جرمنی، کیمنٹس میں رائٹ ونگ کی دھمکی کے بعد کنسرٹ روک دیا گیا
16 نومبر 2018
جرمن شہر کیمنٹس میں پولیس کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز بائیں بازو کے نظریات کا پرچار کرنے والے راک بینڈ کے کنسرٹ کو سکیورٹی وجوہات کی بنا پر روک دیا گیا تھا۔ یہ مداخلت ایک دھمکی آمیز ٹیلیفون کال موصول ہونے کے بعد کی گئی تھی۔
اشتہار
پولیس کی ترجمان کا کہنا تھا،’’شہر کے آلٹرنیٹو یوتھ سینٹر میں منعقد کیے جانے والے اس کنسرٹ کے منتظمین کو ایک فون کال موصول ہوئی جس میں کہا گیا کہ وہ اس عمارت کی حدود سے نکل جائیں۔ ‘‘ ایک مقامی جرمن اخبار’ فرائیے پریسے‘ کا کہنا ہے کہ کنسرٹ کو اس لیے روکا گیا کیونکہ بینڈ بائیں بازو کے خیالات کا حامی ہے۔
کیمنٹس مشرقی جرمنی کا ایک شہر ہے، جہاں ایک جرمن شہری کی ہلاکت کے بعد شدید ہنگامہ آرائی ہوئی تھی۔ اس دوران خاص طور پر غیر ملکیوں پر حملے کیے گئے تھے۔ اگست اور ستمبر کے ان واقعات کو حالیہ دہائیوں کے دوران جرمنی میں دائیں بازو کی شدید ترین ہنگامہ آرائی قرار دیا گیا ہے۔
کیمنٹس میں پولیس کی ترجمان خاتون کا کہنا تھا کہ اس فون کال کے تقریباﹰ ایک گھنٹے بعد کنسرٹ کے لیے آنے والے شائقین واپس ہال میں آئے اور پھر موسیقی کی یہ شام شروع ہوئی۔ دھمکی ممکنہ طور پر عوامی موسیقی کے ’ فائینے زاہنے فش فیلیٹ‘ نامی بینڈ کو دی گئی تھی۔
راک میوزک کا یہ بینڈ بائیں بازو کے نظریات کا حامل ہے اور رواں برس اگست اور ستمبر میں شہر میں ہونے والے مظاہروں میں رائٹ ونگ کا نشانہ بنا رہا ہے۔ بدھ کے روز اسی بینڈ پر بنائی گئی ایک دستاویزی فلم کی نمائش بھی دھمکیوں کے بعد منسوخ کرنا پڑی تھی۔ گزشتہ ماہ ’باؤ ہاؤس ڈیساؤ فاؤنڈیشن‘ نامی ایک تنظیم کو بھی پنک راک بینڈ کا ایک کنسرٹ رائٹ ونگ کی جانب سے مظاہروں کی دھمکی ملنے کے بعد منسوخ کرنا پڑا تھا۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل آج جمعہ سولہ نومبر کو کمینٹس کا دورہ کر رہی ہیں۔ اس دورے کا مقصد شہریوں کو برداشت کا مظاہرہ کرنے کی جانب مائل کرنا ہے۔
ص ح / ا ا / نیوز اجنسی
کیمنِٹس کے انتہائی دائیں بازو اور نازی سیلیوٹ کرتا بھیڑیا
جرمنی میں کئی مقامات پر تانبے سے بنے بھیڑیے کے ایسے مجسمے نصب کیے گئے ہیں جو نازی دور کے سیلیوٹ کے حامل ہیں۔ اب ان مجسموں کو مشرقی شہر کیمنٹس میں بھی نصب کیا گیا ہے، جہاں ان دنوں اجانب دشمنی کی وجہ سے خوف پایا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’بھیڑیوں کی واپسی‘
جرمنی میں تانبے کے 66 مجسموں کی ایک سیریز تخلیق کی گئی، یہ نازی سیلیوٹ کا انداز بھی اپنائے ہوئے ہیں، یہ جرمنی میں ممنوع ہے۔ مجسمہ ساز رائنر اوپولکا کے بقول یہ تخلیق نسل پرستی کے خطرے کی علامت ہے۔ تاہم انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے ہمدرد خود کو بھیڑیے سے تشبیہ دینے لگے ہیں۔ مہاجرت مخالف AFD کے رہنما ہوئکے نے کہا ہے کہ ہٹلر کے پراپیگنڈا وزیر گوئبلز نے 1928ء میں بھیڑیے کی اصطلاح استعمال کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
کیمنٹس میں دس بھیڑیے
فنکار رائنر اوپولکا نے اپنے یہ مجسمے ایسے مقامات پر لگائے ہیں جہاں اجانب دشمنی اور نسل پرستانہ رویے پائے جاتے ہیں۔ ان کو ڈریسڈن میں پیگیڈا تحریک کی ریلیوں کے دوران نصب کیا گیا تھا۔ میونخ کی عدالت کے باہر بھی یہ مجسمے اُس وقت نصب کیے گئے تھے جب انتہائی دائیں بازو کی خاتون بیاٹے شاپے کو قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ شاپے نیو نازی گروپ این ایس یو کے دہشت گردانہ سیل کی رکن تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
انتہائی دائیں بازو کے بھیڑیے
کیمنٹس شہر میں گزشتہ جمعے کو انتہائی دائیں بازو کی ایک نئی ریلی کا انتظام کارل مارکس کے مجسمے اور تانبے کے بھیڑیے کے سامنے کیا گیا۔ اس ریلی میں انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں نے بھیڑیے کے پہناوے میں جارح رویہ اپنا رکھا تھا اور بعض نے آنکھوں کو چھپا رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’کیمنٹس میں جرأت ہے‘
رواں برس ماہِ ستمبر کے اوائل میں انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں کی وجہ سے کیمنٹس کے تشخص پر انگلیاں بھی اٹھیں۔ اس دوران مرکزِ شہر میں نسل پرستی اور قوم پرستی کی مذمت کے جہاں بینر لگائے گئے وہاں ایک بڑے میوزیکل کنسرٹ کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اس کنسرٹ میں 65 ہزار افراد نے شرکت کر کے واضح کیا کہ اُن کی تعداد دائیں بازو کے قوم پرستوں سے زیادہ ہے۔
تصویر: Reuters/T. Schle
شہر کے تشخص پر نشان
کیمنِٹس کی شہری انتظامیہ نے انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان سے فاصلہ اختیار کر رکھا ہے۔ سٹی ایڈمنسٹریشن کے کئی اہلکاروں کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں سے کیمنِٹس کا تشخص مستقلاً مسخ ہو سکتا ہے۔ شہری انتظامیہ نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے انتہا پسندوں کے خلاف عدالتی عمل کو سرعت کے ساتھ مکمل کیا جائے جنہوں نے نفرت کو فروغ دے کر تشدد اور مظاہروں کو ہوا دی تھی۔