ايک تازہ مطالعے کے نتائج سے يہ پتہ چلا ہے کہ روزگار کی منڈی ميں ملازمتيں پُر کرنے کے ليے جرمنی ميں آئندہ کئی برسوں کے ليے سالانہ بنيادوں پر 260,000 تارکين وطن کی ضرورت ہو گی۔
اشتہار
جرمن معيشت کو درکار افرادی قوت يورپی يونين کے رکن ممالک سے جرمنی پہنچنے والے تارکين وطن سے پوری نہيں ہو گی۔ جرمن اقتصاديات کو مجموعی طور پر سالانہ 260,000 تارکين وطن درکار ہيں، جن ميں سے يورپی يونين کے رکن ممالک سے ہونے والی ہجرت کے علاوہ بلاک کے باہر کے ملکوں سے بھی سالانہ 146,000 تارکين وطن درکار ہوں گے۔ يہ انکشاف جرمن ’بيرٹلسمين فاؤنڈيشن‘ کے ايک تازہ مطالعے ميں کيا گیا ہے، جس کے نتائج منگل بارہ فروری کو شائع ہوئے۔
جرمنی کو ’ايجنگ پاپوليشن‘ کے مسئلے کا سامنا ہے يعنی يہاں لوگوں کی اوسط عمر زيادہ ہے اور نتيجتاً کم عمر افراد کی تعداد کم ہے۔ اگر اميگريشن کے ذريعے مطلوبہ اہداف تک نہ پہنچا گيا يا تارکين وطن کی آمد نہ ہو سکی، تو سن 2060 تک جرمنی ميں ملازمت کرنے کے اہل افراد کی تعداد موجودہ تعداد کے مقابلے ميں ايک تہائی تک گھٹ کر صرف سولہ ملين رہ جائے گی۔ اس کے دنيا کی چوتھی سب سے بڑی معيشت کے حامل اس ملک پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہيں۔
’بيرٹلسمين فاؤنڈيشن‘ کے جائزے کے مطابق ايسی کسی ممکنہ صورتحال سے بچنے کے ليے سن 2060 تک سالانہ بنيادوں پر کُل 260,000 تارکين وطن درکار ہوں گے۔ توقع ہے کہ سالانہ 114,000 تارکين وطن يورپی يونين کے باہر کے ملکوں سے آئيں گے جبکہ چند داخلی وجوہات کی بناء پر يورپی بلاک کے رکن ممالک سے آنے والے تارکين وطن کے ليے جرمنی ميں کشش کم ہو جائے گی۔
'بيرٹلسمين فاؤنڈيشن‘ کے ايگزيکيٹو ڈائريکٹر يورگ ڈريگر نے بتايا کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سن 2017 ميں ملازمت کی غرض سے آنے والے صرف اڑتيس ہزار تارکين وطن نے مستقل بنيادوں پر جرمنی ميں رہائش اختيار کی۔ اس معالعے ميں جرمن حکومت کو تجويز دی گئی ہے کہ اميگريشن کے قوانين ميں اصلاحات متعارف کرائی جائيں تاکہ اعلٰی اور درميانے درجے کی پيشہ وارانہ صلاحيتوں کے حامل افراد کے ليے دروازے کھل سکيں۔ اس اسٹڈی ميں انضمام سے متعلق پروگراموں کی ضرورت پر بھی زور ديا گيا ہے۔
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔