جرمنی نے روہنگیا مسلمانوں کے لیے اضافی مالی مدد فراہم کرنے کا عہد کیا ہے۔ اتوار کے دن جرمنی اور متعدد ممالک کے وزرائے خارجہ نے بنگلہ دیش میں واقع روہنگیا مہاجرین کے کیمپوں کا دورہ بھی کیا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے بتایا ہے کہ جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل نے اپنے دورہ بنگلہ دیش کے دوران اعلان کیا کہ برلن حکومت روہنگیا مہاجرین کی مدد کے لیے اضافی طور پر بیس ملین یورو فراہم کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ رقوم ان مہاجرین کے ’تباہ کن حالات‘ میں بہتری لانے کے لیے استعمال کی جائیں گی۔ رواں سال اکتوبر میں بھی جرمنی نے بنگلہ دیش میں موجود ان مہاجرین کے پانچ ملین یورو فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اتوار کے دن جرمن وزیر خارجہ کے علاوہ جاپان اور سویڈن کے وزرائے خارجہ نے بھی بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کے کیمپوں کا دورہ کیا۔ اس موقع پر یورپی یونین کی خارجہ امور کی نگران عہدیدار فیدیریکا موگیرینی بھی ان کے ہمراہ تھیں۔
پیر کے دن یہ رہنما میانمار کے دارالحکومت میں منعقد ہونے والے ایشیائی اور یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ کے ایک اجلاس میں بھی شریک ہوں گے۔
جرمن وزیر خارجہ گابریئل نے بنگلہ دیشن میں ایک مہاجر کیمپ کا دورہ کرنے کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ اس اجلاس میں عالمی رہنما بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کی حالت زار کے علاوہ میانمار میں سکیورٹی کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔
جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل ڈھاکا سے کوکس بازار پہنچے تھے، جہاں چھ لاکھ روہنگیا مہاجرین مختلف کیمپوں میں انتہائی ابتر صورتحال میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
جرمن، سویڈش اور جاپانی وزرائے خارجہ نے کوکس بازار میں مہاجر کیمپوں کے دورے کے دوران نہ صرف مہاجرین سے ملاقاتیں کیں بلکہ امدادی اداروں کے نمائندوں سے بھی تازہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ اتوار کی شام یہ رہنما واپس ڈھاکا لوٹ گئے، جہاں انہوں نے بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ سے بھی ملاقات کی۔
اقوام متحدہ نے ان مہاجرین کی مدد کی خاطر 434 ملین ڈالر کی امدادی رقوم کی اپیل کر رکھی ہے۔ اکتوبر میں جنیوا میں ہونے والی ایک ڈونر کانفرنس میں عالمی برادری نے ان مہاجرین کے لیے 360 ملین ڈالر فراہم کرنے کا عہد کیا تھا۔ تاہم عالمی ادارے کے مطابق فروری سن دو ہزار اٹھارہ تک مطلوبہ رقم نہ ملنے کے باعث روہنگیا مہاجرین کے مصائب میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
روہنگیا مہاجرین دنیا کے کون کون سے ممالک میں ہیں
میانمار کی روہنگیا اقلیت پر ینگون سکیورٹی فورسز کے مبینہ مظالم کے خلاف اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر میں تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یہ اقلیت اس وقت دنیا کے کن ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہے، اس حوالے سے یہ تصاویر دیکھیے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Jones
میانمار
اعداد وشمار کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش کی طرف حالیہ ہجرت سے قبل میانمار (برما) کے مغربی صوبے راكھین میں روہنگیا مسلمانوں کی آبادی تقریباﹰ دس لاکھ تھی۔ میانمار میں انہیں غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجر مانا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Jones
بنگلہ دیش
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے مطابق پانچ لاکھ سے زائد روہنگیا اپنی جان بچانے کے لیے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہےکہ مہاجرین کی تعداد اور ضروریات کے تناظر میں بین الاقوامی برادری کی جانب سے بھاری امداد کی ضرورت ہے۔
تصویر: Getty Images/P. Bronstein
پاکستان
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے انتہائی پسماندہ علاقوں اور بستیوں میں قریب تین لاکھ روہنگیا باشندے مقیم رہائش پذیر ہیں۔ یہ وہ باشندے ہیں، جن میں سے بہت سے قریب نصف صدی قبل سابق برما اور موجودہ میانمار میں ہونے والی خونریزی سے بچتے بچاتے پاکستان پہنچے تھے۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
سعودی عرب
ساٹھ کی دہائی میں سعودی فرمانروا شاہ فیصل کے دورِ ِ اقتدار میں ہزاروں روہنگیا مسلمان برما (جو اب میانمار ہو چکا ہے) کے مغربی صوبے اراکان سے ہجرت کر کے سعودی شہر مکہ پہنچے تھے۔ حال ہی میں ریاض حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر پندرہ ملین ڈالر کی امداد روہنگیا مسلمانوں کو دینے کا وعدہ بھی کیا ہے۔
تصویر: DW/L. Kafanov
ملائیشیا
ملائیشیا کی حکومت کے مطابق راکھین ریاست میں شورش کی وجہ سے ہزاروں روہنگیا افراد ہمسایہ ممالک میں فرار ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں، جن میں سے ایک لاکھ سے زائد اس مسلم اکثریتی ملک میں بھی پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/M.P. Hossain
بھارت
میانمار کی روہنگیا اقلیت کئی برسوں سے ہجرت کر کے بھارت کا رخ کرتی رہی ہے۔ بھارت میں اقوام متحدہ کی جانب سے قائم کردہ مہاجر کیمپوں میں سولہ ہزار سے زائد روہنگیا رہ رہے ہیں تاہم ایک اندازے کے مطابق بھارت میں کم و بیش چالیس ہزار روہنگیا مہاجرین مقیم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/C. Anand
تھائی لینڈ
تھائی لینڈ میں بھی روہنگیا مسلمان اچھی خاصی تعداد میں مہاجر کیمپوں میں مقیم ہیں۔ یہ روہنگیا افراد بھی میانمار سے ہجرت کر کے تھائی لینڈ پہنچے تھے۔