پالتو کتوں سے حاصل ہونے والے ٹیکس نے گزشتہ سال جرمنی میں آمدن کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔ جرمنی میں 'ڈاگ ٹیکس' کا کیا اصول ہے اور یہ کیوں لیا جاتا ہے؟
اشتہار
جرمنی ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں کتا پالنے پر ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ اسے 'ہُنڈے شٹوئر' کہتے ہیں۔ گزشتہ سال جرمنی کو اس ٹیکس سے تقریباً 421 ملین یورو کی آمدن ہوئی۔ اس سے قبل 2022 میں بھی اس ٹیکس سے 414 ملین یورو کی ریکارڈ رقم حاصل ہوئی تھی۔
جرمنی میں کتے پالنے کا رجحان کتنا مقبول ہو رہا ہے اس کا اندازہ پچھلی دہائی کے ٹیکس ریکارڈ سے لگایا جاسکتا ہے۔ 2013 اور 2023 کے درمیان اس ٹیکس سے ریاست کی آمدنی میں 41 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
جرمن ٹریڈ اینڈ انڈسٹری ایسوسی ایشن (زیڈ زیڈ ایف) کا اندازہ ہے کہ جرمن گھروں میں پالتو کتوں کی کل تعداد گزشتہ سال 10 ملین سے زیادہ تھی۔ اس سال اس تعداد میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق جرمنی میں اوسطاً ہر دوسرے گھر میں ایک پالتو جانور ہے۔ سب سے زیادہ مقبول پالتو جانوروں کی فہرست میں کتا پہلے نمبر پر ہے۔
جرمنی میں ڈاگ ٹیکس کا طریقہ کیا ہے؟
جرمنی میں، اگر آپ کتا رکھنا چاہتے ہیں، تو آپ کو یا تو ایک بریڈر کے پاس جانا پڑے گا۔ یا آپ جانوروں کی پناہ گاہ سے کتے کو گود لے سکتے ہیں۔ بہت سے لوگ بیرون ملک سے بھی کتے گود لے کر جرمنی لاتے ہیں۔ اس کے لیے کافی کاغذی کارروائی کرنی پڑتی ہے۔
آپ جس علاقے میں رہتے ہیں اس کی میونسپلٹی آپ سے سالانہ ٹیکس وصول کرتی ہے۔ یہ ٹیکس کتے پالنے پر لگایا جاتا ہے لیکن بلیاں اس ٹیکس کے دائرے میں نہیں آتیں۔ ٹیکس کی رقم ایک جیسی نہیں ہے، ہر میونسپلٹی کی اپنی فیس ہے۔ ڈی پی اے کے مطابق یہ فیس گھر میں کتوں کی تعداد یا کتے کی نسل کے لحاظ سے مختلف ہو سکتی ہے۔
جرمن پیٹ سروسز کی ویب سائٹس پر دستیاب معلومات کے مطابق، اگر آپ کتے کے بچے کو گھر لے کر آئے ہیں، تو اس کی پیدائش کے تین ماہ کے اندر اندر اسے رجسٹر کرانا ہو گا۔ اگر کتا بالغ ہے، تو اسے گود لینے کے بعد تین سے چار ہفتوں کے درمیان رجسٹر ہونا ضروری ہے۔ عام طور پر، رجسٹریشن مقامی میونسپلٹی کے دفتر یا ٹاؤن ہال میں جا کر کی جاتی ہے۔ کچھ شہروں اور میونسپلٹیوں میں آن لائن رجسٹریشن کی سہولت بھی دستیاب ہے۔
اگر آپ کے پاس کتا ہے اور آپ اسے رجسٹر نہیں کراتے اور ٹیکس نہیں دیتے تو یہ جرم ہے۔ جیسے ہی آپ اپنے کتے کو ٹیکس آفس میں رجسٹر کراتے ہیں، آپ کو 'کتے کا ٹیگ' ملتا ہے۔ کتے کو اپنے گھر یا باڑ والے احاطے سے باہر لے جانے پر کتے کا ٹیگ نظر آنا چاہیے۔
کسی نئی جگہ پر شفٹ ہونے کی صورت میں یا رجسٹرڈ کتا کسی وجہ سے آپ کے ساتھ نہیں ہے تو آپ کو متعلقہ محکمہ کو مطلع کرنا ہو گا۔ 'ویلکم سینٹر جرمنی' کے مطابق اگر کوئی کتا لاپتہ ہو جائے یا مر جائے تب بھی محکمہ کو اطلاع دینا ضروری ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم مخصوص پالتو جانوروں سے متعلق خدمات پر خرچ کی جائے۔ میونسپلٹی اسے مختلف کاموں، جیسے کمیونٹی سروسز پر خرچ کر سکتی ہے۔
کتوں پر ٹیکس کیوں لیا جاتا ہے؟
باہر چہل قدمی کرنا کتوں کے فطری معمول کا حصہ ہے۔ وہ بلیوں کی طرح گھر کے کوڑے خانے میں رفع حاجت نہیں کرتے۔ عام طور پر لوگ صبح وشام کتوں کو سیر کے لیے باہر لے جاتے ہیں جہاں وہ پاخانہ کرتے ہیں۔ جرمنی میں سڑکوں کے کنارے، ندیوں کے قریب یا پارکوں میں خصوصی کوڑے دان لگائے جاتے ہیں۔ ان میں تھیلے رکھے گئے ہیں، جن کا استعمال کرکے کتے کے فضلے کو کوڑے دان میں ڈالا جا سکتا ہے۔
اگر ایسا نہ کیا گیا تو پارک اور سڑکیں صاف نہیں رہیں گی۔ اس صفائی کے نظام کو برقرار رکھنے میں میونسپلٹی کی لاگت ٹیکس سے ادا کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، جرمنی میں، کتے عام طور پر پالتو جانور ہیں. وہ گھروں یا شیلٹر ہومز میں رہتے ہیں، جہاں سے لوگ انہیں گود لے سکتے ہیں۔ جس کی وجہ سے سڑک پر آوارہ کتوں کی موجودگی نہیں ہے۔ ڈاگ ٹیکس انتظامیہ کو کتوں کی تعداد کو کنٹرول کرنے میں بھی مدد کرتا ہے۔
اس ٹیکس میں کچھ استثنیٰ اور چھوٹ کی بھی گنجائش ہے۔ ٹیکس کی رقم کو ان صورتوں میں کم کیا جا سکتا ہے یا اس سے مستثنیٰ بھی کیا جا سکتا ہے جہاں خصوصی ضروریات کے حامل افراد، جیسے نابینا افراد کی مدد کے لیے پالے جانے والے سروس یا گائیڈ کتے، پولیس اور نارکوٹکس ڈپارٹمنٹ کے کتے اور تھراپی ڈاگ وغیرہ جیسے معاملات میں ٹیکس کی رقم کم کی جاسکتی ہے یا چھوٹ بھی مل سکتی ہے۔ تاہم اس کے لیے مناسب دستاویزات پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
کتوں کی دس نسلیں، جن کی جڑیں جرمنی میں ہیں
کیا آپ کے ذہن میں چند ایسے کتوں کے نام ہیں، جن کا تعلق بنیادی طور پر جرمن سرزمین سے ہے؟ کچھ اپنے نام سے جرمن نہیں لگتے لیکن ہیں خالص جرمن۔ ایک مدت ہوئی یہ کتے پوری دنیا میں اپنے جرمن ہونے کی وجہ سے مشہور ہو چکے ہیں۔
تصویر: Imago/Danita Delimont
گریٹ ڈین
نام سے لگتا ہے کہ یہ ڈینش (ڈنمارک کا) ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ بڑے قد کے یہ کتے جرمن ہی ہیں۔ کتوں کی یہ نسل سترہویں صدی میں ’جرمن رائلز‘ اور اُن کے شکار کرنے والے ساتھیوں کے جنسی ملاپ کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ گریٹ ڈینز دنیا میں سب سے زیادہ قد والے کتوں کی نسل ہے۔ جرمن انہیں ’ڈوئچے ڈوگے‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ 2010ء میں اُتاری گئی یہ تصویر دنیا کے سب سے بڑے کتے کی ہے۔
تصویر: picture alliance / dpa
امیریکن اسکیمو ڈاگ
یہ کتا پہلی عالمی جنگ کے بعد اچانک ’امریکی‘ بن گیا تھا، جب امریکا نے جرمنی کے ساتھ اس کے تعلق سے متعلق تمام تر تفصیلات منظر سے ہٹا دی تھیں۔ اس کتے کو امریکا میں سرکس میں مزاحیہ کردار ادا کرنے کے باعث شہرت ملی۔ امریکی کینل کلب اس کتے کو ایک منفرد نسل قرار دیتا ہے لیکن بیلجیئم کا ادارہ FCI اس سے متفق نہیں اور کہتا ہے کہ یہ کتا ہمیشہ سے ’جرمن اشپٹس‘ تھا اور رہے گا۔
تصویر: Imago/Danita Delimont
باکسر
اٹھارویں صدی میں جرمن شہر میونخ کے تین مردوں نے ایک بُل ڈاگ کا ایک نامعلوم نسل کے کتے سے جنسی ملاپ کروایا اور اس تجربے کو چند اور نسلوں تک جاری رکھا۔ نتیجہ ایک ایسے کتے کی شکل میں سامنے آیا، جس کا چہرہ کلبی دُنیا میں فوری طور پر شناخت ہو جانے والے چہروں میں سے ایک ہے۔ اس کے بارے میں تفصیلات اب بھی وہی ہیں، جو 1902ء میں لکھی گئی تھیں۔ اس کے باوجود اس کتے کی اصل جڑیں ابھی تک پردہٴ اَسرار میں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ڈاخس ہُنڈ
’ڈاخس‘ یعنی بجّو، چھوٹے پاؤں والے ان کتوں کی افزائش شکاری کتوں کے طور پر کی گئی۔ انگریزی میں آج بھی یہ ’وِینر ڈاگز‘ ہیں اور یہ شوق سے بِل ہی نہیں کھودتے بلکہ کاٹتے بھی ہیں۔ 2008ء کے ایک جائزے کے مطابق بیس فیصد پالتو ڈاخس ہُنڈ کتوں نے اجنبیوں کو کاٹ لیا۔ ایسا ایک کتا جرمن شہنشاہ ولہیلم ثانی کے پاس بھی تھا، جو نواب فرانز فیرڈینانڈ سے ملنے گئے تو اُس کتے نے نواب کی ایک سنہری چکور کو کاٹ کر مار ڈالا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Nearmy
چھوٹا اور بڑا ’مُنسٹر لینڈر‘
1902ء میں کتے کی اس نسل کو، جسے پہلے نظر انداز کیا جا رہا تھا، ایک جرمن باشندے ایڈمُنڈ لوئنز کی کوششوں سے قبول عام کی سند ملی، جسے خوبصورت جسم والے ان کتوں میں شکار کی بھی زبردست صلاحیت نظر آئی تھی۔ چھوٹے مُنسٹر لینڈر (تصویر) کتوں کی افزائش کے سخت اور اعلیٰ معیارات کے باعث اس نسل کے کتے بہت کم دستیاب ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ چھوٹے مُنسٹر لینڈر کتوں کا بڑے مُنسٹر لینڈر کتوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
تصویر: Eva-Maria Krämer
وائیمارانر
سنہری جِلد، تیکھی آنکھیں اور انسان کے ساتھ گھُل مِل جانے والے، وائیمارانر نسل کے کتوں کی ہر ادا دلفریب سمجھی جاتی ہے۔ سب سے پہلے شہر وائیمار میں اس کتے کی افزائش کی گئی۔ اس کی منفرد بات یہ کہ اس شکاری کتے کو پالتو کتے کے طور پر بھی رکھا جا سکتا ہے۔ جرمنوں کو یہ کتے اتنے پسند تھے کہ ملک سے باہر بھیجتے وقت انہیں بانجھ کر دیا جاتا تھا تاکہ ان کی نسل آگے نہ بڑھے، گو اس نسل کو بڑھنے سے روکا نہ جا سکا۔
یہ اٹھارویں صدی کے اواخر کی بات ہے۔ جرمن شہر اپولڈا میں عدالت میں کلرک کے طور پر کام کرنے والے فریڈرش لوئس ڈوبرمان کو ٹیکس جمع کرنے والے افسر کے طور پر رات کو ڈیوٹی کی انجام دہی کے دوران حفاظت کے لیے ایک کتے کی ضرورت پڑی۔ چونکہ وہ مقامی مویشی خانے کا بھی انچارج تھا، اُس نے وائیمارانر، پِنشر اور پوائنٹر کتوں کی کراس بریڈنگ سے وہ پہریدار کتا پیدا کیا، جسے ہم آج ڈوبرمان پِنشر کے نام سے پکارتے ہیں۔
تصویر: Imago/alimdi
روٹ وائلر
کتوں کی یہ نسل قرونِ وُسطیٰ کے تاجروں کی وفادار ساتھی ہوا کرتی تھی۔ یہ کتے مویشیوں اور گوشت والی بیل گاڑیوں کی حفاظت کرتے تھے اور چوروں و جنگلی جانوروں سے بچاتے تھے۔ ان کتوں کی افزائش جرمنی کے ایک سابقہ تجارتی مرکز روٹ وائل میں ایسے کتوں کے طور پر کی گئی، جو ہر قیمت پر سامان کی حفاظت کرنے تھے۔ یہ دنیا میں کسی بھی دوسرے کتے کے مقابلے میں زیادہ طاقت (کاٹنے کا دباؤ 149 کلوگرام) کے ساتھ کاٹ سکتے ہیں۔
تصویر: Eva-Maria Krämer
جرمن شیپرڈ
1899ء میں ’جرمن شیپرڈز کے کلب کی بریڈ رجسٹری‘ میں ’ہورانڈ فان گرافاتھ‘ نام کے ایک کتے کا نام درج کیا گیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد انگریزوں نے اس کا نام ’السیشن‘ رکھ دیا۔ امریکیوں نے اس کے نام میں سے ’جرمن‘ کا لفظ سرے سے ہٹا دیا۔ آسٹریلیا میں عشروں تک ان پر پابندی رہی، اس خوف سے کہ کہیں اس کا جنگلی کتوں کی آسٹریلیوی نسل ’ڈِنگو‘ سے نہ ملاپ ہو جائے۔ نازی حکمران ہٹلر کے پاس ایسے چھ کتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images/P. Wegner
شناؤتسر
شناؤتسر اور پِنشر آپس میں اتنا قریبی تعلق رکھتے ہیں کہ کتوں کے حوالے سے بین الاقوامی نگران ادارے ایف سی آئی کی جانب سے انہیں ایک ہی گروپ گردانا جاتا ہے۔ جنوبی جرمنی میں شناؤتسر کتوں کو بنیادی طور پر مویشیوں کے باڑوں میں رکھا جاتا تھا اور یہ چوہوں کو پکڑا کرتے تھے۔ انہیں چوہوں کے نوکیلے دانتوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ان کے کان اور دُمیں کتر دی جاتی تھیں۔