اس دھماکے کی آواز اس قدر شدید تھی کہ مقامی رہائشی نیند سے بیدار ہو گئے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ ان کے علاقے میں کوئی شہاب ثاقب آ کر گرا ہے لیکن جرمن حکام ایک دوسرے نتیجے پر پہنچے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
اشتہار
مقامی میڈیا کے مطابق جرمنی کے مغربی علاقے لمبورگ میں نصف رات کو ہونے والے اس دھماکے کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ ایک اعشاریہ سات شدت کا معمولی زلزلہ بھی ریکارڈ کیا گیا۔ اس دھماکے کے نتیجے میں کوئی شخص زخمی نہیں ہوا لیکن دھماکے کی جگہ پر تینتیس فٹ چوڑا اور بارہ فٹ گہرا گھڑا پڑ گیا ہے۔
مقامی رہائشیوں کا خیال تھا کہ ان کے علاقے میں کوئی شہاب ثاقب آ کر گرا ہے لیکن جائے وقوعہ پر پہنچنے والے بم ماہرین نے بتایا ہے کہ یہ دوسری عالمی جنگ کا کوئی بم ہو سکتا ہے، جو ابھی تک زیر زمین تھا۔ دوسری جانب یورپین اسپیس ایجنسی نے بھی اس امکان کو رد کر دیا ہے کہ یہ کوئی شہاب ثاقب تھا۔ اس ادارے سے وابستہ روڈیگر جین کا کہنا تھا، ''اگر کوئی یہ شہاب ثاقب زمین سے ٹکرائے تو توانائی بڑی مقدار میں خارج ہوتی ہے لیکن اس دھماکے میں ایسا نہیں ہوا۔‘‘
لی گئی تصاویر سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ بم کم از کم چار میٹر زیر زمین تھا۔ ماہرین کے مطابق اس کا وزن دو سو پچاس کلوگرام تھا اور یہ بغیر کسی بیرونی محرک کے خود بخود پھٹا ہے۔ جرمن شہر کوٹبوس کی برانڈن برگ یونیورسٹی کے پروفیسر وولفگانگ سپرا کا کہنا تھا، ''دوسری عالمی جنگ کے بموں کے خود بخود پھٹنے کے واقعات شاذو نادر ہی ہوتے ہیں۔ ایسا کوئی واقعہ سال میں کوئی ایک یا دو مرتبہ ہی رونما ہوتا ہے۔‘‘ ان کا ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''بعض بموں میں کیمیکل ڈیٹونیٹرز لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ پگھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔‘‘
جرمن حکام کے مطابق اسی طرح کے ایک ڈیٹونیٹر میں موجود کیمیلز کی وجہ سے یہ دھماکا ہوا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران لمبورگ شہر پر شدید بمباری کی گئی تھی اور یہی وجہ ہے کہ اس علاقے میں پہلے بھی کئی بم برآمد ہو چکے ہیں، جو اس وقت نہیں پھٹے تھے۔
دوسری عالمی جنگ کو ختم ہوئے ستر برس بیت چکے ہیں لیکن جرمنی میں تواتر سے ایسے بم ملتے رہتے ہیں، جو اس وقت نہیں پھٹے تھے۔ سن انیس سو چالیس سے انیس سو پینتالیس کے درمیان امریکی اور برطانوی فورسز نے یورپ پر دو اعشاریہ سات ملین ٹن بم پھینکے تھے اور ان میں سے نصف صرف جرمنی پر گرائے گئے تھے۔
ا ا / ع ا (ڈٰی ڈبلیو)
جب آسمان ہی جل اٹھا
اکتیس مئی 1942ء کو جب جرمنی کے شہر کولون میں کارپٹ بمبنگ شروع کی گئی تو برطانیہ نے اسے ’آپریشن ملینیم‘ کا نام دیا۔ کولون کے شہری اسے ’ہزار بموں کی رات‘ کا نام دیتے ہیں۔ دو گھنٹوں کے اندر ہی شہر کا چہرہ بدل گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive
صرف تاریخی کولون کیتھیڈرل کو بخشا گیا
ہر طرف بمباری کی گئی لیکن یورپ کے دوسرے اور دنیا کے تیسرے بلند ترین گرجا گھر (کولون کیتھیڈرل یا کولون ڈوم) کو بخش دیا گیا۔ حقیقت میں اس کے دو بڑے مینار پائلٹوں کے لیے فوکس پوائںٹ بھی تھے۔ مذہبی طرز تعمیر نے بھی اس کیتھیڈرل کے بچاؤ میں مدد دی۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
کولون کی دوبارہ تعمیر
سن 1945ء کے بعد سب کچھ تاریخی انداز میں تعمیر نہیں کیا گیا۔ گھروں کی شدید ضرورت تھی۔ 3330 گھر اور 41 ہزار اپارٹمنٹس تباہ ہو چکے تھے۔ تیزی میں سستے گھر تعمیر کیے گئے لیکن تصویر میں نظر آنے والا کولون کا یہ حصہ تاریخی طرز تعمیر کا حامل ہے۔
تصویر: Imago/H. Galuschka
جب جنگ گھر پہنچی
جب اکتیس مئی کی رات بارہ بج کر سینتالیس منٹ پر بمباری شروع ہوئی تو ڈوم کے قریب 469 شہری ہلاک ہوئے۔ برطانیہ کی شدید بمباری کی وجہ سے ہر طرف باردو کی بو تھی اور پینتالیس ہزار سے زائد شہری بے گھر ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/Keystone/Hulton Archive
پرانے کولون کا خاتمہ
اکتیس مئی کی بمباری نے پرانی رومن نوآبادی کے چہرے، قرون وسطیٰ کے عظیم تجارتی روٹ اور اس یونیورسٹی شہر کے چہرے پر ایسے داغ ڈالے، جنہیں آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ آج بھی کہا جاتا ہے کہ کولون اپنے ڈوم اور دریائے رائن کے بغیر بدصورت شہر ہوتا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
برطانیہ میں بھی متنازعہ
آرتھر ہیرس، جنہیں بمبار ہیرس بھی کہا جاتا ہے، کو جرمن شہروں پر ’کارپٹ بمباری کا باپ‘ کہا جاتا ہے۔ ان کی شہروں کو ہدف بنانے اور عوامی ارادوں کو کمزور کرنے کی حکمت عملی کو برطانیہ میں بھی متنازعہ سمجھا جاتا ہے۔ بعد ازاں ان کا ایک مجسمہ بھی انتہائی خاموشی کے ساتھ نصب کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/Fox Photos/M. McNeill
بمباری کرنے والے برطانوی پائلٹ
ونسٹن چرچل ہر صبح حملہ آور کمان کو فون کر کے جرمنی کے خلاف ملنے والی کامیابیوں کے بارے میں پوچھتے تھے۔ فضائیہ کے جنرل آرتھر کی کولون پر بمباری خود چرچل کے لیے بھی بہت زیادہ تھی۔ انہوں نے آرتھر سے کہا تھا، ’’کولون پر بہت بمباری ہو چکی۔‘‘
تصویر: Getty Images/Keystone
’کولون کے لیے بم‘
جرمنی میں رات کے وقت بمباری کرنے کے لیے ایک لنکاسٹر بمبار کو تیار کیا جا رہا ہے۔ کیا پوری جنگ فضائی حملوں سے جیتی جا سکتی تھی؟ اس بارے میں مؤرخین کی آراء مختلف ہیں۔ برطانیہ کی رائل ایئر فورس کے لیے بھی نقصان کم نہیں تھا۔ کسی بھی جنگی ہوائی جہاز میں سوار ہر دوسرا شخص دوبارہ گھر نہیں پہنچا تھا۔
تصویر: Getty Images/Fox Photos
’بمبر ہیرس کی مردہ یادیں‘
ہیرس کی یادیں آج تک بارود سے جڑی ہوئی ہیں۔ ابھی تک کولون میں کھدائی کے دوران اس رات کے بم ملتے ہیں اور بعض اوقات پورے کے پورے علاقے خالی کرانا پڑتے ہیں۔ ابھی تک کولون کی زمین میں ایسے کتنے بم چھپے ہیں، کوئی بھی نہیں جانتا۔ ہیرس کے بقول، ’’وہ مکمل جنگ چاہتے تھے، ہم نے انہیں وہی کچھ دیا، جس کی انہوں نے بھیک مانگی تھی۔‘‘