جرمن قصبوں اور بلدیاتی اداروں کی تنظیم BStGB کا کہنا ہے کہ ریاست کے فلاح و بہبود کے نظام میں واضح اصلاحات کی ضرورت ہے، تاکہ مختلف سماجی برادریاں ’بڑھتی ہوئی عمر‘ اور ’مستقبل کے اقتصادی مسائل‘ کا حل ڈھونڈ پائیں۔
اشتہار
جرمنی کی گیارہ ہزار چون کمیونیٹز کے حکام ملک میں موجود بہبود کے پیچیدہ نظام کی وجہ سے سخت دباؤ میں ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں موجود ’بیوروکریٹک کلچر‘ سے جان چھڑا کر وہ اس سرمائے کی بچت کر سکیں گے، جو مختلف برادریوں کو فلاحی ریاست کے ثمرات مہیا کرنے کے لیے ضروری ہے۔ منگل کے روز جرمن قصبوں اور میونسپلٹیز کی تنظیم کے چیف ایگزیکٹیو گیرڈ لانڈزبرگ نے کہا کہ تمام مسائل کا حل زیادہ سرمائے اور زیادہ افرادی قوت کے ذریعے نکالے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ طویل المدتی بنیادوں پر فلاحی ریاست کا یہ نظام جوں کا توں قائم نہیں رہ سکے گا۔ ’’محدود ٹیکس آمدن، آبادی میں معمر افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد اور مختلف علاقوں میں صنعتوں میں کمی اور بے روزگاری میں اضافے جیسے مسائل کا حل فلاحی ریاست کے نظام میں اصلاحات میں مضمر ہے۔‘‘
فنکے میڈیا گروپ کے اخبارات سے بات چیت میں لانڈزبرگ نے مزید کہا کہ ان اصلاحات کا آغاز ویلفیئر گرانٹس پر نظرثانی اور خاندانوں کے لیے ٹیکسوں میں چھوٹ کے ذریعے ہونا چاہیے۔ ’’اس وقت عوامی شعبے میں خدمات کے کوئی 160 مختلف ادارے کام کر رہے ہیں، جن کی وجہ سے بہ طور ریاست جرمنی کو سو ارب یورو سے زائد کا سرمایہ خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘
انہوں نے اصرار کیا کہ ریاستی سطح پر یہ دیکھا جانا چاہیے کہ کسے مدد کی حقیقی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ’ڈی بیوروکریٹائزیشن‘ کا عمل ہونا چاہیے، یعنی کم سے کم کاغذی کارروائی اور دفتری دوڑ دھوپ۔ لانڈزبرگ کے مطابق مختلف خاندانوں کی بنیادی آمدن کی بنیاد پر سماجی بہبود کے شعبے میں اصلاحات شروع کی جانا چاہییں۔ انہوں نے کہا کہ غریب خاندانوں کے بچوں کی مالی معاونت زیادہ ہونا چاہیے جب کہ مخصوص حالات میں ٹیکسوں کی چھوٹ ختم کی جانا چاہیے۔
ڈی ڈبلیو کی مہم: ’جرمنی ہم ہیں‘
برداشت اور تنوع جرمن معاشرے کی لازمی اقدار ہیں۔ ڈوئچے ویلے کی مہم ’جرمنی ہم ہیں‘ کا مقصد انہی اقدار کا دفاع ہے۔ مختلف رنگوں اور نسلوں کے سماجی انضمام کی مظہر ہر تصویر جرمن عوامی زندگی کی نمائندہ دو مشہور شخصیات کی ہے۔
’جرمنی ہم ہیں‘
جفعر عبدالکریم (ڈوئچے ویلے شعبہٴ عربی) اور یانا پارائیگِس (ڈوئچے ویلے شعبہٴ جرمن) نے بھی ڈی ڈبلیو کی اس مہم میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ یہ دونوں ان بہت سی سرکردہ شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے باہمی برداشت، سماجی تنوع اور بین الثقافتی مکالمت کی ترویج کے لیے یہ قدم اٹھایا۔ یہی تیس مختلف زبانوں میں ڈوئچے ویلے کے دنیا بھر کے لیے مشن کا پیغام بھی ہے۔
تصویر: DW
’جرمنی ہم ہیں‘
ڈینیئل بارَین بوئم (میوزک کنڈکٹر) اور لِز بافوئے (اداکارہ) نے بھی ڈی ڈبلیو کی اس مہم میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ یہ دونوں ان بہت سی سرکردہ شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے باہمی برداشت، سماجی تنوع اور بین الثقافتی مکالمت کی ترویج کے لیے یہ قدم اٹھایا۔ یہی تیس مختلف زبانوں میں ڈوئچے ویلے کے دنیا بھر کے لیے مشن کا پیغام بھی ہے۔
تصویر: Peter Adamik | Liz Baffoe
’جرمنی ہم ہیں‘
زینب محمد احمد (ڈوئچے ویلے شعبہ ہاؤسا) اور یَوشا ویبر (ڈوئچے ویلے شعبہ سپورٹس) نے بھی ڈی ڈبلیو کی اس مہم میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ یہ دونوں ان بہت سی سرکردہ شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے باہمی برداشت، سماجی تنوع اور بین الثقافتی مکالمت کی ترویج کے لیے یہ قدم اٹھایا۔ یہی تیس مختلف زبانوں میں ڈوئچے ویلے کے دنیا بھر کے لیے مشن کا پیغام بھی ہے۔
تصویر: DW
’جرمنی ہم ہیں‘
عبدالکریم (کامیڈین) اور آنے صوفی مُٹر (وائلن نواز) نے بھی ڈی ڈبلیو کی اس مہم میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ یہ دونوں ان بہت سی سرکردہ شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے باہمی برداشت، سماجی تنوع اور بین الثقافتی مکالمت کی ترویج کے لیے یہ قدم اٹھایا۔ یہی تیس مختلف زبانوں میں ڈوئچے ویلے کے دنیا بھر کے لیے مشن کا پیغام بھی ہے۔
تصویر: Guido Schröder | Harald Hoffmann / DG
’جرمنی ہم ہیں‘
مائیکے کرُوگر (ڈوئچے ویلے شعبہ ثقافت) اور الزبتھ شُو (ڈوئچے ویلے شعبہ ساحلی) نے بھی ڈی ڈبلیو کی اس مہم میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ یہ دونوں ان بہت سی سرکردہ شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے باہمی برداشت، سماجی تنوع اور بین الثقافتی مکالمت کی ترویج کے لیے یہ قدم اٹھایا۔ یہی تیس مختلف زبانوں میں ڈوئچے ویلے کے دنیا بھر کے لیے مشن کا پیغام بھی ہے۔
تصویر: DW
’جرمنی ہم ہیں‘
ہارپے کَیرکیلِنگ اور کایا یانار (دونوں کامیڈین) نے بھی ڈی ڈبلیو کی اس مہم میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ یہ دونوں ان بہت سی سرکردہ شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے باہمی برداشت، سماجی تنوع اور بین الثقافتی مکالمت کی ترویج کے لیے یہ قدم اٹھایا۔ یہی تیس مختلف زبانوں میں ڈوئچے ویلے کے دنیا بھر کے لیے مشن کا پیغام بھی ہے۔
تصویر: Felix Rachor | Nadine Dilly
’جرمنی ہم ہیں‘
نِیکے واگنر (ڈائریکٹر اور مینیجر بیتھوون فیسٹیول) اور زیُولی آلاداگ (فلم ڈائریکٹر) نے بھی ڈی ڈبلیو کی اس مہم میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ یہ دونوں ان بہت سی سرکردہ شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے باہمی برداشت، سماجی تنوع اور بین الثقافتی مکالمت کی ترویج کے لیے یہ قدم اٹھایا۔ یہی تیس مختلف زبانوں میں ڈوئچے ویلے کے دنیا بھر کے لیے مشن کا پیغام بھی ہے۔
تصویر: Monika Nonnenmacher | Heinrich Völkel
’جرمنی ہم ہیں‘
پِیا کاسترو (ڈوئچے ویلے شعبہ ہسپانوی) اور امریتا چیمہ (ڈوئچے ویلے نیوز) نے بھی ڈی ڈبلیو کی اس مہم میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ یہ دونوں ان بہت سی سرکردہ شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے باہمی برداشت، سماجی تنوع اور بین الثقافتی مکالمت کی ترویج کے لیے یہ قدم اٹھایا۔ یہی تیس مختلف زبانوں میں ڈوئچے ویلے کے دنیا بھر کے لیے مشن کا پیغام بھی ہے۔
تصویر: DW
’جرمنی ہم ہیں‘
لِندیتا آراپی (ڈوئچے ویلے شعبہ البانوی) اور ذاخار بُوتائرسکی (ڈوئچے ویلے شعبہ یوکرائنی) نے بھی ڈی ڈبلیو کی اس مہم میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ یہ دونوں ان بہت سی سرکردہ شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے باہمی برداشت، سماجی تنوع اور بین الثقافتی مکالمت کی ترویج کے لیے یہ قدم اٹھایا۔ یہی تیس مختلف زبانوں میں ڈوئچے ویلے کے دنیا بھر کے لیے مشن کا پیغام بھی ہے۔
تصویر: DW
9 تصاویر1 | 9
واضح رہے کہ ستمبر میں سماجی شعبے پر تحقیق کرنے والے محققین نے کہا تھا کہ جرمنی میں بچوں کو میوزک اور کھیلوں کے لیے دیا جانے والا دس یورو فی کس بونس صرف سات میں سے ایک بچے کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے۔