جرمنی کی دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کی کوشش
15 دسمبر 2021
جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کے لیے ایک ''نئی رفتار'' کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے اپنی سویڈش ہم منصب کے ساتھ ملاقات کے دوران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر نظر ثانی کی جانب توجہ دلائی۔
اشتہار
جرمنی اور سویڈن نے دنیا کی جوہری طاقتوں کو جوہری ہتھیاروں سے چھٹکارا حاصل کرنے پر آمادہ کرنے کے راستے تلاش کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کا عہد کیا ہے۔ دونوں ملکوں کے وزراء خارجہ نے آئندہ ماہ عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) پر ہونے والی جائزہ میٹنگ سے قبل اسٹاک ہوم میں ملاقات کی ہے تاکہ اس بارے میں مستقبل کا راستہ طے کیا جا سکے۔
جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک اس بارے میں اپنی سویڈش ہم منصب این لِنڈے کے ساتھ پہلے سے ہی ربط میں تھیں اور انہوں نے جوہری ہتھیاروں سے چھٹکارا پانے کے لیے کوشاں سولہ ممالک کے گروپ 'اسٹاک ہوم انیشیٹو' سے بھی ملاقات کی ہے۔
بیئربوک نے لنڈے کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا، ''ہمارا مشترکہ مقصد واضح ہے: ایک دنیا جو جوہری ہتھیاروں سے پاک ہو۔''
اس حوالے سے اسٹاک ہوم انیشیٹیو کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''جائزہ کانفرنس میں ہمارا پیغام واضح ہو گا کہ جوہری ہتھیاروں کے حامل ممالک کو جوہری تخفیف اسلحہ کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔'' اس بیان میں جوہری ہتھیاروں کے ناقابل واپسی اور ایسے شفاف خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے جو نگرانی کے تابع ہو۔
بیئربوک نے جرمنی کے عزم کا اعادہ کیا
جرمن وزیر خارجہ نے کہا کہ جوہری ہتھیاروں کے خلاف تحریک کو ''فوری طور پر نئی رفتار کی ضرورت ہے۔'' انہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ یورپ، ''ایک محفوظ دنیا کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔''
اس موقع پر بیئربوک نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ نئی مخلوط حکومت میں شامل ان کی گرین پارٹی، سوشل ڈیموکریٹس (ایس پی ڈی) اور فری ڈیموکریٹس (ایف ڈی پی) کا نیا اتحاد 'جوہری ہتھیاروں کی ممانعت کے معاہدے' (اے وی وی) میں ایک مبصر ریاست کے طور پر شامل ہونے کی کوشش کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کے سربراہی اجلاسوں کو صرف بات چیت کے لیے ہی نہیں بلکہ ٹھوس تبدیلی لانے کے لیے بھی استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا، ''ہم ٹھوس نتائج کے بغیر ایک اور جائزہ کانفرنس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔''
اس سلسلے میں انہوں نے ایسے رہنماؤں اور کارکنوں کی تعریف کی جنہوں نے ''دنیا کو قدم بہ قدم جوہری ہتھیاروں سے محفوظ بنانے کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا۔'' انہوں نے کہا کہ سربراہی اجلاس کا مقصد، ''اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ اس راستے کو اختیار کیا جائے۔''
جرمن وزیر خارجہ کے یہ بیانات ایک ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب امریکا حالیہ برسوں میں تخفیف اسلحہ کے کئی بڑے معاہدوں سے دستبرداری اختیار کر چکا ہے۔ اس میں آئی این ایف کا تاریخی معاہدہ بھی شامل ہے، جس کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2019 میں یہ کہہ کر تجدید نہیں کی کہ روس اس معاہدے کی پاسداری نہیں کر رہا ہے۔
اب امریکا اور روس کے درمیان جوہری عدم پھیلاؤ کا صرف ایک معاہدہ باقی ہے، جو 'نیو اسٹارٹ اسٹریٹیجک تخفیف اسلحہ معاہدہ' کے نام سے معروف ہے۔ یہ معاہدہ بھی دونوں ممالک کو آٹھ سو جوہری ہتھیاروں کا ڈیلیوری سسٹم رکھنے اور 1,550 قابل تعینات نیوکلیئر وار ہیڈز رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔
اشتہار
ماحولیات کی قرارداد ویٹو کرنے پر روس پر تنقید
سویڈن میں ہونے والی اس کانفرنس کے موقع پر جرمن وزیر خارجہ نے روس کی اس بات کے لیے نکتہ چینی کی کہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کی کوششوں کو روک رہا ہے۔
روس نے چند روز قبل اس حوالے سے ایک قرارداد کو یہ کہہ کر ویٹو کر دیا تھا کہ جن ممالک نے ماحولیات کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے انہوں نے ہی یہ قرارداد ان ممالک پر پابندی کے لیے پیش کی ہے جنہوں نے سب سے کم نقصان پہنچایا ہے۔
جرمن وزیر خارجہ نے روس کے اس اقدام کو یہ کہتے ہوئے افسوس ناک قرار دیا کہ اس وقت دنیا کو ماحولیات کی تبدیلی جیسے شدید بحران کا سامنا ہے اور اس سے تنازعات میں کمی کے بجائے اضافہ ہو گا۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)
اس برس تک کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم ہیں؟
سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد کم ہوئی ہے لیکن جوہری صلاحیت رکھنے والے نو ممالک اپنے ایٹم بموں کو جدید اور مزید مہلک بھی بنا رہے ہیں۔ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: Getty Images/AFP/J. Samad
روس
سپری کے مطابق 6,375 جوہری ہتھیاروں کے ساتھ روس سب سے آگے ہے۔ روس نے 1,570 جوہری ہتھیار نصب بھی کر رکھے ہیں۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سن 2015 میں روس کے پاس آٹھ ہزار جوہری ہتھیار تھے، جن میں سے متروک ہتھیار ختم کر دیے گئے۔ سپری کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس اور امریکا جدید اور مہنگے جوہری ہتھیار تیار کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Anotonov
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس اس وقت 5,800 ایٹمی ہتھیار ہیں، جن میں 1,750 تعنیات شدہ بھی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ جوہری ہتھیاروں کی تجدید کر رہی ہے اور امریکا نے 2019 سے جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کے بارے میں معلومات عام کرنے کی پریکٹس بھی ختم کر دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Riedel
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 320 ایٹم بم ہیں اور سپری کے مطابق چین اس وقت جوہری اسلحے کو جدید تر بنا رہا ہے۔ نصب شدہ ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں معلوات دستیاب نہیں ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture alliance/Xinhua/L. Bin
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 290 بتائی جاتی ہے جن میں سے 280 نصب شدہ ہیں۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔ سپری کے مطابق فرانس کسی حد تک اب بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں معلومات عام کر رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 215 جوہری ہتھیار ہیں، جن میں سے 120 نصب ہیں۔ برطانیہ نے اپنا جوہری ذخیرہ کم کر کے 180 تک لانے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Poa/British Ministry of Defence/T. Mcdonal
پاکستان
پاکستان کے پاس 160 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سپری کے مطابق سن 1998 میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان نے اپنے ہتھیاروں کو متنوع بنانے اور اضافے کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مطابق ان کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974 میں پہلی بار اور 1998 میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس 150 ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔ بھارت اور پاکستان اپنے میزائل تجربات کے بارے میں تو معلومات عام کرتے ہیں لیکن ایٹمی اسلحے کے بارے میں بہت کم معلومات فراہم ی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس مبیبہ طور پر قریب 90 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیل اب بھی اپنے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کوئی بھی معلومات عام نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Kahana
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
شمالی کوریا 30 سے 40 جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ گزشتہ برس صدر ٹرمپ اور کم جونگ ان کی ملاقات کے بعد شمالی کوریا نے میزائل اور جوہری تجربات روکنے کا اعلان کیا تھا، لیکن پھر اس پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ دستیاب معلومات کے مطابق اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں بھی ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/KCNA/Korea News Service
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔