جرمنی کا خانہ جنگی سے دوچار شام کے لیے مزید امداد کا وعدہ
30 مارچ 2021
جرمنی، برسلز میں مجوزہ عطیہ دہندگان ملکوں کی کانفرنس میں شام میں خانہ جنگی کے متاثرین کے لیے اس بار بھی اضافی مدد کا وعدہ کرے گا۔
اشتہار
جرمنی، شام میں گزشتہ دس برسوں سے جاری خانہ جنگی سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے ایک ''خاطر خواہ'' رقم مہیا کرنے کے لیے تیار ہے۔ شام کے لیے تازہ امداد مہیا کرنے پر بات چیت کے لیے برسلز میں 30 مارچ منگل کے روز ایک’ڈونر کانفرنس‘ میں دنیا کے 60 ممالک کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔
پیر کے روز جرمن وزارت خارجہ کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ جرمنی نے گزشتہ برس شام کو ایک ارب 88 کروڑ امریکی ڈالر کی امداد فراہم کی تھی اور اس برس بھی وہ تقریباً اس سے زیادہ رقم اور مزید دیگر اہم وسائل مہیا کرنے کی تصدیق کرتا ہے۔
گزشتہ برس شام کو مجموعی طور پر تقریبا ًپونے ساتھ ارب ڈالر کی رقم مہیا کی گئی تھی جبکہ مجموعی طور پر وعدہ تقریبا ًساڑھے چار ارب ڈالر کا کیا گیا تھا۔ اس میں سے جرمنی نے منصوبے سے زیادہ ایک اعشاریہ سات ارب یورو کی امداد فراہم کی تھی۔
امداد کا بیشتر حصہ غذائی اشیا، ادویات اور بچوں کی تعلیم پر خرچ کیا جائے گا۔ یہ رقم بیشتر امدادای ایجنسیوں یا پھر بڑی تعداد میں مہاجرین کو پناہ دینے والے ممالک میں تقسیم کی جائے گی۔
شامی تنازعہ میں برسر پیکار قوتیں
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں سن 2011ء کے عرب اسپرنگ کے بعد شام میں خانہ جنگی کا جو سلسلہ شروع ہوا اس نے دنیا کے مختلف حریف گروہوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وقت شام میں کون سی قوتیں طاقت کی جنگ لڑ رہی ہیں؟
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
شام کے مسلح گروہ
شام کے بڑے علاقے پر مختلف باغی گروپوں اور صدر بشار الاسد کے درمیان کنٹرول کے حصول کی جنگ کے باعث ملک زبردست خانہ جنگی کا شکار ہے۔ اس تنازعہ میں اب تک کئی غیر ملکی طاقتیں شامل ہوچکی ہیں اور کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ڈکٹیٹر
شامی افواج جسے شامی عرب افواج ، ایس ایس اے، کے نام سے جانا جاتا ہے، ملکی صدر بشار الاسد کی وفا دار ہے اور پورے ملک پر بشار الاسد کی حکومت ایک بار پھر بحال کرنے کے لیے جنگ لڑ رہی ہے۔ اس جنگ میں ان کے ساتھ نیشنل ڈیفینس فورس جیسی ملیشیا ، روس اور ایران کے عسکری ماہرین کی مشاورت شامل ہے۔
ترکی اسلامک اسٹیٹ کے خلاف امریکی اتحاد کا حصہ ہے اور اس وقت شامی جنگ میں صدر بشار الاسد کے حریف باغیوں کے گروپ کی حمایت کر رہا ہے۔ ترکی جنوبی ادلب اور افرین صوبوں میں باغیوں کے ہمراہ کارروائیوں میں ساتھ دے چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Pitarakis
مشرقی محافظ
روس بشار الاسد کا طاقتور دوست ثابت ہو رہا ہے۔ ستمبر 2015 میں روسی فضائیہ اور زمینی افواج نے باقاعدہ طور پر شامی فوج کے شانہ بشانہ کارروائیوں میں حصہ لیا۔ روس کی اس خانہ جنگی میں شمالیت اب تک بشار الاسد کے حق میں ثابت ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Tass/M. Metzel
مغربی اتحادی
امریکا نے 50 ممالک کے اتحادیوں کے ساتھ شام میں سن 2014ء سے اسلامک اسٹیٹ کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس وقت امریکا کے ایک ہزار سے زائد خصوصی دستے سیرئین ڈیموکریٹک فورسز کی حمایت کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A.Brandon
مزاحمت کار
شامی کردوں اور اسلامک اسٹیٹ کے درمیان اختلافات جنگ کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ امریکی حمایت یافتہ اتحاد اسلامک اسٹیٹ کے خلاف سیرئین ڈیموکریٹک فورسز کا ساتھ دے رہا ہے جو کرد اور عرب ملیشیا کا بھی اتحادی ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Sik
نئے جہادی
اسلامک اسٹیٹ نے خطے میں جاری افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عراق اور شام کے بڑے علاقوں پر سن 2014ء میں قبضہ جما لیا تھا اور وہاں خلافت قائم کرنا چاہی۔ تاہم اب روس اور امریکی فوجی مداخلت کے بعد ان کو دونوں ممالک میں شکست فاش ہوئی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
پرانے جہادی
اسلامک اسٹیٹ وہ واحدگروپ نہیں جو شام میں تباہی کا ذمہ دار ہے۔ اس تنازعہ میں الاسد حکومت اور باغیوں کے کئی گروہ شامل ہیں۔ ان میں ایک بنیادی تنظیم حیات التحریر الاشام بھی ہے جس کے القاعدہ کے ساتھ روابط ہیں اور جس نے صوبے ادلب کے بشتر حصے کا کنٹرول حاصل کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Nusra Front on Twitter
8 تصاویر1 | 8
پائیدار امن کا متبادل کچھ بھی نہیں
توقع ہے کہ اس کانفرنس میں جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس اپنے بیان میں شام میں حقیقی امن کے قیام اور اس کے لیے مذاکرات پر زور دیں گے۔ ان کے خطاب کی ایک نقل ڈی ڈبلیو کو حاصل ہوئی ہے جس میں ان کا کہنا ہے، ''بڑے سے بڑا اور طویل ترین امدادی قافلہ بھی پائیدار امن کا متبادل نہیں ہو سکتا۔''
ان کا مزید کہنا تھا، ''شام کی حکومت اور اس کے حامیوں کو بالآخر یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ایک سنجیدہ سیاسی عمل ہی ملک کو ایک مستحکم مستقبل فراہم کر سکتا ہے۔ تباہ شدہ ملک میں دکھاوے کے لیے انتخابات حقیقی مذاکرات کے متبادل ہرگز نہیں ہو سکتے۔''
انہوں نے مزید کہا، ''شام کے اس سانحے کو آئندہ مزید 10 برسوں تک جاری رہنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ لہذا ہم لاکھوں شامی شہریوں کی تکالیف دور کرنے اور امن کے امکان کو حاصل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی کوششوں کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔''
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے متنبہ کیا ہے کہ شام میں زمینی صورت حال دن بہ دن مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے امداد کے حوالے سے بھی حکمت عملی بدلنے پر زور دیا ہے۔
ادلب میں زندگی تنگ ہوتی ہوئی
02:52
یورپی یونین ابھی تک ان تمام علاقوں میں امداد فراہم کرنے کو مسترد کرتی رہی ہے جو صدر بشار الاسد کے زیر کنٹرول ہیں۔ بلاک کا موقف ہے وہ ایسا اسی صورت میں کرنے پر راضی ہوگی جب شام میں سیاسی حل کے لیے کوئی ٹھوش پیش رفت ہوگی۔
اشتہار
امدادی گروپ حکمت عملی میں تبدیلی کے خواہاں
جرمنی میں بعض کیتھولک خیراتی اداروں کا کہنا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ان علاقوں میں بھی تعمیراتی پروجیکٹ کو امداد فراہم کی جائے جو صدر اسد کے زیر کنٹرول ہیں۔ 'جرمن کیتھولک کاٹیاز' کے صدر پیٹیر نیہر نے شام میں انسانی صورت حال کو تباہی سے تعبیر کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے سے، ''جس ایمرجنسی امداد پر توجہ دی جاتی رہی ہے اسے اب ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ ''
نیہر نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے بات چیت میں کہا، '' حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں میں بھی ہمیں تعمیراتی اقدامات کرنے کی اجازت دینی ہوگی۔ ہم لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے سر پر بھی ایک چھت ہو۔ ہمیں بچوں کے لیے اسکول اور صحت کے مراکز تعمیر کرنے ہوں گے۔''
شام میں گزشتہ ایک عشرے سے جاری خانہ جنگی اور پھر حالیہ معاشی بحران کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں غربت و افلاس میں زبرست اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق شام میں تقریبا ًسوا کروڑ لوگ، یعنی ملک کی تقریبا ًساٹھ فیصد آبادی، بھوک سے دو چار ہے۔ ایسے افراد جو غذائی اشیا کی امداد کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے ان کی گزشتہ ایک برس کے دوران تعداد دوگنی ہوگئی ہے۔
ص ز/ ج ا (روئٹرز، ڈی پی اے)
شامی جنگ کی ایک دہائی، ایک تصویری دستاویز
اقوام متحدہ کے دفتر برائے کوآرڈینیشن انسانی امور نے شامی جنگ کی تصویری دستاویز مکمل کی ہے۔ اس میں شامی فوٹرگرافروں کی شاہکار تصاویر شامل ہیں۔ چند ایک درج ذیل ہیں:۔
تصویر: Bassam Khabieh/OCHA
الرقعہ کے ملبے تلے دبی یادیں
اس تصویر میں ایک خاتون بچے کی گاڑی کے ساتھ الرقعہ کے ایک تباہ شدہ علاقے سے گزررہی ہیں۔ سن 2019 میں یہ تصویر عبُود حمام نے کھینچی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ الرقعہ شہر کی ہر گلی میں ان کی یادیں بکھری ہوئی ہیں لیکن اب اس شہر کی شکل ان کے لیے گہرے صدمے کا باعث ہے۔ حمام کے مطابق دکھ کی بات یہ ہے کہ شہر کا ماضی اور گزری زندگی کی سبھی یادیں تباہ و برباد کر دی گئیں۔ یہ سب کچھ انتہائی تکلیف دہ ہے۔
تصویر: Abood Hamam/OCHA
نہ ختم ہونے والا سوگ
سن 2020 میں ادلب میں دو بھائی ماں کے مرنے پر گلے لگ کر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے۔ فوٹو گرافر غیث السید سترہ برس کا تھا جب جنگ شروع ہوئی تھی۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کے شہر پر کیے گئے ایک فضائی حملے میں میزائل لگنے سے ان کے بھائی امر کی موت ہوئی۔ تب سے میزائل حملے کا ہر منظر اس کی یادیں تازہ کر دیتا ہے۔
تصویر: Ghaith Alsayed/OCHA
تباہی میں سب چھن گیا
سن 2020 میں ایک ماں اور اس کا بچہ تباہ شدہ اسکول میں کھڑے ہیں۔ یہ تصویر محمد زیاد نے کھینچی تھی۔ زیاد شام کی جنگ شروع ہونے کے زمانے میں ہائی اسکول کا طالب علم تھا اور فوٹوگرافر یا صحافی بننا اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ لیکن پچھلے چند برسوں میں اس کی تصاویر انسانی المیے کے شاہکار کی صورت میں کئی جریدوں میں چھپیں۔ زیاد کو اس سے بہت ہمت اور حوصلہ ملا ہے۔
تصویر: Mohannad Zayat/OCHA
بم دھماکوں سے بنے گھڑوں میں پانی
سن 2013 میں حلب شہر کا منظر۔ فوٹو گرافر مظفر سلمان ہیں۔ بم دھماکے سے تباہ شدہ اس پائپ سے ایک بچہ پانی پی رہا ہے۔ اس تصویر پر خاصی تنقید کی گئی کہ فوٹو گرافر کو تصویر بنانے کیبجائے بچے کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنا چاہیے تھا۔ فوٹو گرافر کا کہنا ہے کہ دیکھے بغیر حقیقت کا یقین اور حالات میں تبدیلی ممکن نہیں۔
تصویر: Muzaffar Salman/OCHA
الوداع اے غول!
مارچ سن 2018: ایک شخص اپنے بچے کو ایک سوٹ کیس میں ڈال کر گھسیٹتا ہوا بقیہ خاندان کے ساتھ غول سے فرار ہو رہا ہے۔ عمر صنادیکی اس کے فوٹوگرافر ہیں جنہوں نے اس امید پر یہ تصویر بنائی کہ شاید 50 سال بعد ان کی اپنی بیٹیاں اس انسانی المیے کی تصاویر دنیا کو دکھا سکیں۔
تصویر: Omar Sanadiki/OCHA
دُوما میں کافی کا ایک کپ
سن 2017 ایک عورت اور اس کا شوہر دوما کے نواح میں واقع اپنے مکان میں کافی پی رہے ہیں۔ دوما دارالحکومت دمشق کے نواح میں ہے۔ فوٹوگرافر سمیر الدومی کے مطابق تصویر خاتون ام محمد کی ہے، جو زخمی ہونے کے بعد ابھی ٹھیک ہو رہی تھیں کہ ان کے شوہر فضائی حملے میں چلنے پھرے سے معذور ہو گئے۔ ام محمد کی اپنے شوہر کے لیے محبت قابل دید ہے۔
تصویر: Sameer Al-Doumy/OCHA/AFP
بیٹے کی قبر پر سوگوار ماں
یہ تصویر محمد ابا زید نے کھینچی۔ 2017ء میں عید الفطر کے پہلے دن ایک ماں اپنے بیٹے کو چوم رہی ہے اور گریا زاری کر رہی۔ فوٹو گرافر کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رک سکا۔ وہ اپنے آنسو پونچھتا جاتا اور درد وغم کے انتہائی لمحات کو عکس بند کرتا جا رہا تھا۔ یہ تصویر درعا کی ایک قبرستان میں بنائی گئی تھی۔
تصویر: Mohamad Abazeed/OCHA
مارٹر حملے میں ٹانگ کھو بیٹھنے والی بچی
دسمبر سن 2013 : پانچ سالہ بچی ’آیا‘ رات کے کھانے پر اپنے والد کا انتظار کر رہی ہے۔ یہ تصویر اُس لمحے کارول الفرح نے کھینچی۔ بچی اسکول سے لوٹ رہی تھی کہ رستے میں مارٹر گولے کی زد میں آ گئی۔ اس کا کہنا ہے کہ ایک دھماکا ہوا اور اس کی ٹانگ جوتے سمیت اڑ گئی۔
تصویر: Carole Alfarah/OCHA
ایک انوکھا عارضی تربیتی کورس
یہ تصویر سن 2020 میں انس الخربوتی نے کھینچی۔ حلب کے علاقے کفر نوران میں تباہ شدہ عمارت میں ’پارکور ایتھلیٹس‘ کی ٹریننگ ایک تعمیری عمل۔ فوٹو گرافر کوملبے میں زندگی آگے بڑھانے کا جذبہ نظر آیا۔
تصویر: Anas Alkharboutli/OCHA/picture alliance/dpa
ادلِب میں ایک نئی زندگی کا امکان
علی حاج سلیمان نے یہ تصویر سن 2020 میں ادلب شہر کی جنوبی بستی بلیُون میں کھینچی۔ ’ غم اور خوشی کا ملا جلا جذبہ‘۔ ایک خاندان جنگ بندی معاہدے کے بعد واپس اپنے مکان پہنچا ہے۔ سلیمان کو خوشی ہوئی کہ یہ خاندان اپنے گھر لوٹا تاہم اسے دکھ ہے کہ وہ خود اپنے گاؤں اور گھر نہیں جا سکتا۔