جرمنی کا اہم ترین ادبی انعام معروف مصنفہ ٹیریسیا مورا کے لیے
27 اکتوبر 2018
جرمنی کا اہم ترین ادبی انعام گیورگ بیوشنر پرائز آج ہفتہ ستائیس اکتوبر کے روز معروف مصنفہ ٹیریسیا مورا کو دیا جا رہا ہے۔ ہر سال دیے جانے والے اس انعام کے ساتھ وصول کنندہ کو پچاس ہزار یورو کی نقد رقم بھی دی جاتی ہے۔
اشتہار
یہ سالانہ ادبی انعام جرمن زبان اور شاعری کی اکیڈمی کی طرف سے دیا جاتا ہے اور آج ٹیریسیا مورا کو یہ ایوارڈ شہر دارمشٹٹ میں ہونے والی ایک باوقار تقریب میں دیا جا رہا ہے۔ اس اکیڈمی نے یہ انعام دینے کا سلسلہ 1951ء میں شروع کیا تھا اور اس کے ذریعے جرمن زبان میں اہم ادبی تخلیقات پر ان کے مصنفین کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے۔
مالی طور پر Georg Buechner Prize ہر سال وفاقی جرمن حکومت کے ثقافت اور ذرائع ابلاغ سے متعلقہ امور کے نگران عہدیدار، وفاقی صوبے ہَیسے کی وزارت برائے سائنس اور ثقافت اور شہر دارمشٹٹ کی انتظامیہ کی طرف سے مشترکہ طور پر دیا جاتا ہے۔
ٹیریسیا مورا کو سال 2018ء کا گیورگ بیوشنر پرائز دینے کا فیصلہ جولائی میں کیا گیا تھا اور آج منعقدہ تقریب میں یہ انعام اس جرمن مصنفہ کو پیش کر دیا جائے گا۔ مورا 1971ء میں ہنگری میں سوپورن کے مقام پر پیدا ہوئی تھیں اور گزشتہ کئی برسوں سے جرمن دارالحکومت برلن میں رہتی ہیں۔
مورا کو یہ انعام دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس مقصد کے لیے تشکیل دی گئی جیوری نے کہا تھا، ’’ٹیریسیا مورا کے ناول اور کہانیاں ان بے وطن اور معاشرے کے مرکزی دھارے سے دور انسانوں کو درپیش صورت حال اور ان کے المیوں کی نشاندہی کرتے ہیں، جن کے پرآشوب حالات بیان کرتے ہوئے ٹیریسیا مورا اپنی انگلیاں اپنے قارئین اور موجودہ دور دونوں کی دکھتی ہوئی رگوں پر رکھ دیتی ہیں۔‘‘
اس جرمن مصنفہ کی ادبی تخلیقات کے بارے میں اسی جیوری نے اپنی رائے میں یہ بھی کہا تھا، ’’ٹیریسیا مورا بڑے شہروں میں رہنے والے اور خود کو خانہ بدوشوں کی طرح گم گشتہ محسوس کرنے والے انسانوں کے اندر پائے جانے والے احساس اجنبیت اور ان کے ارد گرد کے معاشروں میں ان سے متعلق پائی جانے والے اجنبی پن دونوں کی بڑی کامیابی سے تصویر کشی کرتی ہیں۔‘‘
نوبل پرائز جیتنے والے معروف ادیب
نئے ہزاریے میں نوبل انعام حاصل کرنے والے ادباء میں کوئی خاص فرق نہیں دیکھا گیا۔ ان میں آسٹریا کی طنز نگار کے علاوہ اولین ترک ادیب اور چینی مصنف بھی شامل ہیں
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Giagnori
امریکی گیت نگار بوب ڈلن
امریکی گیت نگار اور ادیب بوب ڈلن کو رواں برس کے نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی گیت نگار کو ادب کا یہ اعلیٰ ترین انعام دیا گیا ہے۔ وہ بیک وقت شاعر، اداکار اور مصنف ہونے کے علاوہ ساز نواز بھی ہیں۔ انہوں نے کئی فلموں میں اداکاری کے جوہری بھی دکھائے ہیں۔
تصویر: Reuters/K.Price
2015: سویٹلانا الیکسیوچ
نوبل انعام دینے والی کمیٹی نے بیلا روس کی مصنفہ سویٹلانا الیکسیوچ کو ادب نگاری کے ایک نئے عہد کا سرخیل قرار دیا۔ کمیٹی کے مطابق الیکسیوچ نے اپنے مضامین اور رپورٹوں کے لیے ایک نیا اسلوب متعارف کرایا اورانہوں نے مختلف انٹرویوز اور رپورٹوں کو روزمرہ کی جذباتیت سے نوازا ہے۔
تصویر: Imago/gezett
2014: پیٹرک موڈیانو
جنگ، محبت، روزگار اور موت جیسے موضوعات کو فرانسیسی ادیب پیٹرک موڈیانو نے اپنے تحریروں میں سمویا ہے۔ نوبل کمیٹی کے مطابق انہوں نے اپنے ناآسودہ بچین کی جنگ سے عبارت یادوں کی تسلی و تشفی کے لیے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا اور یادوں کو الفاظ کا روپ دینے کا یہ منفرد انداز ہے۔
تین برس قبل کینیڈا کی ادیبہ ایلس مُنرو کو ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی نے اُن کو عصری ادب کی ممتاز ترین ادیبہ قرار دیا۔ مُنرو سے قبل کے ادیبوں نے ادب کی معروف اصناف کو اپنی تحریروں کے لیے استعمال کیا تھا لیکن وہ منفرد ہیں۔
تصویر: PETER MUHLY/AFP/Getty Images
2012: مو یان
چینی ادیب گوان موئے کا قلمی نام مو یان ہے۔ انہیں چینی زبان کا کافکا بھی قرار دیا جاتا ہے۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق مو یان نے اپنی تحریروں میں حقیقت کے قریب تر فریبِ خیال کو رومان پرور داستان کے انداز میں بیان کیا ہے۔ چینی ادیب کی کمیونسٹ حکومت سے قربت کی وجہ سے چینی آرٹسٹ ائی وی وی نے اِس فیصلے پر تنقید کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
2011: ٹوماس ٹرانسٹرُومر
سویڈش شاعر ٹرانسٹرُومر کے لیے ادب کے نوبل انعام کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا کہ اُن کی شاعری کے مطالعے کے دوران الفاظ میں مخفی جگمگاتے مناظر بتدریج حقیقت نگاری کا عکس بن جاتے ہیں۔ ٹوماس گوسٹا ٹرانسٹرُومر کی شاعری ساٹھ سے زائد زبانوں میں ترجمہ کی جا چکی ہے۔
تصویر: Fredrik Sandberg/AFP/Getty Images
2010: ماریو ورگاس یوسا
پیرو سے تعلق رکھنے والے ہسپانوی زبان کے ادیب ماریو ورگاس یوسا کو اقتدار کے ڈھانچے کی پرزور منظر کشی اور انفرادی سطح پر مزاحمت، بغاوت و شکست سے دوچار ہونے والے افراد کی شاندار کردار نگاری پر ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ انہوں نے لاطینی امریکا کے کئی حقیقی واقعات کو اپنے ناولوں میں سمویا ہے۔ میکسیکو کی آمریت پر مبنی اُن کی تخلیق کو بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔
تصویر: AP
2009: ہیرتا مؤلر
نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق ہیرتا مؤلر نے اپنی شاعری اور نثری فن پاروں میں بے گھر افراد کی جو کیفیت بیان کی ہے وہ ایسے افراد کے درد کا اظہار ہے۔ جیوری کے مطابق جرمن زبان میں لکھنے والی مصنفہ نے رومانیہ کے ڈکٹیٹر چاؤشیسکو کو زوردار انداز میں ہدفِ تنقید بنایا تھا۔ اُن کا ایک ناول Atemschaukel کا پچاس سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔
تصویر: Getty Images
2008: ژان ماری گستاو لاکلیزیو
فرانسیسی نژاد ماریشسی مصنف اور پروفیسر لا کلیزیو چالیس سے زائد کتب کے خالق ہے۔ ان کی تخلیقات کے بارے میں انعام دینے والی کمیٹی نے بیان کیا کہ وہ اپنی تحریروں کو جذباتی انبساط اور شاعرانہ مہم جوئی سے سجانے کے ماہر ہیں۔ بحر ہند میں واقع جزیرے ماریشس کو وہ اپنا چھوٹا سا وطن قرار دیتے ہیں۔ اُن کی والدہ ماریشس اور والد فرانس سے تعلق رکھتے ہیں۔
تصویر: AP
2007: ڈورس لیسنگ
چورانوے برس کی عمر میں رحلت پا جانے والی برطانوی ادیبہ ڈورس لیسنگ نے بے شمار ناول، افسانے اور کہانیاں لکھی ہیں۔ سویڈش اکیڈمی کے مطابق خاتون کہانی کار کے انداز میں جذباتیت اور تخیلاتی قوت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کا شمار نسلی تعصب رکھنے والی جنوبی افریقی حکومت کے شدید مخالفین میں ہوتا تھا۔
تصویر: AP
2006: اورہان پاموک
اورہان پاموک جدید ترکی کے صفِ اول کے مصنفین میں شمار ہوتے ہیں۔ اُن کے لکھے ہوئے ناول تریسٹھ زبانوں میں ترجمہ ہونے کے بعد لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہو چکے ہیں۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق وہ اپنے آبائی شہر (استنبول) کی اداس روح کی تلاش میں سرگرداں ہیں جو انتشار کی کیفیت میں کثیر الثقافتی بوجھ برادشت کیے ہوئے ہے۔ دنیا بھر میں وہ ترکی کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیب تصور کیے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
2005: ہیرالڈ پِنٹر
برطانوی ڈرامہ نگار ہیرالڈ پِنٹر نوبل انعام ملنے کے تین برسوں بعد پھیھڑے کے کینسر کی وجہ سے فوت ہوئے۔ نوبل انعام دینے والی کمیٹی کے مطابق وہ ایک صاحب طرز ڈرامہ نگار تھے۔ ان کے کردار جدید عہد میں پائے جانے والے جبر کا استعارہ تھے اور وہ بطور مصنف اپنے اُن کرداروں کو ماحول کے جبر سے نجات دلانے کی کوشش میں مصروف رہے۔ وہ بیک وقت اداکار، مصنف اور شاعر بھی تھے۔
تصویر: Getty Images
2004: الفریڈے ژیلینک
آسٹرین ناول نگار الفریڈے ژیلینک کو نوبل انعام دینے کی وجہ اُن کے ناولوں اور ڈراموں میں پائی جانے والی فطری نغمگی ہے جو روایت سے ہٹ کر ہے۔ ژیلینک کے نثرپاروں میں خواتین کی جنسی رویے کی اٹھان خاص طور پر غیرمعمولی ہے۔ اُن کے ناول ’کلاویئر اشپیلرن‘ یا پیانو بجانے والی عورت کو انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔ اس نوبل پر فلم بھی بنائی جا چکی ہے۔
تصویر: AP
2003: جان میکسویل کُوٹزی
جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے ناول نگار، انشا پرداز اور ماہرِ لسانیات جان میکسویل کُوٹزی کے نثرپاروں میں انتہائی وسیع منظر نگاری اور خیال افرینی ہے۔ کوئٹزے نوبل انعام حاصل کرنے سے قبل دو مرتبہ معتبر مان بکرز پرائز سے بھی نوازے جا چکے تھے۔ ان کا مشہر ناول ’شیم‘ نسلی تعصب کی پالیسی کے بعد کے حالات و واقعات پر مبنی ہے۔
تصویر: Getty Images
2002: اِمرے کارتیس
ہنگری کے یہودی النسل ادیب اصمرے کارتیس نازی دور کے اذیتی مرکز آؤشوٍٹس سے زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں اِس اذیتی مرکز پر منڈھلاتی موت کے سائے میں زندگی کے انتہائی کمزور لمحوں میں جو تجربہ حاصل کیا تھا، اسے عام پڑھنے والے کے لیے پیش کیا ہے۔ ان کا اس تناظر میں تحریری کام تیرہ برسوں پر محیط ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Lundahl
2001: شری ودیا دھر سورج پرشاد نائپال
کیریبیئن ملک ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو سے تعلق رکھنے والے شری ودیا دھر سورج پرشاد نائپال ایک صاحب طرز ادیب ہیں۔ انہوں نے مشکل مضامین کو بیان کرنے میں جس حساسیت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ اُن کا خاصا ہے۔ اُن کے موضوعات میں سماج کے اندر دم توڑتی انفرادی آزادی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Giagnori
16 تصاویر1 | 16
مورا کی ادبی تخلیقات کے بارے میں جرمن زبان کے کئی بڑے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی تحریریں عہد حاضر کے جیتے جاگتے لسانی فن پارے ہوتی ہیں، جن کی خاص بات روزمرہ کی زبان کے محاوروں اور جذبات دونوں کا بیک وقت اپنی کرخگتی اور نزاکت دونوں صورتوں میں پایا جانا ہوتی ہے۔
مورا کا تعلق ہنگری میں جرمن نسل کی اقلیتی آبادی سے ہے، اور ان کا غربت سے عبارت بچپن ہنگری اور آسٹریا کے مابین سرحد کے قریب ہنگری کے ایک ایسے گاؤں میں گزرا تھا، جہاں ان کے گھر میں جرمن اور ہنگیریئن دونوں زبانیں بولی جاتی تھیں۔ مورا کو ملنے والا گیورگ بیوشنر پرائز ان کے لیے کوئی پہلا بڑا اور اہم ادبی اعزاز نہیں ہے۔ انہیں 2013ء میں جرمنی کی کتابی صنعت کا جرمن بک پرائز بھی دیا گیا تھا۔
ٹیریسیا مورا کے افسانوں کی سب سے مشہور کتاب کا نام ’عجیب و غریب مادہ‘ یا Strange Material ہے، جو 1999ء میں شائع ہوئی تھی۔ ان کے مشہور ترین ناولوں میں 2004ء میں شائع ہونے والا ’تمام دن‘، 2009ء میں شائع ہونے والا ’براعظم پر موجود واحد آدمی‘ اور 2013ء میں شائع ہونے والا مونسٹر‘ شامل ہیں۔ مورا کے افسانوں کا اب تک آخری مجموعہ ’اجنبیوں میں محبت‘ ہے، جو 2016ء میں شائع ہوا تھا۔
م م / ع ا / ڈی پی اے، ای پی ڈی
جرمن بُک پرائز جیتنے والے گیارہ نامور مصنفین
جرمن زبان میں لکھنے والے یہ 11 مصنفین جرمنی کا مؤقر ترین ادبی انعام ’دی جرمن بُک پرائز‘ حاصل کر چکے ہیں۔ یہ اعزاز فرینکفرٹ کتاب میلے کے دوران جرمن ناشرین اور کتب فروشوں کی ملکی تنظیم کی طرف سے دیا جاتا ہے۔
تصویر: Fotolia/olly
فرانک وِٹسل
ان کے ناول The Invention of the Red Army Faction by a Manic-Depressive Teenager in the Summer of 1969 پر انہیں 2015ء کا جرمن بُک پرائز دیا گیا ہے۔ یہ انعام انہیں پیر 12 اکتوبر کو دیا گیا۔ ان کے ناول میں مغربی جرمنی سے تعلق رکھنے والے ایک 13 سالہ لڑکے کی سرد جنگ کے دور کی کہانی بیان کی گئی ہے جو گھریلو تشدد اور ماضی سے نبرد آزما ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
لُٹس زائلر
گزشتہ برس لُٹس زائلر کو ان کے ناول ’کرُوسو‘ پر بُک پرائز دیا گیا۔ 2014ء میں یہ ناول دیوار برلن کے انہدام کے تناظر میں لکھا گیا۔ اس کتاب میں آزادی کی تلاش اور سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی سے فرار کی کوششوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
ٹیریزیا مورا
مورا کی تصنیف ’دس اُنگیہوئر‘ یا ’دا مونسٹر‘ نے 2013ء کا بُک پرائز جیتا تھا۔ ٹیریزیا مورا ڈائری اور سفرنامے کی شکل میں لکھتی ہیں، جنہیں ایک گہری سیاہ لکیر سے الگ الگ رکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کتاب میں ان کی زندگی سے متعلق اور ڈپریشن کے حوالے سے طبی خاکے بھی موجود ہیں۔ یہ کتاب انگریزی زبان میں بھی دستیاب ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
اُرزُولا کریشَیل
2012ء کا بُک پرائز جیتنے والی اُرزُولا کریشَیل نے جج رچرڈ کورنِٹسر کی زندگی کو اپنے ناول ’ڈسٹرکٹ کورٹ‘ کا موضوع بنایا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ یہودی جج کیوبا سے جلاوطنی ختم کر کے جرمنی واپس لوٹا کیونکہ وہ جرمنی میں دوبارہ جج بننا چاہتا تھا۔ مصنفہ نے اپنے اس ناول کے لیے 10 برس تک تحقیق کی۔
تصویر: dapd
اوئگن رُوگے
اوئگن رُوگے کے 2011ء میں لکھے گئے ناول ’اِن ٹائمز آف فےڈِنگ لائٹ‘ کو بُک پرائز دیا گیا۔ اس کتاب میں مشرقی جرمنی سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کی کہانی بیان کی گئی ہے جو 1950ء کی دہائی سے 1989ء میں جرمنی کے اتحاد اور نئی صدی کے آغاز تک کے دور سے تعلق رکھتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Dedert
میلِنڈا ناج ابونجی
2010ء کا بُک پرائز جیتنے والی ابونجی کی کتاب ’ٹاؤبن فلِیگن آؤف‘ یا ’فلائی اوے، پیجن‘ یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعد یورپ میں پیدا ہونے والے تنازعات کا احاطہ کرتی ہے۔ اس ناول میں ایک خاندان کی کہانی کو یوگوسلاویہ کے تنازعے اور سربیا کے صوبے ووج وَودینا میں ہنگیرین نسل سے تعلق رکھنے والی ایک اقلیت کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Eisele
کیتھرین شمِٹ
کیتھرین شمِٹ کی 2009ء میں لکھی جانے والی کتاب ’یو آر ناٹ گوئنگ ٹو ڈائی‘ جرمنی کے اتحاد کے دور سے متعلق ہے جب ایک خاتون کومہ سے بیدار ہوتی ہے اور اپنی کھوئی ہوئی یادیں اور بولنے کی صلاحیت واپس حاصل کر لیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Burgi
اُووے ٹَیلکامپ
2008ء میں جیوری نے بُک پرائز کمیونسٹ مشرقی جرمنی کے اتحاد سے قبل کے آخری سالوں سے متعلق ایک ناول ’ڈئر ٹرُم‘ یا ’دا ٹاور‘ کے مصنف کو دیا۔ یہ ناول ڈریسڈن میں رہنے والے ایک خاندان کو درپیش واقعات پر مشتمل ہے۔ اس ناول پر 2012ء میں ایک فلم بھی بن چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Elsner
جُولیا فرانک
2007ء میں بُک پرائز حاصل کرنے والے ناول کا نام Die Mittagsfrau ہے جسے انگریزی میں ’دا بلائنڈ سائیڈ آف دا ہارٹ‘ کا نام دیا گیا۔ اس ناول میں جولیا فرانک نے دو عالمی جنگوں کے دوران کے عرصے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کی کہانی پیش کی ہے۔ یہ ناول 34 مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Guillem Lopez
کیتھرینا ہاکر
2006ء کا بُک پرائز جیتنے والی کیتھرینا ہاکر نے جوان لوگوں کی کہانیاں Die Habenichtse یعنی ’دا ہیو ناٹس‘ The Have-Nots میں بیان کی ہیں۔ 30 برس کے لگ بھگ عمر کے ایسے لوگوں کی کہانیاں جو اور تو بہت کچھ جانتے ہیں مگر اپنے آپ کو نہیں۔ ان لوگوں کو کیسے رہنا چاہیے، ان کی اقدار کیا ہیں اور انہیں کیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے، یہ اس ناول کے بنیادی سوالات ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E.Elsner
آرنو گائیگر
2005ء میں سب سے پہلا جرمن بُک پرائز آرنو گائیگر کو ان کے ناول ’اَیس گیہت اُنس گُٹ‘ یعنی ’وی آر ڈوئنگ وَیل‘ پر دیا گیا۔ اس ناول کی کہانی ویانا سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کی تین نسلوں کے گرد گھومتی ہے۔