1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

جرمنی کا سیاسی بحران: اپوزیشن اعتماد کا ووٹ فوری چاہتی ہے

8 نومبر 2024

حزب اختلاف کی جماعتوں نے چانسلر اولاف شولس سے جلد از جلد اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ شولس کی اپوزیشن لیڈر فریڈرش میرس سے ملاقات بھی بے نتیجہ رہی اور وہ بدھ کے روز ایوان میں بیان دیں گے۔

فریڈرش میرس
کرسچن ڈیموکریٹس کے اپوزیشن لیڈر فریڈرش میرس نے جمعرات کے روز چانسلر شولس سے اپنی ناکام ملاقات کے بعد صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر سے ملاقات کی، جو تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہیتصویر: Kay Nietfeld/dpa/picture alliance

جرمنی میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے چانسلر اولاف شولس سے بغیر کسی تاخیر کے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور جلد از جلد عام انتخابات کرانے پر بھی زور دیا ہے۔

 گزشتہ روز مخلوط حکومت کے اتحاد کا شیرازہ بکھر جانے کے بعد چانسلر نے جنوری کے وسط میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی بات کہی تھی۔ تاہم اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وہ ایوان کا اعتماد کھو چکے ہیں اس لیے اس پر فوری طور پر عمل ہونا چاہیے۔

جرمنی میں حکمران تین جماعتی مخلوط حکومتی اتحاد ٹوٹ گیا

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کے دباؤ کے بعد بھی اگر چانسلر اس پر ٹھوس وضاحت پیش نہیں کرتے، تو اس سے ان کی پارٹی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس لیے اگلے ہفتے یا آئندہ دو ہفتوں کے دوران انہیں اعتماد کے ووٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

جرمنی میں بدھ کی رات کو سیاسی بحران اس وقت پیدا ہوا، جب اقتصادی امور پر شدید اختلافات کی بنا پر چانسلر اولاف شولس نے اپنے وزیر خزانہ کرسٹیان لنڈنر کو برطرف کر دیا ۔

اس کارروائی کے فوری بعد ان کی حکومت میں شامل جماعت ایف ڈی پی نے اپنے تمام وزرا کے استعفے سونپ دیے اور حکومت سے حمایت واپس لے لی اور اس طرح چانسلر شولس کی قیادت والی مخلوط حکومت نے ایوان میں اکثریت کھو دی۔

جرمنی میں سیکسنی اور تھیورنگیا کے پارلیمانی الیکشن میں کانٹے دار مقابلہ

چانسلر شولس آئندہ ہفتے ایوان میں بیان دیں گے

حزب اختلاف کی جماعتوں کے دباؤ کے بعد جرمن چانسلر اولاف شولس نے سیاسی بحران کے حوالے سے بدھ کے روز ایوان میں بیان دینے کا اعلان کیا ہے۔

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق اگلے ہفتے بدھ کے روز وہ وفاقی پارلیمان کے ایوان زیریں بنڈسٹاگ سے خطاب کریں گے۔

اس سے قبل شولس نے جنوری میں اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے اپنے ارادے کے بارے میں بات کی تھی تاکہ اس کے بعد عام انتخابات کرائے جا سکیں۔ تاہم حزب اختلاف فوری طور پر اعتماد کے ووٹ کے لیے زور دے رہا ہے۔

جرمن چانسلر انتہائی دائیں بازو کی جماعت پر پابندی کے مخالف

گزشتہ روز سیاسی بحران کے پیدا ہوتے ہی چانسلر شولس نے فریڈرش میرس سے ملاقات کر کے معاملات حل کرنے کی امید ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ وہ ان کے ساتھ مل کر ملک کی ترقی کے لیے کام کرنا چاہتے ہیںتصویر: REUTERS

اپوزیشن سی ڈی یو کے رہنما کی صدر سے ملاقات

حزب اختلاف کی اہم جماعت کرسچن ڈیموکریٹس کے اپوزیشن لیڈر فریڈرش میرس نے جمعرات کے روز چانسلر شولس سے اپنی ناکام ملاقات کے بعد صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر سے ملاقات کی، جو تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہی۔

خیال کیا جاتا ہے کہ سربراہ مملکت کے ساتھ میرز کی یہ گفتگو  فوری نئے انتخابات کے روڈ میپ کے بارے میں تھی۔ تاہم ابتدائی طور پر گفتگو کے مواد یا نتائج کے بارے میں تفصیلات معلوم نہیں ہو سکیں۔

ادھر صدر نے جمعرات کے روز ہی سبکدوش ہونے والے فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) کے تینوں وزراء کو سرٹیفکیٹ بھی فراہم کر دیے۔

جرمن سیاست دان کی قبر کی بے حرمتی کا معاملہ کیا ہے؟

اولاف شولس اور فریڈرش میرس کی ملاقات

صدر سے ملنے سے پہلے فریڈرش میرس نے برلن میں چانسلر اولاف شولس سے ملاقات کی، تاہم چانسلر سے ان کی ملاقات کا کوئی مثبت حل نہیں نکل سکا اور ملاقات کے بعد انہوں نے جلد سے جلد انتخاب کرانے کے لیے فوری طور پر اعتماد کے ووٹ کے لیے زور ڈالا۔

ملاقات کے بعد شولس نے کہا ہے کہ اگر بہت جلدی کی جائے تو بھی جنوری میں انتخابات ہو سکتے ہیں۔

کہا جا رہا ہے کہ ملاقات کے دوران میرس نے چانسلر کو یہ پیش کش کی تھی کہ ان کے ارکان آئندہ کی قانون سازی پر تبادلہ خیال کر سکتے ہیں اور وہ اقلیتی حکومت کی حمایت بھی کر سکتے ہیں، تاہم صرف اس صورت میں جب وہ اعتماد کا ووٹ اگلے ہفتے حاصل کرنے پر راضی ہوں۔ تاہم چانسلر شولس اگلے سال جنوری میں اعتماد کے ووٹ کے لیے مقرر کردہ اپنے ٹائم ٹیبل پر قائم رہنا چاہتے ہیں۔

جرمنی میں اسلامی قانون کے حامیوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق اگلے ہفتے بدھ کے روز وہ وفاقی پارلیمان کے ایوان زیریں بنڈسٹاگ سے خطاب کریں گےتصویر: Markus Schreiber/AP/picture alliance

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کا کہنا ہے کہ اولاف شولس کے ساتھ میٹنگ سے میرس خالی ہاتھ واپس لوٹے۔

فریڈرش میرس بطور چانسلر اولاف شولس کی جگہ لینے کی امید رکھتے ہیں اور اسی سلسلے میں انہوں نے اس میٹنگ کے بعد صدر سے ملاقات کی اور انتخاب جلد از جلد کرانے کے طریقہ کار کے بارے میں بات کی۔

گزشتہ روز سیاسی بحران کے پیدا ہوتے ہی چانسلر شولس نے فریڈرش میرس سے ملاقات کر کے معاملات حل کرنے کی امید ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ "اب میں بہت جلد اپوزیشن لیڈر فریڈرش میرس سے بات چیت کرنے کی کوشش کروں گا۔"

چانسلر کا کہنا تھا کہ وہ میرس کو دو یا اس سے بھی زیادہ ایسے مسائل پر مل کر کام کرنے کا موقع فراہم کرنا چاہتے ہیں جو جرمنی کے لیے بہت اہم ہیں: "ہماری معیشت اور ہمارے دفاع کی تیزی سے مضبوطی کے لیے۔"

دائیں بازو کے ایک جرمن سیاستدان سے امریکی ایف بی آئی کی پوچھ گچھ

جرمن فوری انتخابات چاہتے ہیں، جائزہ

ایک سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جرمن ووٹرز اب فوری طور پر انتخابات کے حق میں ہیں۔

سروے میں حصہ لینے والوں میں سے تقریباً 65 فیصد افراد جرمنی کی پارلیمان کے ایوان زیریں، بنڈسٹاگ کے انتخابات کے فوری مطالبے کی حمایت کرتے ہیں۔ 33 فیصد کا کہنا ہے کہ وہ چانسلر اولاف شولس کے اس موقف سے متفق ہیں کہ انتخابات مارچ میں منعقد کرائے جائیں۔

جرمن پبلک براڈکاسٹر اے آر ڈی کی طرف سے کیے جانے والے اس سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ جرمنی کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کو 34 فیصد ووٹ ملیں گے۔

اس سروے کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی الٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) پارٹی 18 فیصد ووٹوں کے ساتھ جرمنی کی دوسری سب سے بڑی پارٹی بن جائے گی، جبکہ اولاف شولس کی جماعت سوشل ڈیموکریٹس (ایس ڈي پی) کو صرف 16 فیصد وٹ ملیں گے۔

دوسری دو جماعتیں، گرین پارٹی اور کاروبار پر مرکوز فری ڈیموکریٹس (ایف ڈی پی)، جو اس مخلوط حکومت کا حصہ تھیں، انہیں پارلیمان کی نشستوں سے محروم ہونے کا خطرہ ہے۔

گرینز کو گزشتہ انتخابات میں 15 فیصد ووٹ ملے تھے اور فی الوقت انہیں صرف بارہ فیصد ووٹ ملنے کی توقع ہے، جبکہ ایف ڈی پی کے گیارہ فیصد سے کم ہو کر اب محض پانچ فیصد تک رہ جانے کی توقع ہے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز) 

وہ خوبیاں، جنہوں نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کوکامیاب بنایا

09:34

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں