جرمنی میں ٹریفک کا نظام بنیادی طور پر کاروں کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے۔ یہاں تقریبا ساٹھ ملین گاڑیاں رجسٹر ہیں لیکن اب اس ملک میں کاروں سے پرہیز اور سائیکلوں سے محبت کرنے کا سفر شروع ہو گیا ہے۔
اشتہار
اگر ملک بھر میں ٹریفک کے نظام کو تبدیل نہ کیا گیا تو جرمنی کے لیے ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے قائم کردہ اپنے اہداف کا حصول نہ ممکن ہو جائے گا کیوں کہ کاربن ڈائی آکسائید کے اخراج میں گاڑیوں کا بھی کافی ہاتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمن حکومت نے اربوں یورو کی سرمایہ کاری کرتے ہوئے نیا سائیکلنگ پروگرام شروع کیا ہے۔
سائیکل چلائیں اور ماحول کو بچائیں
دارالحکومت برلن میں سائیکلوں کے لیے لگائی گئیں پیلے رنگ کی نئی لائنوں نے کورونا وبا کے دوران بھی زندگی کو متحرک رکھا ہوا ہے۔ حکومتی منصوبے کے تحت سائیکل سواروں کے لیے مزید راستے بنائے گئے ہیں اور سائیکل سواروں کو مزید تحفظ بھی فراہم کیا گیا ہے۔ لیکن برلن کو کاروں سے پاک بنانے کی ماحولیاتی تحریک سے وابستہ نِک کیسٹنر کے مطابق یہ حکومتی اقدامات ابھی بھی ناکافی ہیں۔ وہ پورے کے پورے سٹی سینٹر کو کار فری بنانا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ دستخط حاصل کر رہے ہیں تاکہ ریفرنڈم کروایا جا سکے۔
ان کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''ہم ایک ایسا برلن چاہتے ہیں، جو محفوظ ہو، صحت مند ہو، زیادہ ماحول دوست ہو اور جہاں سب کو بہتر معیار زندگی میسر ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ نجی کار ٹریفک کم ہو۔ پیدل چلنے یا سائیکل سواری کے مواقع زیادہ ہوں۔ باغ، کیفیز اور کھیل کے میدان زیادہ ہوں تاکہ لطف اٹھایا جا سکے۔‘‘
نِک کیسٹنر کا مقصد حکومت کو رائے شماری پر مجبور کرنے کے لئے خاطر خواہ دستخط جمع کرنا ہیں۔ اگر مطلوبہ دستخط جمع ہو جاتے ہیں تو برلن کے رہائشی آئندہ ستمبر میں وفاقی انتخابات کے ساتھ ساتھ سٹی سینٹر میں کاروں پر پابندی کے حوالے سے بھی ووٹ ڈال سکیں گے۔
اشتہار
شہری انتظامیہ کے اقدامات
برلن کی شہری انتظامیہ نے حال ہی میں یہاں کاروں کے لیے پارکنگ کی 300 جگہیں ختم کر دی ہیں جبکہ گرین پارٹی کی سینیٹر برائے ٹرانسپورٹ ریگینے گوئنتھر برلن کے 'موبیلٹی انقلاب‘ کو مزید آگے بڑھانا چاہتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''پہلے ہم خدمات اور سہولیات میں نمایاں اضافہ کریں گے۔ بہتر پبلک ٹرانسپورٹ، سائیکلنگ کے لیے بہتر انفراسٹرکچر، یہاں تک کہ پیدل چلنے والوں کے لیے بھی مزید سہولیات پیدا کریں گے۔ اس کے بعد ہم کار پارکنگ فیسوں میں اضافہ کر دیں گے۔‘‘
ان کے مطابق مستقبل قریب میں برلن کے سٹی سینٹر کو مضافاتی علاقوں سے ملانے کے لیے ایک سو کلومیٹر کے تیز رفتار سائیکل ٹریک بنائے جائیں گے۔
شیئرنگ اسٹریٹیجی
موبیلٹی ریسرچر آندریاس نی کے پاس نہ تو کار ہے اور نہ ہی سائیکل۔ وہ اپنے موبائل فون سے ہی ٹرین ٹکٹ خریدتے ہیں یا پھر ایک ایپ کے ذریعے جگہ جگہ کرایے پر دستیاب سائیکل بُک کر لیتے ہیں۔ وہ شیئرنگ اسٹریٹیجی کے بڑے حامی ہیں۔ ان کے مطابق اسی طرح سے کاروں کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''اب مستقل ایک جگہ پر کام یا ملازمت کرنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ بہت جلد ہم ایک دوسرے کے ساتھ کار شیئر کرنا سیکھ جائیں گے، یہاں تک کہ دیہی علاقوں میں بھی۔ ایک کار میں تنہا سفر کرنا بیوقوفی ہے۔ اگر پانچ لوگ ایک ہی سمت میں ایک ہی وقت میں پانچ کاریں ڈرائیو کر رہے ہیں تو اس سے بہتر ہے کہ پانچ لوگ ایک کار میں سفر کریں۔ اس کا حل ڈیجیٹل پلیٹ فارم اور کار شیئرنگ ہے۔ اس طرح آپ کاروں کی تعداد کم کر سکتے ہیں، یہاں تک کہ دیہی علاقوں میں بھی۔‘‘
فی الحال یہ واضح نہیں کہ مستقبل میں آمدو رفت کونسی شکل اختیار کرے گی لیکن ایک چیز بہت واضح ہے کہ کاروں سے پرہیز کرنے اور سائیکلوں سے محبت کرنے کا سفر شروع ہو چکا ہے۔
بائیسکل کی ایجاد اور اس کا دو سو سالہ سفر، چند دلچسپ حقائق
دو سو سال قبل ایک جرمن کارل فان ڈرائس نے دو پہیوں پر چلنے والی ایک ایسی مشین بنائی تھی، جو آگے چل کر آج کی بائیسکل کی بنیاد بنی۔ آج یہ ایجاد دنیا بھر میں کروڑوں انسانوں کی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Scheuber
ایک جرمن ایجاد
کارل فان ڈرائس نے دو پہیوں والی اپنی مشین سن 1817ء میں بنائی تھی۔ اُس نے ’ڈرائیسینے‘ کہلانے والی اس مشین کو ایک سے دوسری جگہ زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ پہنچنے کے لیے استعمال کیا۔ تب پیڈل نہیں تھے اور دو پہیوں والی اس مشین کو آگے بڑھانے کے لیے سوار کو اپنے پاؤں سے زمین پیچھے کی جانب دھکیلنا پڑتی تھی۔ 1860ء کے عشرے میں فرانس میں ’ڈرائیسینے‘ کو زیادہ بہتر بنا کر بائیسکل کا نام دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/maxppp
بائیسکل: آزادی کا احساس
اُنیس ویں صدی میں حقوقِ نسواں کی علمبردار امریکی خاتون سُوزن بی اینتھنی نے، جو ’خواتین کے حقوق کی نپولین‘ بھی کہلاتی تھیں، لکھا تھا: ’’میرے خیال میں دنیا میں خواتین کو مساوی حقوق دلانے کے سفر میں کسی بھی اور چیز سے زیادہ بائیسکلنگ نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یہ سواری خواتین کو آزادی اور خود اعتمادی کا احساس دیتی ہے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gerten
ایک اختراع سے مزید اختراعات
رائٹ برادران نے پہلا ہوائی جہاز تو بعد میں بنایا، پہلے اُن کی امریکی ریاست اوہائیو کے شہر ڈیٹن میں بائیسکل مرمت کرنے کی ایک چھوٹی سی دکان تھی۔ یُوں اوروِل اور وِلبر رائٹ کو ایک اچھا روزگار بھی حاصل تھا اور معاشرے میں ایک باعزت مقام بھی لیکن یہ دکان اُن کے مکینیکل تجربات کے لیے بھی بہت اہم تھی۔ اسی ورکشاپ میں بننے والے رائٹ فلائر نے 1903ء میں زمین سے بلند ہو کر پہلی اڑان بھری تھی۔
تصویر: picture alliance/ZUMA Press
چیمپئنز کی روایت کی بنیاد
1903ء ہی میں ’ٹُور ڈی فرانس‘ کی صورت میں پہلی سائیکل ریس شروع ہوئی۔ اب اس ریس کو دنیا بھر میں سب سے پرانی اور ممتاز سائیکل ریس کا درجہ حاصل ہے۔ ہر سال اس کا رُوٹ تبدیل ہوتا رہتا ہے لیکن اس کے قواعد و ضوابط ہمیشہ ایک جیسے رہتے ہیں۔ اس شاندار ریس کا اختتام ہمیشہ فرانسیسی دارالحکومت پیرس کی مشہور شاہراہ شانز ایلی زے پر ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Conservatoire du Patrimoine Sportif
دو پہیوں پر پوری دنیا کا سفر
فریڈ اے برکمور (1912ء تا 2012ء) ایتھنز (یونان) کا ایک مشہور مہم جُو تھا۔ اُس نے 1935ء میں بائیسکل پر پوری دنیا کا سفر کیا تھا اور یورپ، ایشیا اور امریکا میں مجموعی طور پر چالیس ہزار میل (پینسٹھ ہزار کلومیٹر) سے زیادہ سفر کیا تھا۔ ان میں سے پچیس ہزار میل برکمور نے خود بائیسکل چلائی، باقی کا پانیوں پر سفر کشتیوں کے ذریعے تھا۔ اس دوران اُن نے سات مرتبہ اپنی بائیسکل کے ٹائر بدلے۔
تصویر: DW/K.Esterluß
بائیسکلز کا عالمی صدر مقام
ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈم کو دنیا بھر میں بائیسکلز کا صدر مقام کہا جاتا ہے۔ یہاں مجموعی آبادی کا اندازاً 63 فیصد یعنی کوئی آٹھ لاکھ انسان روزانہ بائیسکل استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح اس شہر میں آمدورفت کے لیے بائیسکل کے استعمال کی شرح بتیس فیصد، کاروں کی شرح بائیس فیصد جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ کی شرح سولہ فیصد ہے۔ شہر کے مرکزی علاقے میں بائیسکل کے استعمال کی شرح اڑتالیس فیصد تک ہے۔
تصویر: AP
یورپ میں سائیکلنگ
یورپی بائیسکل انڈسٹری کی کنفیڈریشن نے 2016ء کے لیے جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں، اُن کے مطابق براعظم یورپ میں ہر سال اکیس ملین بائیسکل یا برقی قوت سے چلنے والے بائیسکل فروخت ہوتے ہیں۔ ان میں سے تیرہ ملین وہ ہیں، جو اسی براعظم میں تیار ہوتے ہیں۔ بائیسکل تیار کرنے والی یورپی صنعت سے بالواسطہ یا بلا واسطہ ستّر ہزار سے زیادہ افراد کا روزگار وابستہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ANP/R. De Waal
ایک مسلسل ترقی کرتی صنعت
2015ء میں بائیسکل کی عالمی منڈی کے مالیاتی حجم کا اندازہ 45.1 ارب ڈالر (40.3 ارب یورو) لگایا گیا تھا۔ 2016ء سے لے کر 2024ء تک کے لیے اس صنعت میں نمو کی سالانہ شرح کا اندازہ 3.7 فیصد لگایا گیا تھا۔ اس حساب سے اس صنعت کا مالیاتی حجم اگلے عشرے کے وسط تک 62.4 ارب ڈالر تک پہنچتا نظر آ رہا ہے۔