جرمنی کی شاہراہ پر دنیا کی سب سے بڑی ثقافتی سرگرمی
19 جولائی 2010جرمن شہر ڈارٹمنڈ اور ڈوئزبرگ کو ملانے والی سینتیس میل طویل شاہراہ اتوار کو ہر قسم کے انجن والے ٹریفک کے لئے بند کردی گئی تھی۔
اس دن معمول کے مطابق اس ’آٹو بان‘ یعنی ہائی وے پر شور مچاتی گاڑیوں کا نام و نشان نہیں تھا اور ہر سمت خوش و خرم انسان ہی دکھائی دے رہے تھے۔ شاہراہ کی ایک جانب بیس ہزار میزیں رکھی گئی تھیں۔ ان میزوں پر عوامی دلچسپی کی مختلف سرگرمیاں پورا دن ہوتی رہیں۔ موسیقی کا انتظام بھی خوب تھا اور ہر ایک کو اپنے اپنے فن کے اظہار کی مکمل اجازت تھی۔ میلے کا ایک نعرہ تھا، ’’ ہر ایک کی زندگی اور ثقافت۔‘‘ اس کا لطف اٹھانے امریکہ اور جاپان سمیت دنیا کے دور دراز خطوں سے لوگ جرمنی پہنچے تھے۔Ruhr 2010 نامی اس میلے کے منتظم اولیور ہائینگ کے بقول لگ بھگ دو لاکھ افراد اس میں شریک ہوئے۔ اسی موقع کو بعض لوگوں نے اپنی شادی کا جشن یا سالگرہ منانے کے لئے بھی منتخب کیا۔ کھیلوں کے بعض مقامی کلب اور تھیٹر و میوزک گروپس بھی اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ میلے میں رنگ جمائے ہوئے تھے۔
Ruhr 2010 کے خالق جرمن صحافی Fritz Pleitgen ہیں۔ انہیں 1980ء میں اس وقت یہ خیال آیا جب وہ نیویارک میں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔ وہاں بھی موسم گرما کے ایک منتخب اتوار کو اسی طرز کا میلہ سجتا ہے۔ Pleitgen کے بقول میلے کا مقصد مختلف ثقافتوں، نسلوں اور اقوام سے تعلق رکھنے والوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہے۔
یہ میلہ بنیادی طور پر جرمنی کے روہر خطے کو رواں سال یورپی ثقافت کا دارالخلافہ قرار دینے سے متعلق تھا۔ یہ خطہ اپنی صنعتوں کے حوالے سے زیادہ مشہور ہے تاہم رواں سال اس خطے میں اسی قسم کے متعد دیگر ثقافتی سرگرمیاں بھی ترتیب دی گئی ہیں۔
اس صنعتی علاقے میں متعدد عجائب گھر اور تھیٹر ہالز موجود ہیں۔ ’’تیز رفتار راہ پر ساکن زندگی‘‘ نامی اس میلے کے روہر خطے پر دور رس اثرات کے بارے میں فی الحال کچھ کہنا تو قبل از وقت ہے تاہم یہ سڑک ایک دن کے لئے دنیا کی سب سے بڑی ثقافتی سرگرمی کی حیثیت ضرور اختیار کر گئی ہے۔رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: ندیم گِل