1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

جرمنی میں پاکستانی: انضمام کونسل کے لیے امیدوار

3 ستمبر 2020

جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فالیا کے آئندہ بلدیاتی انتخابات میں سماجی انضمام کی کونسل کے لیے پاکستانی شہری بھی انتخابی امیدوار ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مقامی سیاست میں تارکین وطن کی بھرپور نمائندگی ہو۔

Landtagswahlen Nordrhein-Westfalen
تصویر: picture-alliance/dpa/J.Güttler

آبادی کے اعتبار سے جرمنی کے سب سے بڑے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فالیا میں 13 ستمبر کو بلدیاتی انتخابات کے ساتھ ساتھ غیر ملکی اور تارکین وطن کا پس منظر رکھنے والے شہری کونسل برائے انضمام کے امیدواروں کا انتخاب کریں گے۔

صوبائی حکام امید کر رہے ہیں کہ غیر ملکی شہریوں کی جانب سے اپنے حق رائے دہی کا بھرپور طریقے سے استعمال کیا جائے گا۔ ڈزلڈورف میں مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے این آر ڈبلیو کے وزیر انضمام یوآخم اشٹامپ (ایف ڈی پی) نے کہا کہ انتخابات میں تارکین وطن کی جتنی زیادہ شرکت ہوگی، مرکزی سیاست میں ان کی شمولیت اتنی ہی بڑھے گی۔ واضح رہے کہ جرمنی میں سب سے زیادہ غیر ملکی باشندے اسی صوبے میں آباد ہیں۔

کونسل برائے انضمام کے مقاصد

'انٹیگریشن راٹ‘ یعنی کونسل برائے سماجی انضمام بلدیاتی سطح پر تارکین وطن کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہے۔ انٹیگریشن کونسل کے منتخب نمائندے تارکین وطن کے مسائل کو شہری اور صوبائی انتظامیہ تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ کونسلیں ایک طرف جرمن معاشرے میں تارکین وطن برادری کو ضم کرنے میں متحرک رہتی ہیں تو دوسری طرف مقامی حکام ترک وطن کرنے والے  افراد کے لیے بہتر رہائشی سہولیات، صحت کی دیکھ بھال، اور بچوں کے لیے بین الثقافتی اسکول اور کنڈر گارٹن جیسے منصوبوں کے بارے میں ان کے ساتھ مسلسل مشاورت کرتے ہیں۔

تصویر: picture-alliance/dpa/M. Führer

مزید پڑھیے: لاکھوں مہاجرین کی آمد کے پانچ سال بعد جرمنی آج کہاں کھڑا ہے؟

اس مرتبہ این آر وے کے مختلف شہروں سے پاکستانی امیدوار بھی 13 ستمبر کو منعقد ہونے والے ان انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جرمنی میں پاکستانی تارکین وطن کی نمائندگی کی اشد ضرورت ہے۔

مقامی سیاست میں پہلا قدم

این آر وے کے ضلع ویزل کے شہر مؤرز کی انضمام کونسل کے لیے سوشلسٹ پارٹی (ایس پی ڈی) کے پاکستانی نژاد امیدوار عباد ارقم نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انٹیگریشن کونسل کے انتخابات جرمنی میں تارکین وطن کے لیے مقامی سیاست میں شمولیت کا پہلا قدم ہیں۔

عباد ارقم، مؤرز شہر کی انضمام کونسل کے لیے پاکستانی نژاد امیدوار تصویر: SPD Moers/K. Dieker

سولہ برسوں سے جرمنی میں مقیم عباد ارقم پیشے سے سافٹ ویئر انگجینئر ہیں۔ انہوں نے رضاکارانہ طور پر 'اسپورٹس کے ذریعے سماجی انضمام‘ کو فروغ دینے کے سلسلے میں 'مؤرز کرکٹ کلب‘ قائم کیا۔ ارقم کے بقول، ''مؤرز میں ہم کرکٹ کے ذریعے جرمن عوام کو اپنی کمیونٹی کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوگئے، اسی طرح اب ہمیں پاکستانی کمیونٹی کو مقامی سیاست کی جانب متحرک کرنا ہوگا اور اس حوالے سے انٹیگریشن کونسل ایک بہترین راستہ ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھیے: ذہنی طور پر معذور شہری بھی اب ووٹ دے سکیں گے

 

جرمن زبان، قوانین اور سیاست کی آگہی

دریائے رائن کے مشرقی کنارے پر واقع شہر لیور کوزن کی انضمام کونسل کے لیے انتخابی امیدوار محمد حسیب بُٹر نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ جرمنی میں ہماری آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم آج یہاں کی زبان سیکھیں، قوانین سے آگاہ رہیں، اور مقامی سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔

محمد حسیب بُٹر، لیور کوزن کی انضمام کونسل کے لیے انتخابی امیدوارتصویر: Privat

لیور کوزن سے 'انٹرنیشنل لسٹ‘ میں کُل تین پاکستانی امیدوار شامل ہیں۔ ان میں سے ایک امیدوار پاکستانی وکیل حسیب بٹر نے بتایا کہ لیور کوزن میں 135 سے زائد ممالک کے باشندے مقیم ہیں لیکن ان کے مسائل کم و بیش ایک ہی طرح کے ہیں، جیسے کہ مکان یا روزگار کی تلاش کے دوران مقامی لوگوں کے مقابلے میں  کم ترجیح ملنا، بچوں کا کنڈرگارٹن اپنے گھر سے کافی دور ہونا یا پھر روزمرہ کے معمول میں مختلف قسم کے امتیازی سلوک اور نسل پرستانہ رویے کا سامنا کرنا۔

بٹر کے بقول، ''یہ بہت ضروری ہے کہ تارکین وطن ان انتخابات میں اپنے نمائندے خود منتخب کریں تاکہ یہی نمائندے کونسل برائے انضمام میں ان کے مسائل کے حل کے لیے آواز بلند کرسکیں۔‘‘

فراز ڈاہر، سانکٹ آگسٹین میں انضمامی کونسل کے انتخابات کے لیے پاکستانی نژاد امیدوارتصویر: Privat

شہروں کے مابین شراکت داری

این آر وے کے ضلع رائن زیگ کے چھوٹے سے شہر سانکٹ آگسٹین میں انضمامی کونسل کے انتخابات کے لیے 'انٹرنیشنل لسٹ‘ میں واحد پاکستانی امیدوار فراز ڈاہر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انٹیگریشن کونسل کا رکن منتخب ہونا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہوگی کیونکہ ''آپ تارکین وطن افراد کی آواز بن جاتے ہیں۔‘‘

یہ بھی پڑھیے: مہاجرت سے کامیاب فوٹوگرافر بننے کا سفر

فراز ڈاہر جرمنی میں سن 2003 سے مقیم ہیں اور وہ ترقیاتی تعاون کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ڈاہر نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی دو ملکوں کے شہروں کے درمیان بلدیاتی سطح پر شراکت داری کے سلسلے میں انضمامی کونسل ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ڈاہر کے بقول، ''بلدیاتی سطح پر میونسپل پارٹنرشپ کے منصوبوں پر بات چیت کا آغاز تارکین وطن نمائندے ہی کرتے ہیں اور دو شہروں کے مابین تعاون کے لیے اپنی تجاویز پیش کرتے ہیں۔‘‘

دوطرفہ انضمام

رائن کے مغربی کنارے پر واقع شہر نوئس میں چھبیس برس سے مقیم زیاد چوہدری انضمامی کونسل میں 'اِش بن نوئس‘ یعنی 'میں نوئس ہوں‘ لسٹ کے انتخابی امیدوار ہیں۔ زیاد چوہدری نے ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ انٹیگریشن کونسل کی مدد سے تارکین وطن اور مقامی جرمن افراد کو ایک دوسرے کے قریب لانا چاہتے ہیں۔

زیاد چوہدری، نوئس شہر میں انضمامی کونسل کے انتخابی امیدوارتصویر: Privat

زیاد نے بتایا کہ اس ضمن میں انہوں نے جرمن پاکستانی ثقافتی تنظیم قائم کر رکھی ہے اور وہ انضمام کونسل میں منتخب رکن حیثیت سے بین الثقافت اور بین المذاہب ڈائیلاگ کے ساتھ ساتھ نوجوان تارکین وطن نسل کے لیے تعلیم و تربیت کے خصوصی مواقع کے لیے کوشش کریں گے۔ چوہدری کے بقول، ''جرمنی میں رہتے ہوئے ہمیں اپنے معاشرے کی ترقی میں کردار تو ادا کرنا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگوں کو اپنے آبائی ملکوں کے بارے میں بھی آگہی فراہم کرنی ہے۔ ‘‘

مزید پڑھیے: جرمنی: مسجد کی تعمیر کے خلاف ووٹنگ کامیاب

نوئس میں انٹیگریشن کونسل کےانتخابات میں تقریباﹰ گیارہ ممالک کے امیدوار حصہ لے رہے ہیں جس میں کُل تین پاکستانی شامل ہیں۔

جرمنی میں غیر ملکی شہری کن انتخابات میں ووٹ دے سکتے ہیں؟

صوبائی انضمام کونسل کے مطابق نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں 20 سے 30 لاکھ افراد انضمام کونسلوں کو ووٹ دینے کے حقدار ہیں۔ ان میں، یورپی یونین کے غیر جرمن شہری، جرمن شہریت حاصل کرنے والے تارکین وطن افراد، ایسے غیر ملکی والدین کے بچے جو جرمنی میں اپنی پیدائش کے ذریعے مقامی شہری بن گئے، نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں رہائشی اجازت نامہ کے ساتھ رہنے والے غیر ملکی افراد بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ووٹ دینے کے لیے کم از کم عمر 16 سال ہونا لازمی ہے۔ تاہم سیاسی پناہ کے متلاشیوں کو ان انتخابات میں شامل نہیں کیا گیا۔

جرمن انتخابات اور پاکستانی نوجوان

02:57

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں