جرمنی: ڈی پورٹ کیے جانے سے پہلے نصف سے زائد مہاجرین لاپتہ
16 جولائی 2018
وفاقی جرمن پولیس کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس مہاجرین کو ملک بدر کیے جانے کے احکامات میں سترہ فیصد اضافہ ہوا ہے تاہم دوسری جانب ملک بدریوں میں چار فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
اشتہار
جرمن اخبار’ ویلٹ اَم زونٹاگ‘ میں شائع ہوئی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں برس کے پہلے پانچ ماہ میں نصف سے زائد ملک بدریوں کے احکامات پر اس لیے عمل نہ ہو سکا کیونکہ ڈی پورٹ کیے جانے والے افراد کو تلاش نہیں کیا جا سکا۔
جرمن وفاقی پولیس کی ایک داخلی رپورٹ کے مطابق بھی اس سال کے آغاز سے لے کر مئی کے مہینے تک چوبیس ہزار مہاجرین کو جرمنی بدر کیے جانے کے احکامات تھے تاہم محض 11،000 مہاجرین ہی کو ڈی پورٹ کیا جا سکا۔
مجموعی طور پر 12،800 ملک بدریاں پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکیں جن میں 11،500 ایسے افراد تھے جو ملک بدر کیے جانے کے روز اپنے اندراج شدہ ایڈریس پر موجود نہیں تھے۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ ان میں سے کتنے افراد مستقل طور پر جرمنی بدر ہونے کے خوف سے روپوش ہیں۔
اخبار مزید لکھتا ہے کہ باقی ماندہ 1300 ملک بدریاں اس لیے مکمل نہ ہو سکیں کیونکہ تارک وطن افراد کو واپس بھیجنےکی کوششیں مختلف وجوہات کی بنا پر نامکمل چھوڑنی پڑیں۔ ان میں سے ایک بڑی وجہ مہاجرین کا ملک بدری کے خلاف مزاحمت کرنا بھی تھا۔
رپورٹ کے مطابق گنی اور نائیجیریا کے پناہ گزینوں کی جانب سے تقریباﹰ ساٹھ فیصد مزاحمت کے کیسز زیادہ سامنے آئے۔ صومالیہ کے تارکین وطن کی جانب سے ڈی پورٹ کیے جانے کے وقت یہ مزاحمت پچاس فیصد سے زائد جبکہ شامی مہاجرین کی جانب سے چالیس فیصد دیکھی گئی۔
اپنے آبائی ممالک واپس بھیجے جانے کے خلاف مزاحمت کی یہ شرح سیرا لیون، گیمبیا، مراکش، عراق اور ایریٹیریا کے مہاجرین میں تیس فیصد تک پائی گئی ہے۔
اس تناظر میں جرمنی کی وفاقی پولیس کے چیئرمین ارنسٹ والٹر کا کہنا ہے کہ ریاست اور مقامی حکام کو مزید بہتر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایس پی ڈی پارٹی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر برائے لیبر نے صوبوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ظاہراﹰ ایسے مہاجرین کی ملک بدریاں زیادہ ہو رہی ہیں جو جرمن سوسائٹی میں بہتر طور سے انضمام کر رہے تھے۔
والٹر نے مزید کہا کہ یہ نہ صرف مہاجرین کے لیے بُرا ہے بلکہ اُن جرمن کمپنیوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے جنہوں نے مہاجرین کو ملازمتیں دینے میں اپنا وقت اور سرمایہ لگایا ہے۔
ص ح / ع ح / نیوز ایجنسی
جرمنی: سات ہزار سے زائد پاکستانیوں کی ملک بدری طے
جرمنی میں غیر ملکیوں سے متعلق وفاقی ڈیٹا بیس کے مطابق ملک کی سولہ وفاقی ریاستوں سے سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کو لازمی ملک بدر کیا جانا ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس صوبے سے کتنے پاکستانی اس فہرست میں شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
باڈن ورٹمبرگ
وفاقی جرمن ریاست باڈن ورٹمبرگ سے سن 2017 کے اختتام تک ساڑھے پچیس ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا تھا۔ ان میں 1803 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
باویریا
جرمن صوبے باویریا میں ایسے غیر ملکی شہریوں کی تعداد تئیس ہزار سات سو بنتی ہے، جنہیں جرمنی سے ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں 1280 پاکستانی بھی شامل ہیں، جو مجموعی تعداد کا 5.4 فیصد ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Anspach
برلن
وفاقی جرمن دارالحکومت کو شہری ریاست کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ برلن سے قریب سترہ ہزار افراد کو لازماﹰ ملک بدر کیا جانا ہے جن میں تین سو سے زائد پاکستانی شہری شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
برانڈنبرگ
اس جرمن صوبے میں ایسے غیرملکیوں کی تعداد قریب سات ہزار بنتی ہے، جنہیں لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں سے سات فیصد (471) کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Oliver Mehlis
ہیسے
وفاقی صوبے ہیسے سے بھی قریب گیارہ ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا ہے جن میں سے 1178 کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا
جرمنی میں سب سے زیادہ آبادی والے اس صوبے سے بھی 71 ہزار غیر ملکیوں کو لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں افغان شہریوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے زائد ہے۔ پاکستانی شہری اس حوالے سے پہلے پانچ ممالک میں شامل نہیں، لیکن ان کی تعداد بھی ایک ہزار سے زائد بنتی ہے۔
تصویر: imago/epa/S. Backhaus
رائن لینڈ پلاٹینیٹ
رائن لینڈ پلاٹینیٹ سے ساڑھے آٹھ ہزار غیر ملکی اس فہرست میں شامل ہیں جن میں پانچ سو سے زائد پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
سیکسنی
جرمن صوبے سیکسنی میں ساڑھے گیارہ ہزار غیر ملکی ایسے ہیں، جن کی ملک بدری طے ہے۔ ان میں سے 954 پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دیگر صوبے
مجموعی طور پر سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کی ملک بدری طے ہے۔ دیگر آٹھ جرمن وفاقی ریاستوں میں پاکستانیوں کی تعداد پہلے پانچ ممالک کی فہرست میں شامل نہیں، اس لیے ان کی حتمی تعداد کا تعین ممکن نہیں۔