1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: کارکنوں کی تنخواہوں میں پایا جانے والا صنفی فرق

5 اکتوبر 2012

جرمنی میں قبل از ٹیکس فی گھنٹہ اجرت میں مردوں اور خواتین کے معاوضوں میں فرق پایا جاتا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق کسی بھی کمپنی میں انتظامی عہدوں پر فائز مردوں کو خواتین کے مقابلے میں تیس فیصد زیادہ اجرت ملتی ہے۔

تصویر: picture-alliance / beyond/Annie Engel

جرمنی کے وفاقی دفتر شماریات کے مطابق انتظامی یا ایگزیکٹو عہدوں پر فائز مرد اوسطاﹰ 39.50 یورو فی گھنٹہ کماتے ہیں جبکہ انہی عہدوں پر کام کرنے والی خواتین کی اجرت 27.64 یورو فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ خواتین اور مردوں کے درمیان کام کے فی گھنٹہ معاوضے کا یہ فرق تیس فیصد بنتا ہے۔ 2010ء میں آمدنی کے حوالے سے تیار کیے جانے والے ٹیبل کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ صرف انتظامی عہدوں پر ہی نہیں بلکہ تکنیکی شعبے میں بھی مردوں اور خواتین کی اجرتوں میں فرق تیس فیصد ہی بنتا ہے۔ اس کے علاوہ تدریس کے شعبے میں 28 فیصد جبکہ دستی کاریگری کے شعبے میں یہ فرق 25 فیصد ہے۔

مردوں اور خواتین کی اجرتوں میں سب سے کم یعنی صرف چار فیصد کا فرق دفاتر میں کام کرنے والوں کے مابین پایا جاتا ہے۔ 2006ء کی بات کی جائے تو مجموعی طور پر آمدنی کے اس امتیاز میں تب سے محض ایک فیصد کی معمولی کمی ہوئی ہے۔ اس سے قبل 2010ء کے لیے لگائے جانے والے اندازوں میں بتایا گیا تھا کہ یہ فرق 23 فیصد رہے گا۔

مردوں اور خواتین کی اجرتوں میں سب سے کم یعنی صرف چار فیصد کا فرق دفاتر میں کام کرنے والوں کے مابین پایا جاتا ہےتصویر: Fotolia/Kzenon

سالانہ بنیادوں پر اور ہر چار سال بعد تنخواہوں میں کمی بیشی کے حوالے سے تیار کیے جانے والے جائزے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ چار سال کے وقفے سے جو اندازے لگائے جاتے ہیں، ان میں صرف پیشے پر ہی توجہ مرکوز نہیں کی جاتی بلکہ تجربے اور نوکری پیشہ افراد کی عمر کو بھی ملحوظ رکھا جاتا ہے۔

جائزے کے مطابق تنخواہ کا تعلق تعلیمی معیار سے بھی ہے۔ کم تعلیم یافتہ مردوں اور خواتین کے مابین فی گھنٹہ اجرتوں کا فرق 11 فیصد بنتا ہے جبکہ درمیانی درجے کی تعلیم یعنی صرف انٹرمیڈیٹ پاس افراد کے درمیان اس فرق کی شرح 19 فیصد ہے۔ یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کرنے والی خواتین کی مردوں کے مقابلے میں تنخواہیں 27 فیصد کم ہوتی ہیں۔

ai / mm (ots)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں