جرمنی میں پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی سب سے زیادہ تعداد اٹلی بھیجی گئی۔ یورپی یونین کے ڈبلن ضوابط کے تحت پناہ کے متلاشی افراد انہیں ممالک میں درخواستیں جمع کرا سکتے ہیں، جہاں سے وہ یونین کی حدود میں داخل ہوئے تھے۔
اشتہار
جرمن اخبار ’زوڈ ڈوئچے زائٹنگ‘ نے وفاقی وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ سن 2018 میں یورپی یونین کے ’ڈبلن ضوابط‘ کے تحت جرمنی سے سیاسی پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کو ریکارڈ تعداد میں ملک بدر کر کے یونین کے دیگر رکن ممالک بھیجا گیا۔ وفاقی وزارت داخلہ نے یہ رپورٹ بائیں بازو کی سیاسی جماعت ’دی لنکے‘ کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں جاری کی تھی۔
’ملک بدریوں میں اضافہ‘
اس رپورٹ کے مطابق جرمنی سے پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی ان کے آبائی وطنوں کی جانب ملک بدریوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔
گزشتہ برس کے اوائل سے لے کر نومبر کے مہینے کے آخر تک جرمن حکام نے 8658 تارکین وطن کو ملک بدر کیا تھا جب کہ اس سے گزشتہ برس یعنی سن 2017 میں مجموعی طور پر سات ہزار ایک سو تارکین وطن کو ملک بدر کیا گیا تھا۔
جرمنی سے پاکستانیوں کی ملک بدریاں: کب، کتنے، کس قیمت پر؟
گزشتہ برس جرمنی سے بائیس ہزار افراد کو ملک بدر کیا گیا جن میں سے قریب نو ہزار کو خصوصی پروازوں کے ذریعے وطن واپس بھیجا گیا۔ ان میں کتنے پاکستانی تھے اور انہیں کب اور کس قیمت پر ملک بدر کیا گیا؟ جانیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Seeger
26 جنوری 2017
اس دن جرمن شہر ہینوور کے ہوائی اڈے ایک خصوصی پرواز کے ذریعے سات پاکستانی تارکین وطن کو واپس پاکستان بھیجا گیا۔ اس فلائٹ میں چوبیس جرمن اہلکار بھی پاکستانی تارکین وطن کے ہمراہ تھے اور پرواز پر قریب سینتالیس ہزار یورو خرچ ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Maurer
7 مارچ 2017
ہینوور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے اس روز خصوصی پرواز کے ذریعے چودہ پاکستانی ملک بدر ہوئے۔ ان کے ہمراہ وفاقی جرمن پولیس اور دیگر وفاقی اداروں کے اٹھائیس اہلکار بھی تھے جب کہ ملک بدری کے لیے اس فلائٹ کا خرچہ پینتالیس ہزار یورو رہا۔
تصویر: Imago/epd
29 مارچ 2017
یونانی حکومت کے زیر انتظام ملک بدری کی یہ خصوصی پرواز بھی ہینوور ہی سے روانہ ہوئی جس کے ذریعے پانچ پاکستانی شہریوں کو وطن واپس بھیجا گیا۔ اس پرواز میں اٹھارہ جرمن اہلکار بھی سوار تھے اور فلائٹ کا خرچہ ساڑھے بیالیس ہزار یورو رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
25 اپریل 2017
اس روز بھی خصوصی پرواز ہینوور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے روانہ ہوئی جس کے ذریعے تین پاکستانی تارکین وطن کو ملک واپس بھیجا گیا۔ ان تارکین وطن کے ساتھ وفاقی جرمن پولیس کے گیارہ اہلکار بھی پاکستان گئے اور پرواز پر خرچہ اڑتیس ہزار یورو آیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P.Seeger
7 جون 2017
جرمن دارالحکومت برلن کے شونے فیلڈ ہوائی اڈے سے روانہ ہونے والی اس خصوصی پرواز کے ذریعے چودہ پاکستانی تارکین وطن ملک بدر کیے گئے۔ پرواز میں 37 جرمن اہلکار بھی موجود تھے اور خرچہ تیس ہزار یورو رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/B. Wüstneck
19 جولائی 2017
تارکین وطن کی اجتماعی ملک بدری کی اس خصوصی پرواز کا انتظام بھی ایتھنز حکومت نے کیا تھا اور اس کے ذریعے نو پاکستانی پناہ گزینوں کو ملک بدر کیا گیا۔ ہینوور ہی سے اکیس اہلکاروں اور نو تارکین وطن کو پاکستان لے جانے والی اس فلائٹ پر برلن حکومت کے ساڑھے سینتیس ہزار یورو خرچ ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
5 ستمبر 2017
آسٹرین حکومت کے زیر انتظام یہ پرواز ہینوور کے ہوائی اڈے سے ایک پاکستانی شہری کو وطن واپس لے گئی جس کے ہمراہ چار جرمن اہلکار بھی تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Willnow
20 ستمبر 2017
اسی ماہ کی بیس تاریخ کو ہینوور ہی سے ایک خصوصی پرواز گیارہ تارکین وطن کو واپس پاکستان لے گئی اور ان کے ہمراہ بیس جرمن اہلکار بھی تھے۔ اس پرواز کے لیے جرمن حکومت نے ساڑھے سینتیس ہزار یور خرچ کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
7 نومبر 2017
اس روز بھی آسٹرین حکومت کے زیر انتظام ایک خصوصی پرواز میں جرمن شہر ہینوور سے پانچ پاکستانیوں کو ملک بدر کیا گیا۔ بیس جرمن اہلکار بھی ان کے ساتھ تھے اور پرواز پر خرچہ تیس ہزار یورو رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/M.Balk
6 دسمبر 2017
برلن سے روانہ ہونے والی اس خصوصی پرواز کے ذریعے 22 پاکستانی پناہ گزینوں کو ملک بدر کیا گیا۔ وفاقی جرمن پولیس کے 83 اہلکار انہیں پاکستان تک پہنچانے گئے۔ پرواز کا انتظام برلن حکومت نے کیا تھا جس پر ڈیڑھ لاکھ یورو خرچ ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Seeger
10 تصاویر1 | 10
’ڈبلن ضوابط کے تحت ملک بدریاں‘
یورپی یونین کے ’ڈبلن ضوابط‘ کے تحت سیاسی پناہ کے متلاشی افراد اپنی درخواستیں یونین کی اسی رکن ریاست میں جمع کرا سکتے ہیں جن کے ذریعے وہ سب سے پہلے یونین کی حدود میں داخل ہوئے تھے۔
جرمنی کی وفاقی وزارت داخلہ کی رپورٹ کے مطابق حکام نے گزشتہ برس کے پہلے گیارہ ماہ کے دوران ڈبلن ضوابط کے تحت قریب باون ہزار تارکین وطن کو ملک بدر کر کے یونین کے دیگر رکن ممالک بھیجنے کی درخواست کی تھی۔ یونین کے رکن ممالک نے ان میں سے پینتیس ہزار سے زائد درخواستیں قبول کیں۔
جرمنی سے دیگر ممالک کی جانب ملک بدری کے حوالے سے قریب ایک تہائی زیادہ تارکین وطن کی منزل اٹلی رہا۔ دوسری جانب ہنگری نے کسی ایک بھی تارک وطن کو ڈبلن ضوابط کے تحت اپنے ہاں آنے کی اجازت نہیں دی۔
وزارت داخلہ کے مطابق یونان نے صرف بیس فیصد تارکین وطن کو جرمنی سے واپس اپنے ہاں آنے کی اجازت دی۔
ہورسٹ زیہوفر کے وزیر داخلہ بننے کے بعد سے جرمنی کی وفاقی حکومت نے پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی جرمنی بدری کے لیے کوششیں تیز کر رکھی ہیں۔
ش ح / ع س
جرمنی: سات ہزار سے زائد پاکستانیوں کی ملک بدری طے
جرمنی میں غیر ملکیوں سے متعلق وفاقی ڈیٹا بیس کے مطابق ملک کی سولہ وفاقی ریاستوں سے سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کو لازمی ملک بدر کیا جانا ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس صوبے سے کتنے پاکستانی اس فہرست میں شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
باڈن ورٹمبرگ
وفاقی جرمن ریاست باڈن ورٹمبرگ سے سن 2017 کے اختتام تک ساڑھے پچیس ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا تھا۔ ان میں 1803 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
باویریا
جرمن صوبے باویریا میں ایسے غیر ملکی شہریوں کی تعداد تئیس ہزار سات سو بنتی ہے، جنہیں جرمنی سے ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں 1280 پاکستانی بھی شامل ہیں، جو مجموعی تعداد کا 5.4 فیصد ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Anspach
برلن
وفاقی جرمن دارالحکومت کو شہری ریاست کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ برلن سے قریب سترہ ہزار افراد کو لازماﹰ ملک بدر کیا جانا ہے جن میں تین سو سے زائد پاکستانی شہری شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
برانڈنبرگ
اس جرمن صوبے میں ایسے غیرملکیوں کی تعداد قریب سات ہزار بنتی ہے، جنہیں لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں سے سات فیصد (471) کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Oliver Mehlis
ہیسے
وفاقی صوبے ہیسے سے بھی قریب گیارہ ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا ہے جن میں سے 1178 کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا
جرمنی میں سب سے زیادہ آبادی والے اس صوبے سے بھی 71 ہزار غیر ملکیوں کو لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں افغان شہریوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے زائد ہے۔ پاکستانی شہری اس حوالے سے پہلے پانچ ممالک میں شامل نہیں، لیکن ان کی تعداد بھی ایک ہزار سے زائد بنتی ہے۔
تصویر: imago/epa/S. Backhaus
رائن لینڈ پلاٹینیٹ
رائن لینڈ پلاٹینیٹ سے ساڑھے آٹھ ہزار غیر ملکی اس فہرست میں شامل ہیں جن میں پانچ سو سے زائد پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
سیکسنی
جرمن صوبے سیکسنی میں ساڑھے گیارہ ہزار غیر ملکی ایسے ہیں، جن کی ملک بدری طے ہے۔ ان میں سے 954 پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دیگر صوبے
مجموعی طور پر سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کی ملک بدری طے ہے۔ دیگر آٹھ جرمن وفاقی ریاستوں میں پاکستانیوں کی تعداد پہلے پانچ ممالک کی فہرست میں شامل نہیں، اس لیے ان کی حتمی تعداد کا تعین ممکن نہیں۔