جرمنی کا عالمی سطح پر کردار بڑھ رہا ہے، جائزہ رپورٹ
20 مارچ 2019
پی ای ڈبلیو نامی ادارے کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق یورپی شہریوں کی رائے میں عالمی سطح پر جرمنی کا کردار بڑھ رہا ہے جب کہ فرانس اور برطانیہ کا عالمی معاملات میں اثر و رسوخ زوال کی جانب گامزن ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Zinken
اشتہار
انیس مارچ بروز منگل جاری کردہ یہ رپورٹ پی ای ڈبلیو ریسرچ سینٹر نے تیار کی ہے۔ اس سروے میں یورپی یونین کے رکن دس ممالک کے شہریوں سے ان کی رائے پوچھی گئی تھی اور جائزے میں شامل قریب پچاس فیصد یورپی شہریوں کی رائے تھی کہ عالمی معاملات میں گزشتہ دہائی کی نسبت اب جرمنی کا کردار زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے۔
اس رپورٹ میں لکھا گیا، ’’یورپی شہریوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ جہاں جرمن کردار اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے وہیں عالمی معاملات میں برطانوی اور فرانسیسی اثر و رسوخ زوال کی جانب گامزن ہے۔‘‘
جرمن کردار: یورپی شہری کیا سوچتے ہیں؟
اس تحقیقی جائزے کے کچھ اہم مندرجات درج ذیل ہیں۔
عالمی معاملات میں جرمنی کے اثر و رسوخ میں اضافے کا سب سے زیادہ تاثر یونان میں پایا جاتا ہے۔ اس جائزے میں شریک 81 فیصد یونانی شہری اس تاثر سے متفق تھے۔
اٹلی اور اسپین کے 56 فیصد شہری بھی ایسی ہی رائے رکھتے ہیں۔
برطانوی شہری اس رائے سے دیگر یورپی ممالک کی نسبت سب سے کم متفق دکھائی دیے، برطانیہ میں ایسی سوچ رکھنے والوں کی تعداد صرف 37 فیصد رہی۔
مجموعی طور پر 10 یورپی ممالک میں عالمی معاملات میں جرمنی کے بڑھتے ہوئے کردار سے اتفاق کرنے والے شہریوں کی تعداد اوسطا 47 فیصد تھی۔
یورپی یونین کے بارے میں رائے
جائزے میں شرکت کرنے والے یورپی شہریوں کی اکثریت کے خیال میں یورپی یونین امن، جمہوری اقدار اور خوش حالی کی ترویج کر رہی ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ یورپی شہری یورپی یونین میں موجود مسائل کو نظر انداز کرتے ہیں۔ 62 فیصد یورپی شہریوں کے خیال میں یہ یورپی ادارہ عام یورپی شہریوں سے کٹا ہوا ہے۔
جائزے میں حصہ لینے والے یورپی یونین کے رکن دس ممالک میں سے آٹھ کے شہریوں کی اکثریت اس رائے سے متفق دکھائی دی۔ صرف جرمنی اور پولینڈ کے شہری اس خیال سے دیگر ممالک کی نسبت کم متفق تھے۔
مہاجرت کے بارے میں اب بھی ’شدید تحفظات‘
سن 2015 میں یورپ میں مہاجرین کا بحران شروع ہوا تھا اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی ’کھلے دروازوں کی پالیسی‘ کے باعث قریب ایک ملین تارکین وطن جرمنی پہنچے تھے۔ چار برس بعد اب یہ صورت حال کافی حد تک قابو میں ہے لیکن اس جائزے کے مطابق یورپی شہریوں کو مہاجرت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی بحران پر اب بھی شدید تحفظات ہیں۔
اس ادارے نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ کئی یورپی ممالک میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ تارکین وطن اپنے ہنر اور صلاحیتوں کی بدولت ان کے ممالک کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں لیکن دوسری جانب زیادہ تر یورپی شہری اپنے اپنے ملک میں تارکین وطن کی تعداد میں کمی کے حامی ہیں۔
ش ح/ ا ا (Lewis Sanders IV)
برلن کا رائش ٹاگ، جمہوریت کا گھر
جرمن دارالحکومت برلن میں واقع تاریخی عمارت رائش ٹاگ کی گنبد نما چھت دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہ عمارت جرمن تاریخ کی کئی میٹھی اور تلخ یادیں ساتھ لیے ہوئے ہے، نازی دور حکومت سے لے کر جرمنی کے اتحاد تک۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Spata
رائش ٹاگ کا لان
رائش ٹاگ کا لان منتخب ارکان پارلیمان کو پرسکون انداز میں غور وفکر کا موقع فراہم کرتا ہے۔ سن انیس سو ننانوے سے یہ عمارت جرمن بنڈس ٹاگ یعنی جرمن پارلیمان کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
شیشے کا گنبد
رائش ٹاگ کا منفرد گنبد مشہور آرکیٹیکٹ سر نورمان فوسٹر کی تخلیق ہے۔ برلن آنے والے سیاحوں کے لیے یہ مقام انتہائی مقبول ہے۔ اس گنبد کی اونچائی چالیس میٹر (130فٹ) ہے، جہاں سے برلن کا شاندار نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس گنبد سے پارلیمان کا پلینری ہال بھی دیکھا جا سکتا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ لوگوں کا اجازت ہے کہ وہ قانون سازوں کو مانیٹر بھی کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kalker
پارلیمان کی شاندار عمارت
رائش ٹاگ کی تاریخی عمارت سن 1894 سے دریائے سپری کے کنارے کھڑی ہے۔ آرکیٹیکٹ پال والوٹ نے جرمن پارلیمان کے لیے پہلی عمارت تخلیق کی تھی، یہ الگ بات ہے کہ تب جرمنی میں بادشاہت کا دور تھا۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
جمہوریت ۔۔۔ بالکونی سے
نو نومبر سن انیس سو اٹھارہ کو جب جرمنی میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا تو سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان فیلپ شائڈے من نے جرمنی کو جمہوریہ بنانے کا اعلان کیا۔ اس عمارت کے بائیں طرف واقع یہ بالکونی اسی یاد گار وقت کی ایک علامت قرار دی جاتی ہے، یعنی جمہوریت کے آغاز کی۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/M. Weber
رائش ٹاگ میں آتشزدگی
ستائیس فروری سن انیس سو تینیتس میں یہ عمارت آتشزدگی سے شدید متاثر ہوئی۔ اس وقت کے چانسلر اڈولف ہٹلر نے اس واقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جرمنی میں آمریت نافذ کر دی۔ کیمونسٹ سیاستدان میرینوس فان ڈیر لوبے Marinus van der Lubbe کو اس سلسلے میں مجرم قرار دے دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
مقتول سیاستدانوں کی یادگار
رائش ٹاگ کی عمارت کے باہر ہی لوہے کی سلیں ایک منفرد انداز میں نصب ہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو اس آرٹ کے نمونے کی ہر سل پر ان اراکین پارلیمان کے نام درج ہیں، جو سن 1933 تا سن 1945 نازی دور حکومت میں ہلاک کر دیے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/H. Hattendorf
روسی فوجیوں کی گرافٹی
رائش ٹاگ نہ صرف جرمنی میں نازی دور حکومت کے آغاز کی کہانی اپنے ساتھ لیے ہوئے بلکہ اس کے خاتمے کی نشانیاں بھی اس عمارت میں نمایاں ہیں۔ روسی افواج نے دو مئی سن 1945 میں کو برلن پر قبضہ کرتے ہوئے اس عمارت پر سرخ رنگ کا پرچم لہرایا تھا۔ روسی فوج کی یہ کامیابی دوسری عالمی جنگ کے اختتام کا باعث بھی بنی۔ تب روسی فوجیوں نے اس عمارت کی دیوراوں پر دستخط کیے اور پیغامات بھی لکھے، جو آج تک دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kalker
برلن کی تقسیم
دوسری عالمی جنگ کے دوران رائش ٹاگ کی عمارت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ سن 1948 میں برلن کے میئر ایرنسٹ روئٹر نے لوگوں کے ایک ہجوم کے سامنے اسی متاثرہ عمارت کے سامنے ایک یادگار تقریر کی تھی۔ روئٹر نے اتحادی فورسز (امریکا، برطانیہ اور فرانس) سے پرجوش مطالبہ کیا تھا کہ مغربی برلن کو سوویت یونین کے حوالے نہ کیا جائے۔ اپنے اس موقف میں انہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
دیوار برلن کے سائے میں
جب سن 1961 میں دیوار برلن کی تعمیر ہوئی تو رائش ٹاگ کی عمارت مغربی اور مشرقی برلن کی سرحد پر تھی۔ تب اس عمارت کے شمال میں دریائے سپری اس شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتا تھا۔ تب مشرقی برلن کے لوگ مبینہ طور پر اس دریا کو عبور کر کے مغربی برلن جانے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ اس کوشش میں ہلاک ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کی خاطر سن 1970 میں رائش ٹاگ کے قریب ہی ایک خصوصی یادگار بھی بنائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kunigkeit
دیوار برلن کا انہدام اور جرمنی کا اتحاد
نو نومبر سن 1989 میں دیوار برلن کا انہدام ہوا تو پارلیمان کی یہ عمارت ایک مرتبہ پھر شہر کے وسط میں شمار ہونے لگی۔ چار ماہ بعد اس دیوار کو مکمل طور پر گرا دیا گیا۔ دو اور تین اکتوبر سن 1990 کو لاکھوں جرمنوں نے رائش ٹاگ کی عمارت کے سامنے ہی جرمنی کے اتحاد کی خوشیاں منائیں۔
تصویر: picture-alliance/360-Berlin
جرمن پارلیمان کی منتقلی
رائش ٹاگ کی عمارت کو سن 1995 میں مکمل طور پر ترپالوں سے چھپا دیا گیا تھا۔ یہ آرٹ ورک کرسٹو اور جین کلاوڈ کا سب سے شاندار نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ رائش ٹاگ کی چھپی ہوئی عمارت کو دیکھنے کی خاطر لاکھوں افراد نے برلن کے اس تاریخی مقام کا رخ کیا۔ تب متحد برلن میں سب کچھ ممکن ہو چکا تھا یہاں تک اسے وفاقی جموریہ جرمنی کی پارلیمان کا درجہ ہی کیوں نہ دے دیا جائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
مستقبل کی جھلک
آرکیٹیکٹ نورمان فوسٹر اس ٹیم کے سربراہ تھے، جس نے رائش ٹاگ کی عمارت کی تعمیر نو کی۔ چار سالہ محنت کے بعد اس عمارت کا بنیادی ڈھانچہ بدلے بغیر اسے نیا کر دیا گیا۔ اب یہ ایک جدید عمارت معلوم ہوتی ہے، جس کا شیشے سے بنا گنبد آرکیٹکچر کا ایک منفرد نمونہ ہے۔ ستمبر 1999 میں اس عمارت کو جرمن پارلیمان بنا دیا گیا۔ سیاستدان اب اسی عمارت میں بیٹھ کر پارلیمانی طریقے سے جرمنی کے سیاسی مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں۔