے تحت ملک بدر کیا جا چکا ہے۔ اخبار کے مطابق یہ اعداد و شمار وفاقی جرمن حکومت نے بائیں بازو کی سیاسی جماعت ’دی لنکے‘ کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں جاری کیے ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ رواں برس ڈبلن ضوابط کے تحت ملک بدر کیے جانے والے افراد کی تعداد دس ہزار سے زائد ہو سکتی ہے۔ سن 2017 کے دوران یہ تعداد سات ہزار ایک سو رہی تھی۔
اہم امر یہ بھی ہے کہ اس برس کے آغاز سے لے کر اب تک جرمنی آنے والے تارکین وطن کو کسی دوسرے یورپ ملک کی جانب بھیجے جانے کی شرح ماضی کے مقابلے میں کہی زیادہ ہے۔ جنوری سے لے کر مئی کے اختتام تک مجموعی طور پر جتنے تارکین وطن پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے ان میں سے اڑتیس فیصد کہ درخواستیں یہ کہہ کر لوٹا دی گئیں کہ وہ ڈبلن ضوابط کے تحت کسی دوسرے یورپی ملک میں پناہ کی درخواست جمع کرا سکتے ہیں۔ سن 2016 کے دوران یہ شرح محض تیرہ فیصد رہی تھی۔
ان یورپی قوانین کے تحت جرمنی سے ملک بدر کیے جانے والے زیادہ تر تارکین وطن کو اٹلی بھیجا گیا ہے۔
ش ح / ع ق (ڈی پی اے، روئٹرز)
تارکین وطن کی سماجی قبولیت، کن ممالک میں زیادہ؟
’اپسوس پبلک افیئرز‘ نامی ادارے نے اپنے ایک تازہ انڈیکس میں ستائیس ممالک کا جائزہ لے کر بتایا ہے کہ کن ممالک میں غیر ملکیوں کو مرکزی سماجی دھارے میں قبول کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/ dpa
۱۔ کینیڈا
پچپن کے مجموعی اسکور کے ساتھ تارکین وطن کو معاشرتی سطح پر ملک کا ’حقیقی‘ شہری تسلیم کرنے میں کینیڈا سب سے نمایاں ہے۔ کینیڈا میں مختلف مذاہب، جنسی رجحانات اور سیاسی نظریات کے حامل غیر ملکیوں کو مرکزی سماجی دھارے میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ ترک وطن پس منظر کے حامل ایسے افراد کو، جو کینیڈا میں پیدا ہوئے، حقیقی کینیڈین شہری کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/N. Denette
۲۔ امریکا
انڈیکس میں امریکا دوسرے نمبر پر ہے جس کا مجموعی اسکور 54 رہا۔ امریکی پاسپورٹ حاصل کرنے والے افراد اور ترک وطن پس منظر رکھنے والوں کو حقیقی امریکی شہری کے طور پر ہی سماجی سطح پر قبول کیا جاتا ہے۔
تصویر: Picture-Alliance/AP Photo/S. Senne
۳۔ جنوبی افریقہ
تارکین وطن کی سماجی قبولیت کے انڈیکس میں 52 کے مجموعی اسکور کے ساتھ جنوبی افریقہ تیسرے نمبر پر ہے۔ مختلف مذاہب کے پیروکار غیر ملکیوں کی سماجی قبولیت کی صورت حال جنوبی افریقہ میں کافی بہتر ہے۔ تاہم 33 کے اسکور کے ساتھ معاشرتی سطح پر شہریت کے حصول کے بعد بھی غیر ملکیوں کو بطور ’حقیقی‘ شہری تسلیم کرنے کا رجحان کم ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Khan
۴۔ فرانس
چوتھے نمبر پر فرانس ہے جہاں سماجی سطح پر غیر ملکی ہم جنس پرست تارکین وطن کی سماجی قبولیت دیگر ممالک کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ تاہم جنوبی افریقہ کی طرح فرانس میں بھی پاسپورٹ حاصل کرنے کے باوجود تارکین وطن کو سماجی طور پر حقیقی فرانسیسی شہری قبول کرنے کے حوالے سے فرانس کا اسکور 27 رہا۔
تصویر: Reuters/Platiau
۵۔ آسٹریلیا
پانچویں نمبر پر آسٹریلیا ہے جس کا مجموعی اسکور 44 ہے۔ سماجی سطح پر اس ملک میں شہریت حاصل کر لینے والے غیر ملکیوں کی بطور آسٹریلین شہری شناخت تسلیم کر لی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں غیر ملکی افراد کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کو بھی معاشرہ حقیقی آسٹریلوی شہری قبول کرتا ہے۔
تصویر: Reuters
۶۔ چلی
جنوبی افریقی ملک چلی اس فہرست میں بیالیس کے اسکور کے ساتھ چھٹے نمبر پر ہے۔ ہم جنس پرست غیر ملکی تارکین وطن کی سماجی قبولیت کے حوالے سے چلی فرانس کے بعد دوسرا نمایاں ترین ملک بھی ہے۔ تاہم دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو ملکی مرکزی سماجی دھارے کا حصہ سمجھنے کے حوالے سے چلی کا اسکور محض 33 رہا۔
تصویر: Reuters/R. Garrido
۷۔ ارجنٹائن
ارجنٹائن چالیس کے مجموعی اسکور کے ساتھ اس درجہ بندی میں ساتویں نمبر پر ہے۔ تارکین وطن کی دوسری نسل اور ہم جنس پرست افراد کی سماجی سطح پر قبولیت کے حوالے سے اجنٹائن کا اسکور 65 سے زائد رہا۔
تصویر: Reuters/R. Garrido
۸۔ سویڈن
سویڈن کا مجموعی اسکور 38 رہا۔ ہم جنس پرست تارکین وطن کی قبولیت کے حوالے سے سویڈن کو 69 پوائنٹس ملے جب کہ مقامی پاسپورٹ کے حصول کے بعد بھی تارکین وطن کو بطور حقیقی شہری تسلیم کرنے کے سلسلے میں سویڈن کو 26 پوائنٹس دیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۹۔ سپین
تارکین وطن کی سماجی قبولیت کے لحاظ سے اسپین کا مجموعی اسکور 36 رہا اور وہ اس فہرست میں نویں نمبر پر ہے۔ ہسپانوی شہریت کے حصول کے بعد بھی غیر ملکی افراد کی سماجی قبولیت کے ضمن میں اسپین کا اسکور محض 25 جب کہ تارکین وطن کی دوسری نسل کو حقیقی ہسپانوی شہری تسلیم کرنے کے حوالے سے اسکور 54 رہا۔
تصویر: picture-alliance/Eventpress
۱۰۔ برطانیہ
اس درجہ بندی میں پینتیس کے مجموعی اسکور کے ساتھ برطانیہ دسویں نمبر پر ہے۔ اسپین کی طرح برطانیہ میں بھی تارکین وطن کی دوسری نسل کو برطانوی شہری تصور کرنے کا سماجی رجحان بہتر ہے۔ تاہم برطانوی پاسپورٹ حاصل کرنے کے بعد بھی تارکین وطن کو حقیقی برطانوی شہری تسلیم کرنے کے حوالے سے برطانیہ کا اسکور تیس رہا۔
تصویر: Reuters/H. Nicholls
۱۶۔ جرمنی
جرمنی اس درجہ بندی میں سولہویں نمبر پر ہے۔ جرمنی میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی سماجی قبولیت کینیڈا اور امریکا کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ اس حوالے سے جرمنی کا اسکور محض 11 رہا۔ اسی طرح جرمن پاسپورٹ مل جانے کے بعد بھی غیر ملکیوں کو جرمن شہری تسلیم کرنے کے سماجی رجحان میں بھی جرمنی کا اسکور 20 رہا۔
تصویر: Imago/R. Peters
۲۱۔ ترکی
اکیسویں نمبر پر ترکی ہے جس کا مجموعی اسکور منفی چھ رہا۔ ترکی میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو سماجی سطح پر ترک شہری تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اس ضمن میں ترکی کو منفی بارہ پوائنٹس دیے گئے۔ جب کہ پاسپورٹ کے حصول کے بعد بھی تارکین وطن کو حقیقی ترک شہری تسلیم کرنے کے حوالے سے ترکی کا اسکور منفی بائیس رہا۔