1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی کا امریکی مشن کا حصہ نہ بننا امریکا کو گراں

1 اگست 2019

برلن حکومت نے آبنائے ہرمز میں امریکا کی قیادت میں بحری مشن کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا۔ امریکا نے جرمنی کے اس فیصلے پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جرمنی کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا چاہییں۔

Symbolbild: US Marine im Persischen Golf
تصویر: Reuters/U.S. Navy/D. Swanbeck

جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے بدھ 31 جولائی کی شام اعلان کیا تھا کہ جرمنی آبنائے ہرمز میں بحری آئل ٹینکروں کی حفاظت کے لیے امریکا کی زیر قیادت بحری مشن کا حصہ نہیں بنے گا۔

جرمنی نے کیوں انکار کیا؟

بدھ کی شام پولینڈ کے دورے پر موجود جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خلیج فارس میں کسی بحری مشن کا حصہ نہ بننے کا اعلان کرتے ہوئے کہا، ''جرمنی خلیج فارس کے لیے اس بحری مشن کا حصہ نہیں بنے گا جس کی منصوبہ بندی اور تیاری امریکا نے کی ہے۔‘‘

برلن حکومت کے مطابق وہ آبنائے ہرمز کے بحری راستوں میں تجارتی بحری جہازوں اور آئل ٹینکروں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے ایک مشترکہ یورپی طریقہ کار اختیار کرنے کی خاطر فرانس اور برطانیہ کے ساتھ رابطے میں ہے۔

ایران اور مغربی اتحادیوں کے مابین جاری کشیدگی کے تناظر میں بھی جرمنی ایران پر 'زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی امریکی حکمت عملی کے خلاف ہے۔ جرمنی ایران کے معاملے میں کسی 'عسکری حل‘ کے بجائے سفارت کاری اختیار کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے۔

جرمنی اور امریکا کے کشیدہ تعلقات

اس فیصلے کے بعد آج بروز جمعرات یکم اگست کو برلن میں تعینات امریکی سفیر نے چانسلر میرکل کی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یورپ کے معاشی طور پر مضبوط اس ملک کو عالمی ذمہ داریاں بھی نبھانا ہوں گی۔

آؤگسبرگر آلگمائنے اخبار کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے امریکی سفیر رچرڈ گرینل نے جرمن فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ''امریکا نے جرمنی کی مغرب میں شمولیت برقرار رکھنے کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکا اب بھی جرمنی میں موجود 34 ہزار امریکی فوجیوں پر اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔

صدر ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد سے جرمنی اور امریکا کے باہمی تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں۔ دنوں ممالک کے مابین ایران کے مسئلے کے علاوہ ارتھ اسٹریم ٹو گیس پائپ لائن اور باہمی تجارت کے معاملات پر بھی اختلافات پائے جاتے ہیں۔

ش ح / ا ب ا (ڈی پی اے، روئٹرز، اے پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں