جرمنی: کتنے مہاجرین کو لازماﹰ ملک بدر کیا جائے گا؟
شمشیر حیدر AFP
9 اپریل 2017
جرمنی میں غیر ملکیوں سے متعلق وفاقی رجسٹر (اے زیڈ آر) کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2016 کے آخر تک دو لاکھ سات ہزار غیر ملکی ایسے تھے جنہیں لازمی طور پر جرمنی سے ملک بدر کیا جانا ہے۔
اشتہار
تاہم جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور ترک وطن (بی اے ایم ایف) کے سابق سربراہ اور مہاجرین کے امور سے متعلق وفاقی جرمن کمشنر فرانک یُرگن وائزے ان اعداد و شمار سے متفق نہیں ہیں۔
موقر جرمن جریدے ’ڈیئر اشپیگل‘ نے فرانک یُرگن وائزے کے دفتر کی جانب سے ایک سوال کے تحریری جواب کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایسے تارکین وطن کے بارے میں، جنہیں جرمنی سے لازماﹰ ملک بدر کیا جانا ہے، اے زیڈ آر کے جاری کردہ اعداد و شمار ’غیر معتبر‘ ہیں۔
رپورٹوں کے مطابق غیر ملکیوں سے متعلق وفاقی رجسٹر کے اعداد و شمار میں جن دو لاکھ سے زائد افراد کو شامل کیا گیا ہے ان میں تقریباً چالیس ہزار سے ایسے تارکین وطن کا اندراج بھی ہے جن کی اب تک جرمنی میں جمع کرائی گئی سیاسی پناہ کی درخواستوں پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔
جرمنی میں بائیں بازو کی جماعت کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزارت داخلہ نے بتایا تھا کہ اے زیڈ آر کے اعداد و شمار میں نصف تعداد ایسے مہاجرین کی ہے جن کی جرمنی میں جمع کرائی گئی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کی جا چکی ہیں جس کے باعث انہیں لازماﹰ ملک بدر کیا جانا ہے۔ جب کہ باقی نصف تعداد ایسے غیر ملکیوں کی ہے جن کے جرمن ویزے کی میعاد ختم ہونے کے باوجود وہ ابھی تک ملک میں موجود ہیں۔
اس سے پہلے بھی جرمن ادارے ایسے ہی اعداد و شمار بتا چکے ہیں، جن میں جرمنی سے لازمی طور پر ملک بدر کیے جانے والے مہاجرین کی تعداد حقیقی تعداد سے کہیں زیادہ بتائی گئی تھی۔
بائیں بازو کی جرمن خاتون سیاست دان اُولا یلپکے نے اشپیگل سے کی گئی اپنی ایک گفت گو میں غلط اعداد و شمار جاری کرنے پر وفاقی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے اعداد و شمار ’مہاجرین کو ملک بدر کیے جانے کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے‘ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔