جرمنی کو مساجد کے اندرون ملک تربیت یافتہ آئمہ کی تلاش
مقبول ملک سیدہ سردار، دیار عاقل / ع ت
5 اپریل 2019
جرمنی کو مذہبی حوالے سے مقامی مسلمانوں پر غیر ملکی اثر و رسوخ محدود کرنے کی خاطر مساجد کے لیے اندرون ملک تربیت یافتہ آئمہ کی تلاش ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا جرمنی میں آباد مسلم برادریاں بھی اس حکومتی سوچ کی حمایت کریں گی؟
اشتہار
تینتالیس سالہ امام مراد گل برلن کی اسلامی فیڈریشن کے صدر اور روزا پارکس نامی ایک مقامی پرائمری اسکول کے استاد بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’جب میں بہت چھوٹا تھا، میں تب سے قرآن سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ مراد گل جنوب مغربی جرمنی کے ایک چھوٹے سے شہر وائن ہائم میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے پہلے قرآنی تعلیم اپنے گھر میں اپنے والد سے حاصل کی، پھر ترکی چلے گئے اور وہاں ایک دینی تعلیمی ادارے میں تعلیم کے بعد اپنی اسلامیات کی تعلیم مصر میں مکمل کی۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں اسلام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کا شوق تھا لیکن انہوں نے کبھی یہ ارادہ نہیں کیا تھا کہ انہیں کسی مسجد کا امام بننا چاہیے۔
مراد گل نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’جب میں جرمنی لوٹا، تو میں طب کی تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا۔ لیکن پھر میں نے نوجوانوں کو منشیات استعمال کرتے ہوئے دیکھا۔ ایسے نوجوان جن کا اپنے مستقبل کے بارے میں تصور کوئی تھا ہی نہیں اور اگر تھا بھی تو قطعی غیر واضح۔ اس مشاہدے نے مجھے ان بچوں کی مدد کرنے کی ترغیب دی اور میں نے انہیں اسلامی تعلیم دینا شروع کر دی۔‘‘
مراد گل کا پختہ یقین ہے کہ جرمنی میں مسلمان برادریوں کی مذہبی اور سماجی ضروریات کو سمجھنے اور ان کی مدد کرنے کے لیے جرمن مساجد کے آئمہ کو جرمن زبان لازمی طور پر آنا چاہیے۔ اس کے علاوہ انہیں جرمن نظام تعلیم اور ثقافت کا بھی بخوبی علم ہونا چاہیے۔
آئمہ کی تعلیم
جرمنی میں قریب ساڑھے چار ملین مسلمان آباد ہیں۔ ان میں سے تقریباﹰ تین ملین نسلی طور پر ترک باشندے یا ترک نژاد جرمن مسلم شہری ہیں۔ جرمن مساجد میں امامت کرانے والی نوے فیصد مذہبی شخصیات بیرون ملک سے تعلیم یافتہ ہوتی ہیں۔ ان کی اکثریت ترکی سے جرمنی آئی ہے۔
جرمن حکومت کا خیال ہے کہ اب وقت آ چکا ہے کہ 45 لاکھ کے قریب مسلمانوں کو ملکی معاشرے میں اچھی طرح ضم کیا جائے اور ان پر بیرون ملک سے مذہبی اثر و رسوخ کو کم سے کم کر دیا جائے۔ اسی لیے سیاسی طور پر اس سوچ کی ترویج کی کوشش بھی کی جا رہی ہے: ’’جرمنی میں اسلام، جرمنی سے ہی اور جرمنی کے لیے۔‘‘ اس پیش قدمی کا مقصد ملک میں کافی تعداد میں ایسے آئمہ کی اسلامی تربیت کرنا ہے، جو ملکی مساجد میں اماموں کے فرائض انجام دے سکیں۔
آئمہ کی جرمنی میں ہی تربیت کا فائدہ کیا؟
جرمنی کے نائب وزیر داخلہ مارکوس کَیربر کہتے ہیں، ’’جب جرمنی ہی میں پیدا ہونے والے نوجوان مسلمان کسی مسجد میں جاتے ہیں اور امام سے اپنے لیے کوئی مشورہ یا رہنمائی طلب کرتے ہیں، تو اس بات کی افادیت سےانکار نہیں کیا جا سکتا کہ مذہبی امور میں کوئی بھی مشورہ دینے والا امام یہ کام اس وقت بہت اچھے طریقے سے کر سکتا ہے، جب وہ جرمن زبان، معاشرے اور طرز زندگی سے بھی اچھی طرح واقف ہو۔‘‘
مارکوس کَیربر، جو سرکاری طور پر جرمنی میں حکومت اور مقامی مسلم آبادی کے مابین تعلقات کے نگران اہلکار بھی ہیں، اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اس سوچ کا مقصد یہ نہیں کہ جرمنی میں اسلام کو ’جرمن رنگ‘ دے دیا جائے یا ’جرمنائز‘ کر دیا جائے۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ جرمنی میں بسنے والے مسلمان یہ محسوس کریں کہ وہ اپنے ہی گھر میں ہیں اور یہ بھی جانتے ہوں کہ ان کی موجودگی جرمن معاشرے کو اور بھی زیادہ متنوع اور امیر بنا دیتی ہے۔‘‘
جرمن زبان پر دسترس کا فقدان
برلن حکومت طویل عرصے سے اس کوشش میں ہے کہ جرمنی میں مسلمانوں کی مساجد کے آئمہ کی تربیت مقامی طور پر ہی کی جائے۔ لیکن ان ارادوں پر اب تک کوئی قابل ذکر عمل درآمد اس لیے نہیں ہو سکا کہ اکثر آئمہ کو جرمن زبان پر دسترس حاصل نہیں ہوتی۔ تاہم اب حکومت اس صورت حال میں تبدیلی کے لیے بھی کوششیں کر رہی ہے۔
جرمنی میں اب تک کئی شہروں میں مختلف یونیورسٹیوں یا اعلیٰ اداروں میں جرمن زبان میں اسلامیات کی دینی تعلیم کا باقاعدہ انتظام موجود ہے۔ ان شہروں میں میونسٹر، ٹیوبِنگن، اوسنابروک، فرینکفرٹ گِیسن اور ایرلانگن نیورمبرگ بھی شامل ہیں۔ ایسا ہی ایک نیا انسٹیٹیوٹ اسی سال برلن کی ہمبولٹ یونیورسٹی میں بھی کام کرنا شروع کر دے گا۔
عملی تربیت کی ضرورت بھی
اوسنابروک یونیورسٹی کے ادارہ برائے اسلامی علوم کے پروفیسر رؤف چیلان کہتے ہیں کہ جرمنی میں آئمہ کی مقامی طور پر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم کے بعد بھی ایسے مسلمان خود بخود ہی امام بننے کے قابل نہیں ہو جائیں گے۔ وہ کہتے ہیں، ’’انہیں عملی تعلیم و تربیت کی ضرورت بھی تو ہو گی۔ مثال کے طور پر قرآن کی درست تلاوت، نماز کیسی پڑھائی جائے، کسی میت کو غسل کیسے دیا جائے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے طالب علم اسلامی علوم کی نصابی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ہم انہیں ایسی کوئی عملی تربیت نہیں دے سکتے۔‘‘ پروفیسر چیلان کے مطابق اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ایک باقاعدہ اکیڈمی کی ضرورت ہے۔
جرمنی میں مساجد کے دروازے سب کے لیے کھل گئے
جرمنی میں قریب ایک ہزار مساجد کے دروازے تین اکتوبر کو تمام افراد کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔ یہی دن سابقہ مشرقی اور مغربی جرمن ریاستوں کے اتحاد کی سال گرہ کا دن بھی ہے۔
تصویر: Ditib
جرمن مساجد، جرمن اتحاد
جرمنی میں مساجد کے دوازے سب کے لیے کھول دینے کا دن سن 1997 سے منایا جا رہا ہے۔ یہ ٹھیک اس روز منایا جاتا ہے، جس روز جرمنی بھر میں یوم اتحاد کی چھٹی ہوتی ہے۔ اس دن کا تعین جان بوجھ کر مسلمانوں اور جرمن عوام کے درمیان ربط کی ایک علامت کے تناظر میں کیا گیا تھا۔ جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے مطابق آج کے دن قریب ایک لاکھ افراد مختلف مساجد کا دورہ کریں گے۔
تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture-alliance
مساجد سب کے لیے
آج کے دن مسلم برادری مساجد میں آنے والوں کو اسلام سے متعلق بتاتی ہے۔ مساجد کو کسی عبادت گاہ سے آگے کے کردار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، کیوں کہ یہ مسلم برادری کے میل ملاپ اور سماجی رابط کی جگہ بھی ہے۔
تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture-alliance
بندگی اور ضوابط
اسلام کو بہتر انداز سے سمجھنے کے لیے بندگی کے طریقے اور ضوابط بتائے جاتے ہیں۔ انہی ضوابط میں سے ایک یہ ہے کہ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے جوتے اتار دیے جائیں۔ یہ عمل صفائی اور پاکیزگی کا عکاس بھی ہے کیوں کہ نمازی نماز کے دوران اپنا ماتھا قالین پر ٹیکتے ہیں، اس لیے یہ جگہ ہر صورت میں صاف ہونا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
تعمیرات اور تاریخ
زیادہ تر مساجد میں آنے والے غیرمسلموں کو مسجد بھر کا دورہ کرایا جاتا ہے۔ اس تصویر میں کولون کے نواحی علاقے ہیُورتھ کی ایک مسجد ہے، جہاں آنے والے افراد مسلم طرز تعمیر کی تصاویر لے سکتے ہیں۔ اس طرح ان افراد کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جرمنی میں مسلمان کس طرح ملتے اور ایک برادری بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
روحانیت کو سمجھنے کی کوشش
ڈوئسبرگ کی یہ مرکزی مسجد سن 2008ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس مسجد کا رخ کرنے والوں کو نہ صرف مسجد کے مختلف حصے دکھائے جاتے ہیں، بلکہ یہاں آنے والے ظہر اور عصر کی نماز ادا کرنے والے افراد کو دوران عبادت دیکھ بھی سکتے ہیں۔ اس کے بعد مہمانوں کو چائے بھی پیش کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
عبادات کی وضاحت
مسلمانوں کے عبادت کے طریقہ کار کو متعارف کرانا تین اکتوبر کو منائے جانے والے اس دن کا ایک اور خاصا ہے۔ تاہم مسجد کا نماز کے لیے مخصوص حصہ یہاں آنے والے غیرمسلموں کے لیے نہیں ہوتا۔ اس تصویر میں یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Hanschke
تحفے میں تسبیح
اس بچے کے پاس ایک تسبیح ہے، جو اسے فرینکفرٹ کی ایک مسجد میں دی گئی۔ نمازی اس پر ورد کرتے ہیں۔ تسبیح کو اسلام میں مسبحہ بھی کہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
بین الثقافتی مکالمت
جرمن مساجد اپنے دروازے مختلف دیگر مواقع پر بھی کھولتی ہیں۔ مثال کے طور پر جرمن کیتھولک کنوینشن کی طرف سے کیتھولک راہبوں اور راہباؤں کو مساجد دکھائی جاتی ہیں۔ اس تصویر میں جرمن شہر من ہائم کی ایک مسجد میں یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے مواقع مسیحیت اور اسلام کے درمیان بہتر تعلقات کی راہ ہوار کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
غلط فہمیوں کا خاتمہ
ڈریسڈن شہر کی مساجد ثقافتی اقدار کی نمائش بھی کرتی ہیں۔ المصطفیٰ مسجد نے اس دن کے موقع پر منعقدہ تقریبات کی فہرست شائع کی ہے۔ ان میں اسلام، پیغمبر اسلام اور قرآن سے متعلق لیکچرز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ یہاں مسجد میں قالینوں پر بیٹھ کر مختلف موضوعات پر بات چیت بھی کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kahnert
9 تصاویر1 | 9
ایک مسئلہ مالی وسائل کی عدم دستیابی بھی ہے۔ اوسنابروک یونیورسٹی میں کافی سال پہلے ایسے طلبہ کی پیشہ ورانہ تربیت کا ایک تجرباتی منصوبہ بھی شروع کیا گیا تھا۔ لیکن گزشتہ برس یہ پائلٹ پروجیکٹ اس لیے بند کرنا پڑ گیا کہ آٹھ سال تک کام کرتے رہنے کے بعد اس کے لیے مختص کردہ رقوم ختم ہو گئی تھیں۔
غیر ملکی اثر و رسوخ
جرمنی میں جب مساجد اور آئمہ پر بیرون ملک سے اثر و رسوخ کی بات ہوتی ہے، تو جس ایک تنظیم کا سب سے زیادہ ذکر ہوتا ہے، وہ دیتِب (DITIB) یا ’مذہبی امور کی ترک اسلامی یونین‘ نامی تنظیم ہے۔ یہ تنظیم جرمنی میں ترک مسلمانوں کی 900 کے قریب مساجد کا ایک مجموعی انتظامی ادارہ ہے لیکن اس کے جتنے بھی آئمہ مساجد میں فرائض انجام دیتے ہیں، ان سب کی تربیت اور ان کے لیے مالی وسائل ترکی سے آتے ہیں۔
اس بارے میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی قدامت پسند سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو سے تعلق رکھنے والے وفاقی جرمن پارلیمان کے رکن کرسٹوف دے فریز کہتے ہیں، ’’مسئلہ یہ ہے کہ جب ’دیتِب‘ کی بات کی جاتی ہے، تو یہ کوئی مسلم مذہبی تنظیم نہیں رہ جاتی، بلکہ معاملہ ایک ایسی دوسری ریاست کا بن جاتا ہے، جو آئمہ کو جرمنی بھیجتی ہے۔‘‘
جرمنی کی سب سے بڑی مسجد، ثقافتوں کا امتزاج
کولون کی جامع مسجد جرمنی کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس مسجد کا کمپاؤنڈ شیشے اور کنکریٹ کا حسین امتزاج ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا تو اسے انضمام کی علامت قرار دیا گیا تاہم افتتاح کے وقت اسے تنازعات نے گھیر لیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Meissner
شگوفے کے مانند
اس مسجد کی کچھ دیواریں شیشے کی ہیں۔ بیرونی راستے سے سڑھیوں کی مدد سے مسجد کے کمپاؤنڈ کی تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کا ڈیزائن کھلے پن کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جہاں تمام مذاہب کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ اس مسجد کے دو مینار ہیں، جو پچپن بچپن میٹر بلند ہیں۔ مسجد کا گنبد شیشے کا ہے، جس میں کنکریٹ کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ دور سے یہ مسجد ایک کِھلتے ہوئے شگوفے کے مانند دکھائی دیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/R. Hackenberg
ثقافتوں کا امتزاج
یہ مسجد کولون کے ایہرنفلڈ ڈسٹرکٹ میں واقع ہے، جہاں ماضی میں متوسط طبقہ اکثریت میں رہتا تھا۔ جب 1970 کی دہائی میں اس علاقے میں واقع فیکٹریاں بند کر دی گئی تھیں تو وہاں بے روزگاری اور غربت کی شرح بڑھ گئی تھی۔ اس علاقے میں کم کرائیوں کی وجہ سے وہاں کئی گیلریز اور تھیٹرز بنائے گئے، جس کی وجہ سے اس علاقے کو ایک نئی شناخت ملی۔ اب بھی اس علاقے کی آبادی میں 35 فیصد تارکین وطن پس منطر کے افراد مقیم ہیں۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
شراکت داری اور چندے
اس مسجد کی تعمیر کی خاطر سینکڑوں مسلم انجمنوں نے چندہ دیا تھا۔ ساتھ ہی بینکوں سے قرضے بھی لیے گئے اور جرمنی میں ترک مذہبی اتھارٹی دیتپ DITIB نے بھی خطیر عطیات فراہم کیے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ایس یو) کی مخالفت کے باوجود کولون کی شہری انتظامہ نے سن دو ہزار آٹھ میں اس مسجد کی تعمیر کی اجازت دی تھی۔
تصویر: picture alliance / dpa
ترک حکام سے اختلافات، آرکیٹیکٹ علیحدہ
آرکیٹیکٹ پاؤل بوؤم چرچ کی عمارتوں کے ڈیزائن بنانے میں ملکہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہی سن دو ہزار پانچ میں اس مسجد کی تعمیر کا کنٹریکٹ جیتا تھا۔ وہ اس مسجد کی عمارت کو انضمام کی علامت کے طور پر متعارف کرانا چاہتے تھے۔ تاہم جرمنی میں فعال ترک تنظیم DITIB کی قیادت سے اختلافات کے باعث وہ سن دو ہزار گیارہ میں اس منصوبے سے الگ ہو گئے تھے۔
تصویر: AP
پہلی نماز اور افتتاح
جرمن شہر کولون کی اس جامع مسجد کو سن دو ہزار سترہ کے رمضان میں نمازیوں کے لیے کھولا گیا تھا۔ تاہم اس کا باقاعدہ افتتاح ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے انتیس ستمبر سن دو ہزار اٹھارہ میں کیا۔ یہ جرمنی کی سب سے بڑی مسجد ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
بارہ سو نمازیوں کی گنجائش
اس مسجد میں نماز ادا کرنے کی خاطر دو وسیع کمپاؤنڈز ہیں، ایک گراؤنڈ فلور پر اور دوسرا پہلی منزل پر۔ مجموعی طور پر بارہ سو نمازی ایک وقت میں نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس مسجد کی عمارت میں ایک کتب خانہ بھی بنایا گیا ہے۔ وہاں کچھ دکانیں اور کھیلوں کی سہولیات بھی موجود ہیں تاکہ اس مسجد میں جانے والے مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ روابط ممکن بنا سکیں۔
تصویر: Picture alliance/dpa/M. Becker
نئی سکائی لائن
جب اس مسجد کی تعمیر کا منصوبہ عوامی سطح پر پیش کیا گیا تھا تو کچھ حلقوں نے اس مسجد کی عمارت کے سائز پر تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا۔ بالخصوص مسجد کے میناروں کی اونچائی کے تناظر میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اس مسیحی شہر کے سکائی لائن میں تبدیلی بھی ہو سکتی ہے۔ تب کولون شہر کے آرچ پشپ کارڈینیل یوآخم میزنرنے تسلیم کیا تھا کہ اس منصوبے سے ’مضطربانہ احساس‘ پیدا ہوا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa/H.Kaiser
دائیں بازو کے انتہا پسندوں کا احتجاج
اس مسجد کے منصوبے پر جرمنی میں دائیں بازو کی حلقوں کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ کٹر نظریات کے حامل کچھ سیاستدانوں نے بھی عوامی جذبات کو ہوا دیتے ہوئے جرمنی میں مسلمانوں کے انضمام کے حوالے سے ایک نئی بحث شروع کر دی تھی۔ تب جرمن لکھاری رالف گیروڈنو نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ جرمنی میں مساجد کی تعمیر دراصل ملک میں ’آہستہ آہستہ بڑھتی ہوئی اسلامائزیشن کا اظہار‘ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
امام مسجد یا جاسوس؟
سن دو ہزار سترہ میں جرمن حکام نے ترک مذہبی ادارے DTIB کے آئمہ کے خلاف چھان بین کا عمل شروع کیا تھا۔ ان آئمہ کو ترک حکومت کی طرف سے تنخواہیں ملتی ہیں اور ان کی تربیت بھی ترکی ہی کرتا ہے۔ ساتھ ہی ان افراد کو بھی شامل تفتیش کر لیا گیا تھا، جو کولون کے اس کمپلیکس سے وابستہ تھے۔ الزام عائد کیا گیا تھا کہ یہ آئمہ انقرہ حکومت کے لیے جرمنی میں مقیم ترک باشندوں کی جاسوسی کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/M. Hitij
9 تصاویر1 | 9
جرمن نائب وزیر داخلہ کلاوس کَیربر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ برلن حکومت جرمن مساجد میں ترکی کے ریاستی اثر و رسوخ میں کمی کے لیے زیادہ واضح موقف اپنانے کا تہیہ کر چکی ہے۔ اس کے لیے ترکی میں مذہبی امور کے ریاستی ڈائریکٹوریٹ یا ’دیانت‘ نامی مقتدرہ کے ساتھ بات چیت بھی جاری ہے، کیونکہ ’دیانت‘ کا رابطہ براہ راست ’دیتِب‘ سے ہے۔
جرمن اسلام کانفرنس
جرمنی میں 2006ء سے وفاقی وزیر داخلہ کی میزبانی میں مسلمانوں کی تنظیموں کے نمائندوں کے ساتھ مل کر ایک ایسی کانفرنس کے اہتمام کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا تھا، جو ’جرمن اسلام کانفرنس‘ کہلاتی ہے۔ گزشتہ برس نومبر میں اس کانفرنس نے اپنے لیے یہ ہدف مقرر کیا تھا کہ جرمن مساجد میں جرمنی ہی میں تربیت یافتہ آئمہ کی تقرری کے لیے ان کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں درپیش مالی رکاوٹوں کو کسی طرح ختم کیا جانا چاہیے۔
اس سلسلے میں جرمنی میں مذہبی علوم کے اداروں اور جرمن مسلم برادریوں کے مابین مکالمت بھی جاری ہے۔ تاہم اس بارے میں کسی مشترکہ موقف تک پہنچنا ایک ایسی منزل ہے، جس کے لیے آج بھی ایک بہت طویل سفر درکار ہے۔
یورپ میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ممالک
امریکی ریسرچ سنٹر PEW کے مطابق یورپ میں مسلم آبادی بڑھ رہی ہے۔ اس وقت یورپ میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 4.9 فیصد ہے جبکہ 2050ء تک یہ 7.5 فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔ یورپ کے کن ممالک میں مسلمانوں کی کتنی تعداد آباد ہے؟