1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی کو وبا کے باعث سالانہ بجٹ میں 190 بلین یورو کا خسارہ

8 اپریل 2021

دنیا کی چوتھی اور یورپ کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت جرمنی کو گزشتہ برس بجٹ میں ہوش ربا خسارے کا سامنا رہا۔ اس خسارے کی مالیت تقریباﹰ ایک سو نوے بلین یورو رہی، جو جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے بعد سے آج تک کا سب سے بڑا خسارہ ہے۔

تصویر: picture-alliance/Zoonar/Wolfilser

کورونا وائرس کی عالمی وبا کے نتیجے میں دنیا کی دیگر بڑی اقتصادی طاقتوں کی طرح یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک جرمنی بھی اس وبا کے معاشی اثرات کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں ہے۔ تاہم اس دوران 2020ء میں اس ملک کو سالانہ بجٹ میں اتنے زیادہ خسارے کا سامنا رہا، جتنا تین عشرے قبل اتحاد جرمنی کے بعد سے آج تک کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔

وبا اور انسان دوستی، جرمنوں نے ساڑھے پانچ بلین یورو عطیہ کیے

مسلسل منافع کے بعد خسارہ

وفاقی دفتر شماریات کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جرمنی کے سالانہ بجٹ میں 2013ء سے ہر سال منافع کا رجحان ہی دیکھنے میں آ رہا تھا، مگر گزشتہ برس کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے باعث یہ رجحان اس حد تک الٹا ہو گیا کہ جرمن عوامی شعبے کے خسارے کی مالیت 189.2 بلین یورو (تقریباﹰ 225 بلین ڈالر) ہو گئی۔

اس مالیاتی 'یو ٹرن‘ کی وضاحت کرتے ہوئے وفاقی دفتر شماریات نے بتایا کہ کورونا کی وبا کے نتیجے میں لاک ڈاؤن کے دوران حکومت کو عوامی شعبے کی مالی مدد کے لیے غیر معمولی حد تک زیادہ وسائل استعمال کرنا پڑے۔

کروڑوں یورو مالیت کی دو پینٹنگز چرانے والا مشتبہ چور گرفتار

اٹلی: جرائم پیشہ گروہ یورپی ریکوری فنڈز تک رسائی کی کوشش میں

اس کے علاوہ حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں ہونے والی آمدنی بھی اتنی کم رہی، جتنی 1990ء میں منقسم جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے بعد گزشتہ تین دہائیوں میں کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔

مجموعی حکومتی اخراجات 1.7 ٹریلین یورو

کورونا وائرس کی وبا اب تک جرمن معیشت کے لیے کس حد تک نقصان دہ رہی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 2020ء میں تقریباﹰ 190 بلین یورو کے خسارے کے مقابلے میں اس سے ایک سال قبل 2019ء میں جرمن بجٹ میں منافع کی مالیت 45.2 بلین یورو رہی تھی۔

کوورونا وبا میں بچوں کا آن لائن استحصال بڑھا ہے، یورو پول

پچھلے سال برلن حکومت نے سرکاری اخراجات میں 12.1 فیصد کے اضافے کے ساتھ مجموعی طور پر 1.7 ٹریلین یورو خرچ کیے۔ سرکاری ڈیٹا کے مطابق اس ریکارڈ خسارے کی ایک بڑی وجہ وہ ہنگامی امدادی رقوم بھی تھیں، جو گزشتہ برس وفاقی حکومت نے تمام سولہ صوبائی حکومتوں کو وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے ادا کیں۔ ان رقوم کی مالیت 17.8 بلین یورو تھی۔

صحت عامہ کے شعبے کے لیے بھی 13 بلین یورو

کووڈ انیس کی وبا کے خلاف جنگ میں برلن حکومت کو پچھلے سال اضافی طور پر جو بہت زیادہ رقوم خرچ کرنا پڑیں، ان میں وہ 13 بلین یورو بھی شامل تھے، جو وفاقی حکومت نے صحت عامہ اور ہیلتھ انشورنس کمپنیوں سے متعلق فنڈ میں ادا کیے۔

یورو زون کی سالانہ قومی پیداوار شدید گراوٹ کی شکار

دوسری طرف حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں ہونے والی آمدنی 2019ء کے مقابلے میں 2020ء میں 3.5 فیصد کی کمی کے ساتھ تقریباﹰ 1.5 ٹریلین یورو رہ گئی تھی۔ جرمن حکومت کو سب سے زیادہ سالانہ آمدنی ٹیکسوں کی مد میں ہی ہوتی ہے۔

کورونا کی وبا کی تیسری لہر

جرمنی کو اس وقت کورونا وائرس کی وبا کی تیسری لہر کا سامنا ہے اور گزشتہ برس مجموعی طور پر کئی مہینے مکمل لاک ڈاؤن کے بعد معمول کی اقتصادی کارکردگی ابھی تک بحال نہیں ہوئی۔

کورونا: کمزور ملکوں کی مالی امداد میں اضافہ، جرمن پارلیمان میں زیرغور

معیشت دوبارہ چلانے کے لیے جرمن چانسلر پُرعزم

ملک میں تمام تفریحی مراکز، بارز، ریستوراں او سینما گھر گزشتہ نومبر سے بند ہیں، جن کو ممکنہ طور پر دوبارہ کھولنے کے بارے میں وفاق اور صوبوں کا اگلا فیصلہ آئندہ دنوں میں متوقع ہے۔ چانسلر انگیلا میرکل تاہم یہ اشارہ دے چکی ہیں کہ وہ جرمنی میں اس وبا کی تیسری لہر کی شدت میں کمی کے لیے پورے ملک میں مختصر مدت کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کی حمایت کریں گی۔

جرمن وزیر خزانہ کی واضح سوچ

وفاقی جرمن وزیر خزانہ اولاف شولس نے حال ہی میں واضح کر دیا تھا کہ غیر معمولی حکومتی اخراجات کا سلسلہ اس سال بھی جاری رہے گا اور کورونا کی وبا کے باعث اقتصادی کارکردگی میں تنزلی سے نکلنے کے لیے حکومت کو پبلک سیکٹر کو آئندہ بھی مالی سہارا دیتے رہنا ہو گا۔

کورونا وائرس کی وبا کے خلاف یورپی بینک کا منصوبہ

جرمنی کو گ‍زشتہ برس جتنا بجٹ خسارہ ہوا، اس کی مالیت پاکستانی روپے اور یورو کی موجودہ اوسط شرح تبادلہ کے پیش نظر پاکستان کے سال 2020 اور 2021 کے سالانہ بجٹ کی کُل مالیت کا تقریباﹰ پانچ گنا بنتی ہے۔

م م / ک م (ڈی پی اے، اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں