ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ ان کا دورہ جرمنی انتہائی کامیاب رہا ہے۔ اس تین روزہ دورے کے دوران انہوں نے جرمن رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں کے علاوہ کولون میں ایک مسجد کا افتتاح بھی کیا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے حوالے سے بتایا ہے کہ جرمنی کا دورہ انتہائی کامیاب ثابت ہوا ہے۔ کولون شہر میں ایک مسجد کے افتتاح کے موقع پر ایردوآن کا کہنا تھا، ’’ہم نے اس اہم وقت میں (جرمنی کا) بہت کامیاب دورہ کیا ہے۔‘‘
جرمنی میں متنازعہ شخصیت تصور کیے جانے والے ترک صدر ایردوآن کا کہنا تھا کہ انہوں نے جرمن رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں نسل پرستی اور اجانب دشمنی کے خاتمے کے کی خاطر مذاکرات بھی کیے۔ یہ امر اہم ہے کہ جرمنی میں ترک باشندوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے، جو جرمنی میں مسلمان کمیونٹی کا ایک بڑا حصہ بھی ہے۔
ترک صدر نے مزید کہا کہ انہیں یقین ہے کہ اس دورے کے دوران جرمن رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں جرمن اور ترک تعلقات میں مضبوطی اور بہتری کا باعث بنیں گی۔ حالیہ عرصے میں کئی اختلافی معلامات کی وجہ سے جرمنی اور ترکی میں کشیدگی میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔
تاہم دونوں ممالک کی کوشش ہے کہ اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے باہمی امور پر توجہ مرکوز کی جائے۔ اس دورے کے دوران ترک صدر نے اپنے جرمن ہم منصب فرانک والٹر شٹائن مائر اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ساتھ بھی ملاقاتیں کیں۔
ترک صدر ایردوآن نے جرمنی میں اپنے تین روزہ قیام کے دوران جرمن تجارتی وفود سے بھی ملاقاتیں کیں، جس کا مقصد ترکی میں جرمن سرمایہ کاری میں اضافہ کرنا ہے۔
انہوں نے دہرایا کہ جرمنی اور ترکی کو ’حالیہ اختلافات‘ کو ایک طرف رکھتے ہوئے مشترکہ مفاد کے امور پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے۔ مبصرین کے خیال میں اس مخصوص وقت میں ایردوآن کا دورہ جرمنی دونوں ممالک کے مابین کشیدہ تعلقات میں بہتری کی طرف سے قدم ثابت ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف ایردوآن کے دورہ جرمنی کے موقع پر کئی احتجاجی مظاہروں کا اہتمام بھی کیا گیا۔ برلن کے علاوہ کولون شہر میں بھی مختلف تنظیموں نے ریلیوں کا اہتمام کیا۔ یہ مظاہرین ترکی میں آزادی اظہار پر پابندیوں اور ’مطلق العنان طرز حکومت‘ کے خلاف احتجاج کرتے نظر آئے۔
منتظمین کا کہنا تھا کہ کولون شہر میں ہونے والے مظاہروں میں دس ہزار افراد شریک ہوں گے لیکن پولیس کے مطابق ہفتے کے دن کولون شہر میں ایردوآن کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی۔
ع ب / اا / خبر رساں ادارے
مسلم دنیا میں ایردوآن کا دوست کون، مخالف کون؟
ترک صدر رجب طیب ایردوآن کو مسلم ممالک میں یا تو بے انتہا پسند کیا جاتا ہے یا پھر ان کی شدید مخالفت کی جاتی ہے۔ صدر ایردوآن کے حامیوں اور مخالفین میں مسلم دنیا کے کون سے اہم رہنما پیش پیش ہیں؟
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kamaci
مصری صدر السیسی اور ایردوآن
صدر ایردوآن اور مصری صدر السیسی کے تعلقات مصر میں اخوان المسلمون کی وجہ سے کشیدگی کا شکار ہوئے۔ صدر ایردوآن کے مطابق السیسی فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار میں آئے اس لیے انہیں برسراقتدار رہنے کا حق نہیں۔ دوسری جانب قاہرہ کا کہنا ہے کہ اخوان المسلمون ایک ’دہشت گرد‘ تنظیم ہے اور ایردوآن اس کے حامی ہیں۔ یہ دونوں ممالک لیبیا میں بھی آمنے سامنے ہیں۔
تصویر: Reuters
شیخ خلیفہ بن زید اور ایردوآن
ترک اماراتی تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں اور متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ خلیفہ بن زید النہیان نے بھی ایردوآن کو دوبارہ منتخب ہونے پر مبارک نہیں دی تھی۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی کی کئی وجوہات ہیں جن میں خلیجی تنازعہ اور ’سیاسی اسلام‘ کے معاملے پر اختلافات نمایاں ہیں۔ ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک میڈیا نے متحدہ عرب امارات پر باغیوں کی معاونت اور حمایت کے الزامات عائد کیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP/Y. Bulbul
سعودی ولی عہد اور ایردوآن
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور ترکی کے مابین اختلاف کی بنیادی وجہ ’مسلم ممالک کی قیادت‘ ہے۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان تو ترکی پر یہ الزام بھی عائد کر چکے ہیں کہ انقرہ اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/N. Asfouri
ترکی اور پاکستان
ترکی اور پاکستان کے دوستانہ تعلقات کئی عشروں پر محیط ہیں۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کو اپنا بھائی قرار دیتے ہیں۔ صدر ایردوآن کے شریف خاندان کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں لیکن انہوں نے عمران خان کو بھی خوش آمدید کہا۔ مسئلہ کشمیر پر ترکی نے ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی ہے۔
تصویر: Reuters/Presidential Press Office/K. Ozer
صدر بشار الاسد اور صدر ایردوآن
شامی صدر بشار الاسد کا شمار بھی صدر ایردوآن کی شدید مخالفت کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ صدر ایردوآن شام میں خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے صدر بشار الاسد کے اقتدار سے الگ کیے جانے کا اپنا مطالبہ دہراتے رہتے ہیں اور ایک تقریر میں تو ایردوآن یہ تک کہہ چکے ہیں کہ وہ ’شام کو آزاد‘ کرائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عراق اور ترکی
ان دونوں ممالک کے مابین تعلقات سن 2016 کے بعد اس وقت زیادہ کشیدہ ہو گئے تھے جب ترک فوجیں عراق کے شمالی حصے میں داخل ہو گئی تھیں۔ عراق نے ترک فوجی کارروائی کو اپنی ریاستی خود مختاری کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
تصویر: Reuters/The Presidency of the Republic of Iraq Office
شیخ تمیم اور ایردوآن
قطر اور خلیجی ممالک کے مابین تنازعے کے دوران ترکی نے قطر کی حمایت کی تھی۔ دونوں ممالک کے مابین دیرینہ اقتصادی اور عسکری تعلقات بھی ہیں۔ اسی وجہ سے قطری امیر پرنس تمیم احمد الثانی صدر ایردوآن کو انتخابات کے بعد مبارک دینے والے پہلے عالمی رہنما تھے۔
تصویر: picture-alliance/C. Oksuz
صدر روحانی اور ایردوآن
ایران اور ترکی کے مابین تعلقات حالیہ برسوں کے دوران مزید مستحکم ہوئے ہیں۔ اگرچہ شامی تنازعے، خاص طور پر صدر اسد کے مستقبل کے حوالے سے ایران اور ترکی کا موقف مختلف ہے، تاہم اس تنازعے کے حل کے لیے بھی یہ دونوں ممالک روس کے ساتھ مل کر کوشاں ہیں۔
تصویر: Atta Kenare/AFP/Getty Images
مراکش اور صدر ایردوآن
مراکش اور ترکی کے مابین بھی قریبی تعلقات ہیں۔ ترکی نے مراکش میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔ مراکشی وزیر اعظم سعد الدین العثمانی کی جماعت اور صدر ایردوآن کی سیاسی جماعت کے بھی آپس میں قریبی رابطے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Domingo
لیبیا اور ترکی
طرابلس میں ترک پرچم لہرانے والے یہ مظاہرین ترک صدر کو پسند کرتے ہیں۔ ترکی نے طرابلس حکومت کی مدد کے لیے اپنے فوجی دستے حال ہی میں وہاں تعینات کیے ہیں۔ اس ملک میں مصر اور سعودی عرب ترکی کا اثرو رسوخ کم کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/H. Turkia
سوڈان اور ترکی
سوڈان کے سابق صدر عمر حسن البشیر کا شمار ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے پرانے دوستوں میں ہوتا تھا اور اسی وجہ سے دونوں ممالک کے مابین قریب اقتصادی تعلقات بھی تھے۔ البشیر حکومت کے خاتمے کے بعد سے دونوں ملکوں کے مابیں اب پہلے جیسی گرمجوشی نہیں رہی۔