جرمنی کو وبا کے باعث سالانہ بجٹ میں 190 بلین یورو کا خسارہ
8 اپریل 2021
دنیا کی چوتھی اور یورپ کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت جرمنی کو گزشتہ برس بجٹ میں ہوش ربا خسارے کا سامنا رہا۔ اس خسارے کی مالیت تقریباﹰ ایک سو نوے بلین یورو رہی، جو جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے بعد سے آج تک کا سب سے بڑا خسارہ ہے۔
اشتہار
کورونا وائرس کی عالمی وبا کے نتیجے میں دنیا کی دیگر بڑی اقتصادی طاقتوں کی طرح یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک جرمنی بھی اس وبا کے معاشی اثرات کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں ہے۔ تاہم اس دوران 2020ء میں اس ملک کو سالانہ بجٹ میں اتنے زیادہ خسارے کا سامنا رہا، جتنا تین عشرے قبل اتحاد جرمنی کے بعد سے آج تک کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔
وفاقی دفتر شماریات کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جرمنی کے سالانہ بجٹ میں 2013ء سے ہر سال منافع کا رجحان ہی دیکھنے میں آ رہا تھا، مگر گزشتہ برس کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے باعث یہ رجحان اس حد تک الٹا ہو گیا کہ جرمن عوامی شعبے کے خسارے کی مالیت 189.2 بلین یورو (تقریباﹰ 225 بلین ڈالر) ہو گئی۔
اس مالیاتی 'یو ٹرن‘ کی وضاحت کرتے ہوئے وفاقی دفتر شماریات نے بتایا کہ کورونا کی وبا کے نتیجے میں لاک ڈاؤن کے دوران حکومت کو عوامی شعبے کی مالی مدد کے لیے غیر معمولی حد تک زیادہ وسائل استعمال کرنا پڑے۔
امریکی ڈالر کی چھپائی کا نگران ادارہ بیورو آف اینگریونگ اور پرنٹنگ ہے۔ یہ امریکی حکومتی ادارہ گزشتہ ڈیڑھ سو برسوں سے ملکی کرنسی ڈالر چھاپنے کا ذمہ دار ہے۔
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
دولت کی فیکٹری
بیورو آف اینگریونگ اور پرنٹنگ (BEP) امریکا میں ڈالر کی چھپائی کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس کے مرکزی دفتر کا سامنے والا حصہ پرانی وضع کے کسی قلعے جیسا ہے۔
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
ڈالر کلاک
ڈالر کی چھپائی کے کمرے کو دیکھنے کے لیے سالانہ بنیاد پر دس لاکھ افرد آتے ہیں۔ ان افراد کو خصوصی نگرانی میں اس کمرے سے گزارا جاتا ہے۔ اس عمارت میں ایک بڑی جسامت کا گھڑیال بھی نصب ہے۔ اس کے ہندسے بھی ڈالر نوٹ سے بنائے گئے ہیں۔
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
سبز رنگ اور ڈالر
امریکی ڈالر کی سکیورٹی کا سب سے اہم پہلو سبز رنگ ہے۔ اس رنگ کی تیاری انتہائی سخت سکیورٹی میں کی جاتی ہے۔ یہ طریقہٴ کار کُلی طور پر اِس امریکی ادارے کے کنٹرول میں ہے۔ اس ادارے کے ملازم ایڈ میجا ایک ایسے شخص ہیں، جو اس سبز رنگ بنانے کے ماہر ہیں۔ یہ نوٹ پر ابھری ہوئی چھپائی کے نگران بھی ہیں۔ اُن کے زیر کنٹرول مشین ایک گھنٹے میں امریکی ڈالر والی دس ہزار شیٹس پرنٹ کرتی ہے۔
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
ڈالر چھپائی کی نگرانی
امریکی ڈالر کی طباعت کے ماہر انسپیکٹر ہمہ وقت نگرانی کرتے ہیں۔ ایک امریکی ڈالر کو طباعت کے بعد تین دن خشک ہونے کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ چھپائی کے بعد انہیں ایک انتہائی محفوظ گودام میں رکھا جاتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر 560 ملین نوٹ چھاپے جاتے ہیں۔ ایک ڈالر کی چھپائی کا خرچہ 3.6 سینٹ ہے۔
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
ڈالر کی چھپائی اور چار آنکھوں کا اصول
ایک ڈالر کی چھپائی کو معیاری قرار دینے کے لیے سخت اصول وضع کیے گئے ہیں۔ ہر سکیورٹی علاقے میں کوئی بھی شخص اکیلے کام نہیں کرتا۔ بیورو آف اینگریونگ اور پرنٹنگ کے ایک ملازم کی سالانہ اوسط تنخواہ ترانوے ہزار ڈالر ہے۔ یہ اوسط امریکی تنخواہ سے دوگنا ہے۔
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
نوٹ پر نمبر کا اندراج
امریکی ڈالر کی چھپائی کا آخری مرحلہ اُس پر سیریل نمبر پرنٹ کرنا ہوتا ہے۔ یہ نمبر ڈالنے والی مشین ہاتھ سے استعمال کی جاتی ہے۔
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
امریکی ڈالر کے ڈبے
امریکی ڈالر کو گنتی کئی مرحلوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ آخری گنتی کے بعد دس بنڈل کو انتہائی سخت پلاسٹک کے اندر رکھا کر محفوظ کیا جاتا ہے۔ ان کو ایک ٹرالی پر رکھ کر منتقل کرنا بھی بیورو آف اینگریونگ اور پرنٹنگ کے ملازم کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ امریکا کے مرکزی بینک کو نئے چھپے ہوئے ڈالر کی حتمی ترسیل تک اُس کا سیریل نمبر خفیہ رکھا جاتا ہے۔
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
سکیورٹی پر کوئی سمجھوتا نہیں
بیورو آف اینگریونگ اور پرنٹنگ کا سکیورٹی عملہ دو ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ یہ اس چھپائی مرکز کے مختلف مقامات پر ہمہ وقت نگرانی کی جاتی ہے۔ ساری عمارت کی سکیورٹی انسانوں کے علاوہ خصوصی نظام سے بھی کی جاتی ہے اور اس کو روکنے یا سارے دفتر کو تالہ بند کرنے کے لیے صرف ایک سرخ بٹن کو دبانا درکار ہوتا ہے۔
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
عملے کے افراد بھی ہنسی مزاح کرتے ہیں
بیورو آف اینگریونگ اور پرنٹنگ کے عملے کے افراد جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہونے کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مزاح بھی کرتے رہتے ہیں۔ ڈوئچے ویلے کے آنیا اسٹائن بوخ اور مشیل ماریک نے اس ادرے کا دورہ کیا تھا۔
اس کے علاوہ حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں ہونے والی آمدنی بھی اتنی کم رہی، جتنی 1990ء میں منقسم جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے بعد گزشتہ تین دہائیوں میں کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔
مجموعی حکومتی اخراجات 1.7 ٹریلین یورو
کورونا وائرس کی وبا اب تک جرمن معیشت کے لیے کس حد تک نقصان دہ رہی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 2020ء میں تقریباﹰ 190 بلین یورو کے خسارے کے مقابلے میں اس سے ایک سال قبل 2019ء میں جرمن بجٹ میں منافع کی مالیت 45.2 بلین یورو رہی تھی۔
پچھلے سال برلن حکومت نے سرکاری اخراجات میں 12.1 فیصد کے اضافے کے ساتھ مجموعی طور پر 1.7 ٹریلین یورو خرچ کیے۔ سرکاری ڈیٹا کے مطابق اس ریکارڈ خسارے کی ایک بڑی وجہ وہ ہنگامی امدادی رقوم بھی تھیں، جو گزشتہ برس وفاقی حکومت نے تمام سولہ صوبائی حکومتوں کو وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے ادا کیں۔ ان رقوم کی مالیت 17.8 بلین یورو تھی۔
جرمن برآمدات کے سُپر سٹار شعبے
آج کل جرمنی ایک ہزار ارب یورو سے زیادہ مالیت کی مصنوعات دنیا کو برآمد کر رہا ہے۔ اس پکچر گیلری میں ہم آپ کو جرمنی کے دَس کامیاب ترین برآمدی شعبوں سے متعارف کروا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Wagner
ہنگامہ خیز ... لیکن ٹاپ ٹین کی منزل سے ابھی دُور
ایک زبردست منظر: ایک زرعی فارم کے بالکل قریب سے گزرتا ایک کئی منزلہ بحری جہاز، جو کل کلاں کئی ہزار سیاحوں کو لے کر دُنیا کے وسیع و عریض سمندروں پر محوِ سفر ہو گا۔ جرمن شہر پاپن برگ میں تیار کردہ اس جہاز کو دریائے ایمز کے راستے بحیرہٴ شمالی میں لے جایا جا رہا ہے۔ صوبے لوئر سیکسنی کے اس بڑے کاروبار کی جرمن برآمدات کی ٹاپ ٹین کی فہرست میں شمولیت کی منزل لیکن ابھی کافی دُور ہے۔
تصویر: AP
غیر مقبول برآمدی مصنوعات
رائفلز ہوں، آبدوزیں یا پھر لیپرڈ نامی ٹینک، دُنیا بھر میں ’میڈ اِن جرمنی‘ ہتھیاروں کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ امن پسند جرمن معاشرے کے لیے یہ کامیابی کسی حد تک تکلیف دہ بھی ہے۔ ویسے یہ کامیابی اتنی بڑی بھی نہیں کیونکہ جرمنی کے اصل برآمدی سٹار (ٹاپ ٹین فہرست میں نمبر نو اور دَس) بحری جہاز اور ٹینک نہیں بلکہ انسانوں اور جانوروں کی اَشیائے خوراک یا پھر ربڑ اور پلاسٹک سے بنی مصنوعات ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Steffen
دھاتیں
جرمن محکمہٴ شماریات نے ابھی ابھی اپنے جو سالانہ اعداد و شمار جاری کیے ہیں، اُن میں گزشتہ سال کی سُپر سٹار جرمن برآمدی مصنوعات میں ساتویں نمبر پر ’دھاتیں‘ ہیں مثلاً المونیم، جس کا ایک استعمال یہ بھی ہے کہ اس کی مدد سے چاکلیٹ کو تازہ رکھا جاتا ہے۔ 2015ء میں جرمنی نے تقریباً پچاس ارب یورو مالیت کی دھاتیں برآمد کیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Junos
دیگر قسم کی گاڑیاں
جرمنی میں کاروں کے ساتھ ساتھ اور کئی قسم کی گاڑیاں بھی تیار کی جاتی ہیں مثلاً وہ گاڑیاں، جو کوڑا اُٹھانے کے کام آتی ہیں لیکن اسی صف میں ٹرکوں، بسوں اور اُن تمام گاڑیوں کا بھی شمار ہوتا ہے، جو کاریں نہیں ہیں لیکن جن کے چار پہیے ہوتے ہیں۔ 2015ء میں جرمنی کی بارہ سو ارب یورو کی مجموعی برآمدات میں سے ان مخصوص قسم کی گاڑیوں کا حصہ ستاون ارب یورو رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Wolf
ادویات
جرمنی کی دوا ساز صنعت کی ساکھ پوری دُنیا میں بہت اچھی ہے۔ آج بھی اس صنعت کے لیے وہ بہت سی ایجادات سُود مند ثابت ہو رہی ہیں، جو تقریباً ایک سو سال پہلے ہوئی تھیں۔ اگرچہ بہت سی ادویات کے پیٹنٹ حقوق کی مدت ختم ہو چکی ہے تاہم جرمن ادارے اُنہیں بدستور بھاری مقدار میں تیار کر رہے ہیں۔ ان ادویات کی مَد میں جرمنی کو سالانہ تقریباً ستّر ارب یورو کی آمدنی ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Endig
برقی مصنوعات
بجلی کام کی چیز بھی ہے لیکن خطرناک بھی ہے۔ کم وولٹیج کے ساتھ رابطے میں آنا پریشانی کا باعث بنتا ہے لیکن زیادہ وولٹیج والی تاروں سے چھُو جانا موت کا بھی باعث بن سکتا ہے۔ برقی مصنوعات بنانا مہارت کا کام ہے اور اس حوالے سے جرمن اداروں کی شہرت بہت اچھی ہے۔ 2015ء میں برقی مصنوعات تیار کرنے والے جرمن اداروں کا مجموعی برآمدات میں حصہ چھ فیصد رہا۔
تصویر: picture alliance/J.W.Alker
ڈیٹا پروسیسنگ آلات اور آپٹک مصنوعات
تقریباً ایک سو ارب یورو کے ساتھ جرمن کے اس برآمدی شعبے کا مجموعی برآمدات میں حصہ آٹھ فیصد سے زیادہ رہا۔ بہت سے جرمن ادارے گزشتہ کئی نسلوں کے تجربے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہائی اعلیٰ معیار کی حامل تکنیکی اور سائنسی مصنوعات تیار کر رہے ہیں، مثلاً ژَین آپٹک لمیٹڈ نامی کمپنی کا تیار کردہ یہ لیزر ڈائی اوڈ۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Kasper
کیمیائی مصنوعات
جرمنی کے بڑے کیمیائی ادارے ادویات ہی نہیں بنا رہے بلکہ وہ مختلف طرح سے استعمال ہونے والی گیسیں اور مائعات بھی تیار کرتے ہیں۔ یہ شعبہ سالانہ ایک سو ارب یورو سے زیادہ کے کیمیکلز برآمد کرتا ہے۔ بائر اور بی اے ایس ایف جیسے اداروں کا جرمن برآمدات میں حصہ تقریباً دَس فیصد بنتا ہے اور جرمنی کی برآمدات کی ٹاپ ٹین کی فہرست میں اس شعبے کا نمبر تیسرا ہے۔
تصویر: Bayer AG
مشینیں
جرمنی: انجینئروں کی سرزمین۔ یہ بات ویسے تو کہنے کو کہہ دی جاتی ہے لیکن اس میں کچھ حقیقت بھی ہے۔ جرمنی کی برآمدات میں مشینیں دوسرے نمبر پر ہیں۔ 2015ء میں جرمنی نے مجموعی طور پر 169 ارب یورو کی مشینیں برآمد کیں۔ اس شعبے کی کامیابی کا انحصار عالمی معاشی حالات پر ہوتا ہے۔ عالمی معیشت بحران کا شکار ہو تو جرمن مشینوں کی مانگ بھی کم ہو جاتی ہے۔
... جی ہاں، کاریں۔ جرمنی کا کوئی اور شعبہ برآمدات سے اتنا نہیں کماتا، جتنا کہ اس ملک کا موٹر گاڑیاں تیار کرنے والا شعبہ۔ جرمن محکمہٴ شماریات کےتازہ سالانہ اعداد و شمار کے مطابق فوکس ویگن، بی ایم ڈبلیو، پورشے اور ڈائملر جیسے اداروں کی بنائی ہوئی کاروں اور فاضل پُرزہ جات سے جرمنی کو 226 ارب یورو کی سالانہ آمدنی ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Wagner
10 تصاویر1 | 10
صحت عامہ کے شعبے کے لیے بھی 13 بلین یورو
کووڈ انیس کی وبا کے خلاف جنگ میں برلن حکومت کو پچھلے سال اضافی طور پر جو بہت زیادہ رقوم خرچ کرنا پڑیں، ان میں وہ 13 بلین یورو بھی شامل تھے، جو وفاقی حکومت نے صحت عامہ اور ہیلتھ انشورنس کمپنیوں سے متعلق فنڈ میں ادا کیے۔
دوسری طرف حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں ہونے والی آمدنی 2019ء کے مقابلے میں 2020ء میں 3.5 فیصد کی کمی کے ساتھ تقریباﹰ 1.5 ٹریلین یورو رہ گئی تھی۔ جرمن حکومت کو سب سے زیادہ سالانہ آمدنی ٹیکسوں کی مد میں ہی ہوتی ہے۔
کورونا کی وبا کی تیسری لہر
جرمنی کو اس وقت کورونا وائرس کی وبا کی تیسری لہر کا سامنا ہے اور گزشتہ برس مجموعی طور پر کئی مہینے مکمل لاک ڈاؤن کے بعد معمول کی اقتصادی کارکردگی ابھی تک بحال نہیں ہوئی۔
2019 میں بیرون ملک آباد شہریوں کی وطن بھیجی گئی رقوم
پاکستان سمیت کئی ترقی پذیر ممالک کی معیشت میں بیرونی ممالک سے رقوم کی ترسیل کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ اس برس کے پہلے دس ماہ میں بیرون ملک آباد شہریوں نے 700 بلین ڈالر سے زائد رقوم اپنے وطنوں میں بھیجیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Gulfam
1۔ بھارت
اس برس بھی پہلے نمبر پر بھارت رہا۔ اس برس 82 بلین ڈالر کی رقوم دیگر ممالک سے بھارت منتقل کی گئیں۔ یہ رقم بھارتی مجموعی قومی پیداوار کا 2.8 فیصد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee
2۔ چین
چین میں بیرونی ممالک سے اس برس کے پہلے دس ماہ میں 70.2 بلین ڈالر بھیجے گئے۔ اس برس بھی دیگر ممالک میں مقیم چینی شہریوں کی جانب سے وطن بھیجی گئی رقوم براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری سے زیادہ رہیں۔ یہ رقم چینی جی ڈی پی کا 0.5 فیصد ہے۔
تصویر: Imago/PPE
3۔ میکسیکو
بیرون ممالک میں مقیم میکسیکو کے شہریوں نے اس برس اب تک 38.7 بلین ڈالر وطن واپس بھیجے۔ ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ پورے برس کے دوران بیرون ملک آباد میکسیکو کے شہریوں نے 35.6 بلین ڈالر وطن بھیجے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Cortez
4۔ فلپائن
چوتھے نمبر پر فلپائن ہے، جہاں اس برس کے پہلے دس ماہ کے دوران دیگر ممالک میں مقیم فلپائنی شہریوں نے 35 بلین ڈالر بھیجے۔ یہ رقم فلپائن کی مجموعی قومی پیداوار کے 9.8 فیصد کے برابر بنتی ہے۔
تصویر: Holger Ernst
5۔ مصر
غیر ممالک میں آباد شہریوں کی وطن بھیجی گئی رقوم کے اعتبار سے مصر اس برس بھی پانچویں نمبر پر ہے۔ اس برس کی پہلی تین سہ ماہیوں کے دوران مصر کے تارکین وطن شہریوں نے 26.4 بلین ڈالر واپس اپنے وطن بھیجے۔ یہ رقم مصری جی ڈی پی کا قریب 9 فیصد بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
6۔ نائجیریا
چھٹے نمبر پر افریقی ملک نائجیریا ہے، جہاں اس برس کے اعداد و شمار کے مطابق 25.4 بلین ڈالر بھیجے گئے، جن میں سے زیادہ تر نائجیرین تارکین وطن نے بھیجے۔ بیرون ممالک سے بھیجی گئی یہ رقوم ملکی جی ڈی پی کا 5.7 فیصد بنتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. U. Ekpei
7۔ فرانس
یورپی ملک فرانس ساتویں نمبر پر ہے جس کے دیگر ممالک میں آباد تارکین وطن نے اس برس کے پہلے دس ماہ کے دوران 25.2 بلین ڈالر وطن بھیجے۔ بیرون ممالک آباد شہریوں کی بھیجی گئی یہ رقوم فرانسیسی جی ڈی پی کا 0.9 فیصد بنتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Fabi
8۔ پاکستان
پاکستان کو اس برس دیگر ممالک سے 21.9 بلین ڈالر موصول ہوئے جب کہ سن 2018 کے پورے برس کے دوران پاکستانی تارکین وطن نے 21 بلین ڈالر پاکستان بھیجے تھے۔ اس برس اب تک بھیجی گئی رقوم پاکستانی جی ڈی پی کا 7.9 فیصد بنتی ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق گزشتہ برس سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں سے پاکستان بھیجی جانے والی رقوم میں گزشتہ برس کے مقابلے میں چھبیس فیصد کی کمی ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Gulfam
9۔ بنگلہ دیش
بنگلہ دیشی تارکین وطن نے اس برس کے پہلے دس ماہ میں 17.5 بلین ڈالر وطن بھیجے۔ سن 2018 کے دوران 15.6 بلین ڈالر بھیجے گئے تھے۔
تصویر: DW
10۔ جرمنی
اس برس دسویں نمبر پر جرمنی ہے۔ دیگر ممالک میں بسنے والے جرمن شہریوں نے 16.8 بلین ڈالر جرمنی بھیجے جو ملکی جی ڈی پی کے 0.4 فیصد کے برابر ہے۔
ملک میں تمام تفریحی مراکز، بارز، ریستوراں او سینما گھر گزشتہ نومبر سے بند ہیں، جن کو ممکنہ طور پر دوبارہ کھولنے کے بارے میں وفاق اور صوبوں کا اگلا فیصلہ آئندہ دنوں میں متوقع ہے۔ چانسلر انگیلا میرکل تاہم یہ اشارہ دے چکی ہیں کہ وہ جرمنی میں اس وبا کی تیسری لہر کی شدت میں کمی کے لیے پورے ملک میں مختصر مدت کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کی حمایت کریں گی۔
اشتہار
جرمن وزیر خزانہ کی واضح سوچ
وفاقی جرمن وزیر خزانہ اولاف شولس نے حال ہی میں واضح کر دیا تھا کہ غیر معمولی حکومتی اخراجات کا سلسلہ اس سال بھی جاری رہے گا اور کورونا کی وبا کے باعث اقتصادی کارکردگی میں تنزلی سے نکلنے کے لیے حکومت کو پبلک سیکٹر کو آئندہ بھی مالی سہارا دیتے رہنا ہو گا۔
جرمنی کو گزشتہ برس جتنا بجٹ خسارہ ہوا، اس کی مالیت پاکستانی روپے اور یورو کی موجودہ اوسط شرح تبادلہ کے پیش نظر پاکستان کے سال 2020 اور 2021 کے سالانہ بجٹ کی کُل مالیت کا تقریباﹰ پانچ گنا بنتی ہے۔
م م / ک م (ڈی پی اے، اے ایف پی)
کپاس سے کرنسی نوٹ تک: یورو کیسے بنایا جاتا ہے؟
ای سی بی نے پچاس یورو کے ایک نئے نوٹ کی رونمائی کی ہے۔ پرانا نوٹ سب سے زیادہ نقل کیا جانے والا نوٹ تھا۔ ڈی ڈبلیو کی اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ یورو کرنسی نوٹ کس طرح چھپتے ہیں اور انہیں کس طرح نقالوں سے بچایا جاتا ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
ملائم کپاس سے ’ہارڈ کیش‘ تک
یورو کے بینک نوٹ کی تیاری میں کپاس بنیادی مواد ہوتا ہے۔ یہ روایتی کاغذ کی نسبت نوٹ کی مضبوطی میں بہتر کردار ادا کرتا ہے۔ اگر کپاس سے بنا نوٹ غلطی سے لانڈری مشین میں چلا جائے تو یہ کاغذ سے بنے نوٹ کے مقابلے میں دیر پا ثابت ہوتا ہے۔
تصویر: tobias kromke/Fotolia
خفیہ طریقہ کار
کپاس کی چھوٹی چھوٹی دھجیوں کو دھویا جاتا ہے، انہیں بلیچ کیا جاتا ہے اور انہیں ایک گولے کی شکل دی جاتی ہے۔ اس عمل میں جو فارمولا استعمال ہوتا ہے اسے خفیہ رکھا جاتا ہے۔ ایک مشین پھر اس گولے کو کاغذ کی لمبی پٹیوں میں تبدیل کرتی ہے۔ اس عمل تک جلد تیار ہو جانے والے نوٹوں کے سکیورٹی فیچرز، جیسا کہ واٹر مارک اور سکیورٹی تھریڈ، کو شامل کر لیا جاتا ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
نوٹ نقل کرنے والوں کو مشکل میں ڈالنا
یورو بینک نوٹ تیار کرنے والے اس عمل کے دوران دس ایسے طریقے استعمال کرتے ہیں جو کہ نوٹ نقل کرنے والوں کے کام کو خاصا مشکل بنا دیتے ہیں۔ ایک طریقہ فوئل کا اطلاق ہے، جسے جرمنی میں نجی پرنرٹز گائسیکے اور ڈیفریئنٹ نوٹ پر چسپاں کرتے ہیں۔
تصویر: Giesecke & Devrient
نقلی نوٹ پھر بھی گردش میں
پرنٹنگ کے کئی پیچیدہ مراحل کے باوجود نقال ہزاروں کی تعداد میں نوٹ پھر بھی چھاپ لیتے ہیں۔ گزشتہ برس سن دو ہزار دو کے بعد سب سے زیادہ نقلی نوٹ پکڑے گئے تھے۔ یورپی سینٹرل بینک کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں نو لاکھ جعلی یورو نوٹ گردش کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
ایک فن کار (جس کا فن آپ کی جیب میں ہوتا ہے)
رائن ہولڈ گیرسٹیٹر یورو بینک نوٹوں کو ڈیزائن کرنے کے ذمے دار ہیں۔ جرمنی کی سابقہ کرنسی ڈوئچے مارک کے ڈیزائن کے دل دادہ اس فن کار کے کام سے واقف ہیں۔ نوٹ کی قدر کے حساب سے اس پر یورپی تاریخ کا ایک منظر پیش کیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
ہر نوٹ دوسرے سے مختلف
ہر نوٹ پر ایک خاص نمبر چھاپا جاتا ہے۔ یہ نمبر عکاسی کرتا ہے کہ کن درجن بھر ’ہائی سکیورٹی‘ پرنٹرز کے ہاں اس نوٹ کو چھاپا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ نوٹ یورو زون کے ممالک کو ایک خاص تعداد میں روانہ کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Giesecke & Devrient
پانح سو یورو کے نوٹ کی قیمت
ایک بینک نوٹ پر سات سے سولہ سینٹ تک لاگت آتی ہے۔ چوں کہ زیادہ قدر کے نوٹ سائز میں بڑے ہوتے ہیں، اس لیے اس حساب سے ان پر لاگت زیادہ آتی ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
آنے والے نئے نوٹ
سن دو ہزار تیرہ میں پانچ یورو کے نئے نوٹ سب سے زیادہ محفوظ قرار پائے تھے۔ اس کے بعد سن دو ہزار پندرہ میں دس یورو کے نئے نوٹوں کا اجراء کیا گیا۔ پچاس یورو کے نئے نوٹ اگلے برس گردش میں آ جائیں گے اور سو اور دو یورو کے نوٹ سن دو ہزار اٹھارہ تک۔ پانچ سو یورو کے نئے نوٹوں کو سن دو ہزار انیس تک مارکیٹ میں لایا جا سکتا ہے۔