جرمنی کی سب سے بڑی مسجد بم کی دھمکی کے بعد خالی کرا لی گئی
1 نومبر 2019
جرمنی میں چند برس قبل تعمیر کی گئی مسلمانوں کی سب سے بڑی مسجد ٹیلی فون پر ملنے والی ایک بم دھمکی کے بعد خالی کرا لی گئی۔ یہ واقعہ کولون شہر میں پیش آیا تاہم پولیس کو ڈیڑھ گھنٹے تک تلاشی کے باوجود وہاں سے کوئی بم نہ ملا۔
اشتہار
کولون سے جمعہ یکم نومبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی کے این اے کی رپورٹوں کے مطابق اس شہر کے ایہرن فَیلڈ نامی حصے میں قائم یہ مسجد نہ صرف پورے جرمنی میں مسلمانوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ ہے بلکہ ترک جرمن مساجد کی تنظیم دیتیب (Ditib) کی مرکزی جامع مسجد بھی ہے۔
کے این اے نے جرمن اخبار 'کوئلنر اشٹڈ انسائیگر‘ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ واقعہ جمعرات اکتیس اکتوبر کی سہ پہر تقریباﹰ عصر کی نماز کے وقت پیش آیا۔ مسجد کی انتظامیہ نے کسی نامعلوم شخص کی طرف سے ٹیلی فون پر دی گئی بم کی دھمکی کے بعد فوری طور پر پولیس کو مطلع کر دیا تھا۔
تقریباﹰ اسی وقت موقع پر پہنچ جانے والے پولیس اہلکاروں نے یہ مسجد خالی کرا لی اور مبینہ بم کی تلاش شروع کر دی۔ تاہم ڈیڑھ گھنٹے تک مسجد اور اس سے ملحقہ دیتیب کے مرکزی دفاتر کی تلاشی لینے کے باوجود جب وہاں سے کوئی بم برآمد نہ ہوا، تو پولیس نے نمازیوں کو دوبارہ مسجد میں جانے کی اجازت دے دی۔
مبینہ بم کی تلاشی سے قبل مسجد میں بڑی تعداد میں موجود نمازیوں اور دیتیب کے ملکی صدر دفاتر میں موجود اس تنظیم کے عہدیداروں کو وہاں سے نکال لیا گیا تھا۔ پولیس اس بارے میں تفتیش کر رہی ہے کہ اس مسجد میں مبینہ بم کی موجودگی کی ٹیلی فون پر دی جانے والی دھمکی کا پس منظر کیا ہے۔
جولائی میں بھی ایسی ہی دھمکی
اکتیس اکتوبر کی سہ پہر اس ٹیلی فونک دھمکی سے قبل اسی سال جولائی کے اوائل میں بھی اس مسجد کی انتظامیہ کو ایسی ہی ایک دھمکی دی گئی تھی۔ تب لیکن یہ دھمکی مسجد کی انتظامیہ کے نام ایک ای میل میں دی گئی تھی مگر اس واقعے کا بھی چھان بین کے بعد کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا۔
جرمنی کی ترک اسلامی تنظیم برائے مذہب یا Ditib ملک کی سب سے بڑی مسلم تنظیم ہے۔ اس تنظیم کے اپنے موقف کے مطابق وہ جرمنی میں مجموعی طور پر 856 خود مختار مساجد کی نمائندگی اور ان مساجد یا مسلم تنظیموں کی مذہبی، سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کو مربوط بنانے کا کام کرتی ہے۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق کولون سینٹرل مسجد کہلانے والی یہ مسلم عبادت گاہ نہ صرف جرمنی کی سب سے بڑی مسجد ہے بلکہ اس کا شمار یورپ کی سب سے بڑی مساجد میں بھی ہوتا ہے۔ اس کا باقاعدہ افتتاح ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے گزشتہ برس ستمبر میں کیا تھا۔
م م / ع ا (کے این اے)
جرمنی کی سب سے بڑی مسجد، ثقافتوں کا امتزاج
کولون کی جامع مسجد جرمنی کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس مسجد کا کمپاؤنڈ شیشے اور کنکریٹ کا حسین امتزاج ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا تو اسے انضمام کی علامت قرار دیا گیا تاہم افتتاح کے وقت اسے تنازعات نے گھیر لیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Meissner
شگوفے کے مانند
اس مسجد کی کچھ دیواریں شیشے کی ہیں۔ بیرونی راستے سے سڑھیوں کی مدد سے مسجد کے کمپاؤنڈ کی تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کا ڈیزائن کھلے پن کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جہاں تمام مذاہب کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ اس مسجد کے دو مینار ہیں، جو پچپن بچپن میٹر بلند ہیں۔ مسجد کا گنبد شیشے کا ہے، جس میں کنکریٹ کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔ دور سے یہ مسجد ایک کِھلتے ہوئے شگوفے کے مانند دکھائی دیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/R. Hackenberg
ثقافتوں کا امتزاج
یہ مسجد کولون کے ایہرنفلڈ ڈسٹرکٹ میں واقع ہے، جہاں ماضی میں متوسط طبقہ اکثریت میں رہتا تھا۔ جب 1970 کی دہائی میں اس علاقے میں واقع فیکٹریاں بند کر دی گئی تھیں تو وہاں بے روزگاری اور غربت کی شرح بڑھ گئی تھی۔ اس علاقے میں کم کرائیوں کی وجہ سے وہاں کئی گیلریز اور تھیٹرز بنائے گئے، جس کی وجہ سے اس علاقے کو ایک نئی شناخت ملی۔ اب بھی اس علاقے کی آبادی میں 35 فیصد تارکین وطن پس منطر کے افراد مقیم ہیں۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
شراکت داری اور چندے
اس مسجد کی تعمیر کی خاطر سینکڑوں مسلم انجمنوں نے چندہ دیا تھا۔ ساتھ ہی بینکوں سے قرضے بھی لیے گئے اور جرمنی میں ترک مذہبی اتھارٹی دیتپ DITIB نے بھی خطیر عطیات فراہم کیے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ایس یو) کی مخالفت کے باوجود کولون کی شہری انتظامہ نے سن دو ہزار آٹھ میں اس مسجد کی تعمیر کی اجازت دی تھی۔
تصویر: picture alliance / dpa
ترک حکام سے اختلافات، آرکیٹیکٹ علیحدہ
آرکیٹیکٹ پاؤل بوؤم چرچ کی عمارتوں کے ڈیزائن بنانے میں ملکہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہی سن دو ہزار پانچ میں اس مسجد کی تعمیر کا کنٹریکٹ جیتا تھا۔ وہ اس مسجد کی عمارت کو انضمام کی علامت کے طور پر متعارف کرانا چاہتے تھے۔ تاہم جرمنی میں فعال ترک تنظیم DITIB کی قیادت سے اختلافات کے باعث وہ سن دو ہزار گیارہ میں اس منصوبے سے الگ ہو گئے تھے۔
تصویر: AP
پہلی نماز اور افتتاح
جرمن شہر کولون کی اس جامع مسجد کو سن دو ہزار سترہ کے رمضان میں نمازیوں کے لیے کھولا گیا تھا۔ تاہم اس کا باقاعدہ افتتاح ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے انتیس ستمبر سن دو ہزار اٹھارہ میں کیا۔ یہ جرمنی کی سب سے بڑی مسجد ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
بارہ سو نمازیوں کی گنجائش
اس مسجد میں نماز ادا کرنے کی خاطر دو وسیع کمپاؤنڈز ہیں، ایک گراؤنڈ فلور پر اور دوسرا پہلی منزل پر۔ مجموعی طور پر بارہ سو نمازی ایک وقت میں نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس مسجد کی عمارت میں ایک کتب خانہ بھی بنایا گیا ہے۔ وہاں کچھ دکانیں اور کھیلوں کی سہولیات بھی موجود ہیں تاکہ اس مسجد میں جانے والے مسلمان غیر مسلموں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ روابط ممکن بنا سکیں۔
تصویر: Picture alliance/dpa/M. Becker
نئی سکائی لائن
جب اس مسجد کی تعمیر کا منصوبہ عوامی سطح پر پیش کیا گیا تھا تو کچھ حلقوں نے اس مسجد کی عمارت کے سائز پر تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا۔ بالخصوص مسجد کے میناروں کی اونچائی کے تناظر میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ اس مسیحی شہر کے سکائی لائن میں تبدیلی بھی ہو سکتی ہے۔ تب کولون شہر کے آرچ پشپ کارڈینیل یوآخم میزنرنے تسلیم کیا تھا کہ اس منصوبے سے ’مضطربانہ احساس‘ پیدا ہوا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa/H.Kaiser
دائیں بازو کے انتہا پسندوں کا احتجاج
اس مسجد کے منصوبے پر جرمنی میں دائیں بازو کی حلقوں کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔ کٹر نظریات کے حامل کچھ سیاستدانوں نے بھی عوامی جذبات کو ہوا دیتے ہوئے جرمنی میں مسلمانوں کے انضمام کے حوالے سے ایک نئی بحث شروع کر دی تھی۔ تب جرمن لکھاری رالف گیروڈنو نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ جرمنی میں مساجد کی تعمیر دراصل ملک میں ’آہستہ آہستہ بڑھتی ہوئی اسلامائزیشن کا اظہار‘ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
امام مسجد یا جاسوس؟
سن دو ہزار سترہ میں جرمن حکام نے ترک مذہبی ادارے DTIB کے آئمہ کے خلاف چھان بین کا عمل شروع کیا تھا۔ ان آئمہ کو ترک حکومت کی طرف سے تنخواہیں ملتی ہیں اور ان کی تربیت بھی ترکی ہی کرتا ہے۔ ساتھ ہی ان افراد کو بھی شامل تفتیش کر لیا گیا تھا، جو کولون کے اس کمپلیکس سے وابستہ تھے۔ الزام عائد کیا گیا تھا کہ یہ آئمہ انقرہ حکومت کے لیے جرمنی میں مقیم ترک باشندوں کی جاسوسی کر رہے ہیں۔