1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی کا انتخابی نظام، ایک تعارف

Dick, Wolfgang / عدنان اسحاق 10 ستمبر 2013

جرمنی میں پارلیمانی انتخابات 22 ستمبر کو ہونا ہیں۔ چانسلر انگیلا میرکل اور پیئر اشٹائن بروک چانسلر شپ کے امیدوار ہیں۔ جرمن پارلیمانی انتخابات میں امیدوار سے زیادہ اس کی جماعت کو اہمیت دی جاتی ہے۔

تصویر: Fotolia/MaxWo

جرمنی میں اگر کوئی کسی سیاسی جماعت کا رکن نہیں ہے تو اس کے پارلیمان میں پہنچنے کے امکانات بھی بہت معدوم ہوتے ہیں۔کوئی بھی آزاد امیدوار بہت زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے بعد ہی تقریباً 600 رکنی پارلیمان کا حصہ بن سکتا ہے۔ جرمنی کے بنیادی آئین میں درج ہے، ’’سیاسی جماعتیں ہی فیصلہ سازی میں شامل ہو سکتی ہیں‘‘۔ سیاسی امور کے متعدد ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ جرمنی میں سیاسی جماعتیں فیصلہ سازی کے علاوہ یہ فیصلے بھی کرتی ہیں کہ کون سیاست کے میدان میں سرگرم رہ سکتا ہے۔ اس بات کا تعلق جرمنی کے انتخابی نظام سے ہے، جس میں ہر ووٹر کے دو ووٹ ہوتے ہیں۔

تصویر: Fotolia/PeJo

جرمنی میں اٹھارہ سال یا اس سے زیادہ عمر کا ہر شہری ووٹ دینے کا حق رکھتا ہے۔ اس طرح اہل ووٹرز کی موجودہ تعداد 61.8 ملین بنتی ہے۔ ان میں سے تین ملین کے قریب وہ ہیں، جو ستمبر میں پہلی مرتبہ اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ انتخابات میں حصہ لینے کی خواہش مند تمام جماعتوں کو الیکشن کمشنر کے سامنے پیش ہونا ہوتا ہے۔ آئین، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو تسلیم کرنے والی تمام جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جاتی ہے۔ 22 ستمبر 2013ء کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں 34 جماعتیں حصہ لے رہی ہیں۔ تاہم آج کل جرمن پارلیمان میں صرف چھ جماعتوں کو ہی نمائندگی حاصل ہے، سی ڈی یو، سی ایس یو، ایس پی ڈی، ایف ڈی پی، گرین پارٹی اور دی لِنکے۔

نظریاتی طور پر بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی جماعتیں بھی پارلیمنٹ میں پہنچ سکتی ہیں۔ جمہوری طریقہ کار میں فیصلہ ہمیشہ اکثریت کی مرضی سے ہوتا ہے اور چھوٹی جماعتیں مختلف اتحادوں کا حصہ بن جاتی ہیں۔ اس وجہ سے افراتفری سے بچنے کے لیے یہ قانون بھی موجود ہے کہ صرف وہی سیاسی جماعتیں اپنے نمائندے پارلیمان میں بھیج سکتی ہیں، جنہیں انتخابات میں کم از کم پانچ فیصد ووٹ ملیں۔ اس طرح ہر رائے دہندہ کا ایک ووٹ امیدوار کے لیے ہوتا ہے اور اپنے دوسرے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے وہ کسی بھی پارٹی کی حمایت کر سکتا ہے۔

جرمنی میں بیلٹ پیپر کے بھی دو حصے ہوتے ہیں۔ پہلے ووٹ کے ذریعے امیدوار کو چنا جاتا ہے جبکہ دوسرے حصے پر سیاسی جماعتوں کے نام درج ہوتے ہیں۔ یہ حصہ زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ جس جماعت کو جتنے زیادہ ووٹ ملیں گے پارلیمان میں اس کی موجودگی اتنی ہی زیادہ ہو گی۔ اس طرح یہ جماعت اپنے زیادہ سے زیادہ امیدواروں کو پارلیمان میں پہنچا سکتی ہے۔

گزشتہ ساٹھ برسوں کے دوران اس انتخابی نظام میں نہ ہونے کے برابر تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ پارلیمانی ارکان کی بات کی جائے تو پہلے اور دوسرے ووٹ کے نتائج کو برابر ہی تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم منتخب ہونے کے بعد یہ ارکان سربراہ حکومت یعنی وفاقی چانسلر کا انتخاب کرتے ہیں۔ جرمنی میں انتخابی نظام کو اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں اہم نکتہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ کیا یہ جمہوری انداز نہیں ہو گا کہ سیاسی جماعتیں خود ہی پچاس فیصد امیدواروں کے بارے میں فیصلہ کریں۔

تصویر: Fotolia/Gina Sanders

ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ کس طرح پہلے اور دوسرے ووٹ کے نتائج ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک پارٹی کو مطلوبہ پانچ فیصد ووٹ نہیں ملے اور وہ پارلیمان میں نہیں پہنچ سکی لیکن اس کے کئی امیدوار پہلا ووٹ حاصل کرتے ہوئے براہ راست کامیاب ہو گئے، جن میں سے کچھ کو اپنی نشست سے محروم بھی ہونا پڑا۔ ایسے میں پارلیمان میں نشستوں کی تقسیم پر تنازعہ پیدا ہونا فطری سی بات ہے۔ 2008ء میں وفاقی جرمن آئینی عدالت نشستوں کی تقسیم کے طریقہء کار کو خلاف آئین قرار دے چکی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ براہِ راست جیتنے والے امیدوار کی آئینی حیثیت کو مضبوط تر بنایا جائے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں