جرمنی کا افغانستان میں بیرونی افواج کی موجودگی کا دفاع
5 مارچ 2021
جرمن وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی افواج کی موجودگی کے بغیر طالبان مذاکرات کے لیے بھی تیار نہیں ہوں گے۔
اشتہار
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے افغانستان میں بیرونی افواج کا یہ کہہ کر دفاع کیا کہ امن مذاکرات جاری رکھنے کے لیے ان کی موجودگی ناگزیر ہے۔ ماس نے عالمی برادری سے بھی یہ مطالبہ کیا کہ غیر ملکی افواج کے غیر ذمہ دارانہ اور قبل از وقت انخلا سے گریز کیا جائے، کیونکہ بقول ان کے یہ طالبان کے ہاتھوں میں کھیلنے جیسا ہوسکتا ہے۔
جرمن پارلیمان سے خطاب میں انہوں نے کہا، "بین الاقوامی فوج کی موجودگی ہماری سب سے اہم اضافی قوتوں میں سے ایک ہے، بغیر عالمی دباؤ کے طالبان سنجیدہ طور پر سیاسی حل کے لیے کام نہیں کریں گے۔ اگر ہم نے فوجیں نکالنے میں عجلت کی تو ہم ایک ایسا خطرہ مول لیں گے کہ پھر طالبان مذاکرات جاری رکھنے کی بجائے جنگ کے میدان میں حل تلاش کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔"
جرمن پارلیمان کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ افغانستان میں جرمن فوج کی موجودگی کی معیاد میں 31 جنوری 2022 تک توسیع کی جائے یا نہیں۔ پہلے سے منظور شدہ معیاد رواں ماہ کے اختتام پر ختم ہو رہی ہے۔
آگے کا راستہ مزید پر خطر ہے
جرمن پارلیمان (بنڈس ٹاگ) کے بیشتر ارکان افغانستان میں جرمن فوج کے مشن کو فی الوقت جاری رکھنے کے حامی ہیں۔ جمعرات کو اس موضوع پر پارلیمان میں بحث کے دوران صرف 'الٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) پارٹی اور بائیں بازو کی جماعت نے فوری طور پر افغانستان سے جرمن فوج کے انخلاء کا مطالبہ کیا۔
اے ایف ڈی کے رہنما اینٹن فرائیزین کا کہنا تھا، "جرمنی کا دفاع ہندو کش سے نہیں کیا جاتا ہے بلکہ اس کا دفاع برینڈن برگ سے ہوتا ہے۔"
جرمن فوج، افغانستان سے واپسی کی تیاریاں
افغانستان میں جرمن فوجی مشن 2014ء کے آخر میں ختم ہو رہا ہے۔ اس دوران صرف فوجی اہلکار ہی نہیں بلکہ ہزاروں ٹن فوجی ساز و سامان کو بھی جرمنی واپس لانا ہے، جوآسان کام نہیں ہے
تصویر: cc-by-nd/Bundeswehr/Bienert
سامان کی ترسیل، ایک مسئلہ
جرمن فوج کے تقریباً ساڑھے چار ہزار اہلکار افغانستان میں تعینات ہیں اور سترہ سو گاڑیاں اور سامان سے بھرے ہوئے چھ ہزار کنٹینرز ان کے علاوہ ہیں۔ 2014ء کے اختتام تک تمام سامان حرب کو جرمنی واپس لانا ہے۔
تصویر: cc-by-nd/Bundeswehr/Bienert
ترابزون
افغانستان سے انخلاء کے دوران جرمن فوجی سامان کی منتقلی کے حوالے سے ترک شہر ترابزون ایک مرکز کی سی حیثیت ہے۔ عسکری ساز و سامان کی ترسیل کے لیے اس شہر کی بندرگاہ کو استعمال کیا جا رہا ہے
تصویر: cc-by-nd/Sebastian Wilke/Bundeswehr
مرحلہ وار
افغانستان میں جرمن فوج کی تعیناتی کو گیارہ سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ جرمن دستوں کی ایک بڑی تعداد شمالی افغانستان میں ہے۔ بہت سے فوجی کیمپ ختم کیے جا چکے ہیں اور بغلان کی فوجی چھاؤنی بند کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
تصویر: cc-by-nd/Bundeswehr/Bienert
انخلاء کے بعد بھی تعیناتی
2014ء کے بعد بھی تقریباً 800 جرمن فوجی مقامی دستوں کو تربیت دینے کے لیے افغانستان میں موجود رہیں گے
تصویر: picture-alliance/dpa
سامان کی اندرون ملک منتقلی
جرمن فوج کے زیر استعمال رہنے والا کچھ سامان افغانستان میں ہی رہے گا۔ کچھ قابل استعمال اشیاء کو فروخت کیا جائے گا جبکہ کچھ ضائع بھی کر دیا جائے گا۔ اس دوران افغانستان کے اندر ساز و سامان کی منقلی شروع ہو گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مزار شریف
افغانستان کا چوتھا بڑا شہر مزار شریف سامان کی نقل و حمل کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ تقریباً تمام سامان اس شہر میں قائم فضائی اڈےکے ذریعے ہی آگے بھیجا جاتا ہے
تصویر: picture-alliance/dpa
دیکھ بھال
گاڑیوں کو واپس بھیجنے سے قبل انہیں جراثیم کش ادویات سے دھویا جاتا ہے۔ تاکہ خطرناک جراثیم دوسری جگہ منتقل نہ ہو سکیں۔
تصویر: Bundeswehr - PIZ SKB/Foto: Vanita Schanze
فضائی راستہ
جرمن فوج کے پاس بھاری فوجی سامان کو فضائی راستے منتقل کرنے کے لیے مناسب انتظام نہیں ہے۔ اس وجہ سے جرمن حکام نے یوکرائن اور روس کی ایک کمپنی سے انتونوو 124 سامان بردار جہاز کرائے پر لیے ہیں۔ اس جہاز کے ذریعے ایک وقت میں 150 ٹن تک سامان منتقل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: cc-by-nd/Bundeswehr/Weinrich
حفاظتی انتظامات
سلامتی کی وجوہات کی وجہ سے اسلحہ اور حساس نوعیت کے آلات مزار شریف سے براہ راست جرمنی بھیجے جاتے ہیں۔ جیسے کہ ہووٹزر 2000 ٹینک۔
تصویر: cc-by-nd/Bundeswehr/Schmidt.
ترکی کے راستے
اس کے علاوہ غیر فوجی سامان، جس میں گاڑیاں، ریڈیو، خیمے اور اسی طرح کی دیگر اشیاء شامل ہیں، ترکی کے بندرگاہی شہر ترابزون سے ہوتی ہوئی جرمنی پہنچتی ہیں۔
تصویر: cc-by/Sebastian Wilke/Bundeswehr
بحری جہازوں کا استعمال
ترک شہر ترابزوں سے سامان جہازوں پر لادا جاتا ہے۔ پھر یہ بحری جہاز بحیرہ روم اور بحراوقیانوس کے ساحلوں اور شمالی سمندر سے ہوتے ہوئے دو ہفتوں بعد شمالی جرمنی کی بندرگاہوں تک پہنچتے ہیں۔
تصویر: Bundeswehr - PIZ SKB/Foto: Vanita Schanze
11 تصاویر1 | 11
جرمن وزیر دفاع اینی گریٹ کرامپ کارین باؤر نے پارلیمان میں بحث کے دوران کہا وہ طالبان کی حالیہ دھمکیوں کو کافی سنجیدگی سے لے رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا، "آنے والا وقت خطرناک ہوگا۔"
بیرون ملک جرمن فوج کی سب سے بڑی تعیناتی
افغانستان میں اس وقت جرمنی کے تقریبا ایک ہزار تین سو فوجی تعینات ہیں اور اس تعداد کے لحاظ سے بیرون ملک جرمن فوج کی یہ سب سے بڑی تعیناتی ہے۔
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کا کہنا تھا، "افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات طویل عرصے کے بعد افغانستان میں امن کے لیے ایک حقیقی موقع ہے، ایک ایسا موقع ہے جسے ہمیں کسی بھی حال میں ضائع نہیں کرنا چاہیے۔"
ٹرمپ انتظامیہ نے طالبان کے ساتھ جو امن معاہدہ کیا تھا اس کے مطابق بیرونی افواج کو رواں برس یکم مئی تک افغانستان سے نکلنا ہے۔ تاہم جو بائیڈن کی انتظامیہ اس معاہدے کا از سر نو تجزیہ کر رہی ہے اور جلد ہی اس حوالے سے اعلان کی توقع ہے۔