جرمنی کا آخری بڑا ڈیپارٹمنٹل سٹور مزید شاخیں بند کر دے گا
14 مارچ 2023
گالیریا کارشٹٹ کاؤف ہوف اپنی باقی ماندہ شاخوں میں سے بھی 40 فیصد بند کرنا چاہتا ہے۔ اس ڈیپارٹمنٹل سٹور کی ملازمین کی کونسل نے اس فیصلے کو ’سیاہ دن‘ قرار دیا ہے کیونکہ یوں پانچ ہزار سے زائد ملازمتیں ختم ہو سکتی ہیں۔
اشتہار
گالیریا کارشٹٹ کاؤف ہوف (Galeria Karstadt Kaufhof) جرمنی کا وہ آخری بڑا ڈیپارٹمنٹل سٹور ہے، جس کی ملک بھر کے مختلف شہروں میں بہت سی شاخیں ہیں۔ اس سٹور چین کے ملازمین کی کونسل کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ انتظامیہ اس سٹور کی مزید 52 شاخیں بند کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ ابھی تین سال سے بھی کم عرصہ قبل انتظامیہ نے اسی نوعیت کے اپنے گزشتہ فیصلے میں بھی اس سٹور کی درجنوں شاخیں بند کر دی تھیں۔
یہ نیا منصوبہ اس پس منظر میں بنایا گیا ہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں اس سٹور کی انتظامیہ نے دوسری مرتبہ ممکنہ دیوالیہ پن کے خلاف تحفظ کی درخواست دی تھی۔ اس سے قبل پہلی بار ایسا اپریل 2020ء میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران جرمنی میں پہلے اور بہت سخت لاک ڈاؤن کے دوران کیا گیا تھا۔
تب بہت بڑے بڑے سٹوروں کے اس سلسلے کی مرکزی انتظامیہ نے گالیریا کارشٹٹ کاؤف ہوف کی 40 شاخیں بند کر دی تھیں، اور اس وجہ سے روزگار کے تقریباﹰ چار ہزار مواقع ختم ہو گئے تھے۔ اس کے بعد جرمنی میں اس سٹور کی باقی ماندہ شاخوں کی تعداد 129 رہ گئی تھی، جو ابھی تک اتنی ہی ہے۔
اب لیکن اس تعداد میں مزید تقریباﹰ 40 فیصد کی کمی کا جو منصوبہ بنایا گیا ہے، اس کے تحت 52 مقامات پر یہ سٹور آئندہ بند کر دیا جائے گا۔ سٹور کے کارکنوں کی کونسل کے مطابق نئے فیصلے سے ادارے کے مزید پانچ ہزار سے زائد ملازمین بے روزگار ہو جائیں گے اور پیر 13 مارچ کو جب انتظامیہ نے یہ فیصلہ کیا، اسے ایک 'سیاہ دن‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔
اشتہار
گالیریا کے مسائل ہیں کیا؟
گالیریا کارشٹٹ کاؤف ہوف ایک بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹور کے طور پر 2018ء میں گالیریا کے اسی شعبے کے تب تک دو بڑے حریف کاروباری اداروں کاؤف ہوف اور کارشٹٹ کے ساتھ ادغام کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا۔
پھر اکتوبر 2022ء میں جب اس ادارے نے دیوالیہ پن کے خلاف تحفظ کی درخواست دی تھی، تو اس کی دو بڑی وجوہات توانائی کی قیمتوں میں بےتحاشا اضافہ اور عام صارفین میں خریداری کا کم ہو چکا رجحان بتائی گئی تھیں۔
وبا میں منافع: کووڈ انیس کے بحران میں کس نے کیسے اربوں ڈالر کمائے؟
کورونا وائرس کے بحران میں بہت ساری کمپنیوں کا دیوالیہ نکل گیا لیکن کچھ کاروباری صنعتوں کی چاندی ہو گئی۔ کورونا لاک ڈاؤن کے دوران کچھ امیر شخصیات کی دولت میں مزید اضافہ ہو گیا تو کچھ اپنی جیبیں کھنگالتے رہ گئے۔
تصویر: Dennis Van TIne/Star Max//AP Images/picture alliance
اور کتنے امیر ہونگے؟
ایمیزون کے بانی جیف بیزوس (اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ) کا الگ ہی انداز ہے۔ ان کی ای- کامرس کمپنی نے وبا کے دوران بزنس کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ بیزوس کورونا وائرس کی وبا سے پہلے بھی دنیا کے امیر ترین شخص تھے اور اب وہ مزید امیر ہوگئے ہیں۔ فوربس میگزین کے مطابق ان کی دولت کا مجموعی تخمینہ 193 ارب ڈالر بنتا ہے۔
تصویر: Pawan Sharma/AFP/Getty Images
ایلون مَسک امیری کی دوڑ میں
ایلون مسک کی کارساز کمپنی ٹیسلا الیکٹرک گاڑیاں تیار کرتی ہے لیکن بازار حصص میں وہ ٹیکنالوجی کے ’ہائی فلائر‘ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ مسک نے وبا کے دوران ٹیک اسٹاکس کی قیمتوں میں اضافے سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والے مسک نے دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہونے والے بل گیٹس کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ 132 ارب ڈالرز کی مالیت کے ساتھ وہ جیف بیزوس کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/M. Hitij
یوآن کی زندگی میں ’زوم کا بوم‘
کورونا وبا کے دوران ہوم آفس یعنی گھر سے دفتر کا کام کرنا بعض افراد کی مجبوری بن گیا، لیکن ایرک یوآن کی کمپنی زوم کے لیے یہ ایک بہترین موقع تھا۔ ویڈیو کانفرنس پلیٹ فارم زوم کو سن 2019 میں عام لوگوں کے لیے لانچ کیا گیا۔ زوم کے چینی نژاد بانی یوآن اب تقریباﹰ 19 ارب ڈالر کی دولت کے مالک ہیں۔
تصویر: Kena Betancur/Getty Images
کامیابی کے لیے فٹ
سماجی دوری کے قواعد اور انڈور فٹنس اسٹوڈیوز جان فولی کے کام آگئے۔ اب لوگ گھر میں ورزش کرنے کی سہولیات پر بہت زیادہ رقم خرچ کر رہے ہیں۔ وبائی امراض کے دوران فولی کی کمپنی ’پیلوٹون‘ کے حصص کی قیمت تین گنا بڑھ گئی۔ اس طرح 50 سالہ فولی غیر متوقع انداز میں ارب پتی بن گئے۔
تصویر: Mark Lennihan/AP Photo/picture alliance
پوری دنیا کو فتح کرنا
شاپی فائے، تاجروں کو اپنی آن لائن شاپس بنانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس پلیٹ فارم کا منصوبہ کینیڈا میں مقیم جرمن نژاد شہری ٹوبیاس لئٹکے نے تیار کیا تھا۔ شاپی فائے کینیڈا کا ایک اہم ترین کاروباری ادارہ بن چکا ہے۔ فوربس میگزین کے مطابق 39 سالہ ٹوبیاس لئٹکے کی مجموعی ملکیت کا تخمینہ تقریباﹰ 9 ارب ڈالر بنتا ہے۔
تصویر: Wikipedia/Union Eleven
راتوں رات ارب پتی
اووگر ساہین نے جنوری 2020ء کے اوائل سے ہی کورونا کے خلاف ویکسین پر اپنی تحقیق کا آغاز کر دیا تھا۔ جرمن کمپنی بائیو این ٹیک (BioNTech) اور امریکی پارٹنر کمپنی فائزر کو جلد ہی اس ویکسین منظوری ملنے کا امکان ہے۔ کورونا کے خلاف اس ویکسین کی تیاری میں اہم کردار ادا کرنے والے ترک نژاد سائنسدان ساہین راتوں رات نہ صرف مشہور بلکہ ایک امیر ترین شخص بن گئے۔ ان کے حصص کی مجموعی قیمت 5 ارب ڈالر بتائی جاتی ہے۔
تصویر: BIONTECH/AFP
کامیابی کی ترکیب
فوڈ سروسز کی کمپنی ’ہیلو فریش‘ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ وبا کے دوران اس کمپنی کے منافع میں تین گنا اضافہ دیکھا گیا۔ ہیلو فریش کے شریک بانی اور پارٹنر ڈومنک رشٹر نے لاک ڈاؤن میں ریستورانوں کی بندش کا بھر پور فائدہ اٹھایا۔ ان کی دولت ابھی اتنی زیادہ نہیں ہے لیکن وہ بہت جلد امیر افراد کی فہرست میں شامل ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تصویر: Bernd Kammerer/picture-alliance
ایک بار پھر ایمیزون
ایمیزون کمپنی میں اپنے شیئرز کی وجہ سے جیف بیزوس کی سابقہ اہلیہ میک کینزی اسکاٹ دنیا کی امیر ترین خواتین میں سر فہرست ہیں۔ ان کی ملکیت کا تخمینہ تقریباﹰ 72 ارب ڈالر بتایا جاتا ہے۔
تصویر: Dennis Tan Tine/Star Max//AP/picture alliance
8 تصاویر1 | 8
سٹور ملازمین کی کونسل کے مطابق انتظامیہ نے اس مرتبہ اپنے فیصلے کی جو وجوہات بتائی ہیں، وہ کافی زیادہ اور متنوع ہیں۔ ان میں سٹوروں کی جگہوں کے بہت زیادہ ہو چکے کرائے، متعلقہ عمارات کی مرمت طلب حالت، نئی سرمایہ کاری میں کمی اور کئی مقامات پر صارفین کی بہت کم ہو چکی قوت خرید بھی شامل ہیں۔
ملازمین کی کونسل نے اپنے طور پر اسٹور کی مرکزی انتظامیہ پر الزام لگایا ہے کہ مزید شاخوں کی بندش کا فیصلہ دراصل انتظامیہ کی کاروباری حکمت عملی میں جدت پسندی کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ کونسل کے مطابق کورونا وائرس کی عالمی وبا اور یوکرین پر روسی فوجی حملے کے بعد شروع ہونے والی جنگ نے اس سٹور کے کاروباری زوال میں بہت معمولی کردار ادا کیا۔
دوسری طرف یہ بات بھی درست ہے کہ جرمنی میں گالیریا اور دیگر ڈیپارٹمنٹل سٹوروں کو بڑے بڑے شاپنگ سینٹرز اور عام صارفین کو آن لائن ریٹیل سروسز مہیا کرنے والے اداروں کی طرف سے بڑھتے ہوئے کاروباری مقابلے کا سامنا بھی ہے۔
جہاں تک گالیریا کے کاروباری مستقبل کا سوال ہے تو یہ فیصلہ 27 مارچ کو ہونے والے اس ادارے کو قرضے دینے والے اداروں کے اجلاس میں کیا جائے گا۔
م م/ا ب ا (اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے)
جرمن تاریخ کے سب سے بڑے دیوالیے کی کہانی
ماضی میں یورپ کے سب سے بڑے ڈرگ اسٹور کے نیٹ ورک ’شلیکر‘ کے مالک انتون شلیکر اور ان کے بچوں کو ایک جرمن عدالت نے جیل بھیج دیا ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے پچاس ہزار سے زائد ملازمین پر مشتمل ’شلیکر ایمپائر‘ کیسے دیوالیہ ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Puchner
ترقی کی پہلی سیڑھی
انتون شلیکر نے 1975 ء میں کرشہائم نامی علاقے میں اپنی پہلی ڈروگری مارکیٹ کھولی تھی۔ صرف دو ہی برسوں میں اس کی سو شاخیں کھل چکی تھیں۔ انتون نے نو سال بعد دعوی کیا تھا کہ ان کی ایک ہزار شلیکر شاپس ہیں۔
تصویر: AP
بیرون ملک
1987ء میں شلیکر نے جرمنی سے باہر اپنے قدم جمانے کی ابتدا کی۔ 2007ء میں شلیکر کا دائرہ یورپ کے تیرہ ملکوں تک پھیل چکا تھا اور اس میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد 52 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ پورے یورپ میں شلیکر کی تقریباً دس ہزار شاخیں تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
الزامات
دفتر استغاثہ نے شلیکر ڈروگری اسٹور ( ادویات اور عام اشیاء کی دکان) پر صرف یہ الزام عائد نہیں کیا کہ انہوں نے اپنی مالی معاملات چھپائے ہیں بلکہ تمام چھتیس مختلف واقعات میں شلیکر نے ایسے اثاثے بنائے ہیں، جنہیں دیوالیہ میں شامل ہونا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Murat
فرد جرم
تین سال تک اشٹٹ گارٹ شہر میں استغاثہ نے شلیکر کے خلاف تفتیشی عمل جاری رکھا اور پھر گزشتہ برس اپریل میں ان پر فرد جرم عائد کی گئی۔ فرد جرم کی دستاویز 270 صفحات پر مبنی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dap/M.Murat
عدالتی فیصلہ
جرمن شہر اشٹٹ گارٹ کی ایک عدالت نے 72 سالہ انتون شلیکر اور ان کے دو بچوں لارس اور مائیکے شلیکر کو قید اور ان کی بیوی کو جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ انتون ’شلیکر ایمپائر‘ بہت محنت سے کھڑی کی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Warnack
اثاثے
ذرائع کے مطابق انتون شلیکر نے پچیس ملین یورو کے اثاثے بنائے ہیں۔ اس دوران ان کی اہلیہ، دونوں بچوں اور ان کے مالی معاملات کی نگرانی کرنے والے دو افراد کو بھی شامل تفتیش کیا گیا۔ ان پر بدعنوانی میں تعاون، دیوالیہ پن میں تاخیر اور فریب کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-P. Strobel
شلیکر جوڑا اور بدعنوانی
1998ء میں اشٹٹ گارٹ کی ایک عدالت نے شلیکر جوڑے کو بدعنوانی کے ایک مقدمے میں دس ماہ قید کی معطّل سزا سنائی تھی کیونکہ انہوں نے اپنے ایک ملازم کو قانون کے مطابق تنخواہ ادا نہیں کی تھی۔ اس کے چند سال بعد شلیکر کی انتظامیہ بھی اس وقت تنقید کی زد میں آ گئی جب ان کی جانب سے ملازمین کی نگرانی کے لیے غیر قانونی طور پر کیمرے نصب کیے گئے تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa
سزا
دیوالیہ پن سے منسلک اگر جرائم بھی ہوں تو اس کی سزا پانچ سال تک کی قید ہے جبکہ سنیگن جرم کی صورت میں سزا دس سال بھی ہو سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Försterling
شلیکر بند
شلیکر کا شمار یورپ کی بڑی ڈروگری مارکیٹ میں ہوتا تھا۔ اس گروپ کی جانب جنوری 2012ء نے دیوالیہ پن کی درخواست جمع کروائی گئی تھی۔ شلیکر کو بچانے کی کوشش بے نتیجہ رہی۔ جون 2012ء میں شلیکر بند کر دی گئی تھی اور جرمنی اور یورپ کے دیگر ممالک میں پچاس ہزار سے زائد افراد بے روزگار ہو گئے تھے۔