جرمنی کی لیبیا سے غیر ملکی جنگجوؤں کو نکالنے کی اپیل
23 جون 2021
ہائیکو ماس نے برلن میں مجوزہ لیبیا کانفرنس سے قبل امید افزا توقعات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے لیبیا میں غیر ملکی جنگجوؤں سے ہتھیار ڈالنے اور ملک چھوڑنے کی اپیل کا اعادہ بھی کیا۔
اشتہار
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے بدھ کے روز شروع ہونے والے برلن کانفرنس سے قبل اپنے ایک بیان میں لیبیا میں پرامن منتقلی کے لیے غیر ملکی جنگجووں سے ملک چھوڑ دینے کی اپیل کی۔
ماس نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ برلن میں لیبیا سے متعلق ہونے والی عالمی برادری کی طرف سے حمایت یافتہ اس دوسری بات چیت سے عبوری حکومت کومزید تقویت حاصل ہوگی اور اس سے لیبیا کے عوام کو ”اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے‘‘ میں مدد ملے گی۔
جرمن وزیر خارجہ نے یہ بات بھی واضح کی کہ اس برس 24 دسمبر کو ہونے والے مجوزہ انتخابات اپنے وقت پر ہونے چاہئیں۔ ماس کا کہنا تھا، ”ہم لیبیا کی حکومت او راقوام متحدہ کے ساتھ مل کر ان کے لیے مہم جاری رکھیں گے۔"
شمالی افریقی ملک کی صورت حال پر تبادلہ خیال کے لیے جرمن دارالحکومت برلن میں ہونے والی اس دوسری میٹنگ میں امریکا، روس، چین، ترکی اور مصر کے وزرائے خارجہ کی شرکت متوقع ہے۔
پیش رفت کے تئیں پرامید
اس سے قبل گزشتہ برس جنوری میں ہونے والی بات چیت میں بھی لیبیا سے غیر ملکی فوجیوں اور ہتھیاروں کو نکالنے پر زور دیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق لیبیا میں اب بھی بیس ہزار سے زیادہ بیرونی فورسز اور جنگجو موجود ہیں۔ اس میں ترکی، روس، سوڈان اور چاڈ جیسے ممالک کے فورسز اور جنگجو شامل ہیں۔
ماس نے امید افزا لہجے میں بتایا کہ لیبیا کی عبوری حکومت اور اقو ام متحدہ کے درمیان تعاون کی وجہ سے زیادہ بڑی تباہی کو ٹالنے میں مدد ملی ہے۔
جرمن وزیر خارجہ نے کہا،”تقریباً دو برس قبل لیبیا میں تشدد برپا تھا اور وہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا تھا۔"
لیبیا میں سن 2011 سے ہی خانہ جنگی جاری ہے۔ ملک کے صدر ڈکٹیٹر معمر قذافی کی اقتدار سے معزولی کے بعد ملک میں پیدا ہونے کے اقتدار کے خلاء کو پر کرنے کے لیے مختلف سیاسی گروپ ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا ہیں۔
برلن میں عالمی طاقتوں کی ملاقات
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن برلن کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ وہ لیبیا کے حوالے سے منعقدہ برلن کانفرنس میں حصہ لینے والے اعلی ترین امریکی عہدیدار ہیں۔
جرمن وزیر خارجہ نے کہا کہ اہم غیرملکی طاقتوں کے علاوہ لیبیا کے نمائندوں کو بھی بات چیت کے اس نئے مرحلے میں شرکت کی اجازت ہوگی جہاں وہ ”نہ صرف لیبیا کی صورت حال کے بارے میں اظہار خیال کریں گے بلکہ اپنے ملک کے مستقبل کے حوالے سے بھی بات کریں گے۔"
ہائیکو ماس نے کانفرنس میں شرکت کے لیے برلن آنے پر لیبیا کے وزیر اعظم عبدالحمید دبیبہ اور وزیر خارجہ نجلا منغوش کا منگل کے روز خیر مقدم کیا۔ انہوں نے ٹوئٹ کرکے کہا کہ جرمنی ”لیبیا میں امن اور استحکام کے لیے اپنی حمایت جاری رکھے گا۔"
ج ا/ ص ز (اے ایف پی، ڈی پی اے)
ليبيا کی خانہ جنگی
شمالی افریقی ملک لیبیا میں آمر معمر القذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کو جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Al-Fetori
لیبیا کی خانہ جنگی کے بڑے حریف
شمالی افریقہ کے مسلمان اکثریتی ملک لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت فائز السراج (دائیں) کی قیادت میں قائم ہے۔ اُن کی حکومت کو سب سے سخت مزاحمت مشرقی حصے پر قابض جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے ہے۔
خلیفہ حفتر
76 سالہ جنگی سردار کا پورا نام خلیفہ بالقاسم حفتر ہے۔ معزول و مقتول ڈکٹیٹر معمر قذافی کے دور میں وہ لیبیا کی فوج کے اعلیٰ افسر تھے۔ وہ اب خود کو فیلڈ مارشل بھی قرار دے چکے ہیں۔ فی الوقت وہ لیبیا کے سب سے طاقتور جنگی سردار خیال کیے جاتے ہیں۔ ان کے پاس اسلحے سے لیس تربیت یافتہ فوج کے علاوہ جنگی طیارے بھی ہیں۔ انہیں فرانس، مصر اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Monteforte
لیبیا کا تنازعہ اور مختلف ممالک کا کردار
خلیفہ حفتر کو فرانس کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور دوسری طرف ترکی حفتر کی شدید مخالفت اور طرابلس میں قائم حکومت کی کھل کر حمایت کر رہا ہے۔ حفتر کی فوج کے خلاف طرابلس حکومت کو ترکی نے ہتھیار بھی فراہم کیے تھے۔ حفتر کے حامیوں میں مصر اور متحدہ عرب امارات بھی ہیں۔ یورپی یونین اور فرانس کے درمیان لیبیا کے معاملے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/C. Liewig
طرابلس حکومت کے ساتھ شامل جنگجو گروپس
اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ طرابلس حکومت کو کئی جنگجو گروپوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان مسلح گروپوں نے خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی طرابلس پر چڑھائی کے خلاف ہونے والی مزاحمت میں حصہ لیا تھا۔ طرابلس کی فوج نے حفتر کے طرابلس پر حملے کو ناکام بنا دیا تھا۔
تصویر: AFP/M. Turkia
طرابلس کی حکومت اور فوج
لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت وزیراعظم فائز السراج کی قیادت میں سن 2015 سے قائم ہے۔ السراج نے امن کے قیام کے لیے کئی جنگجو گروپوں کو اپنا حلیف بنا رکھا ہے۔ اس حکومت کی فوج کے پاس سابقہ لیبین فوج کے بھاری ہتھیار اور اہلکار بھی موجود ہیں۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن، السراج حکومت کے کھلے حامی ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
قذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام
ڈکٹیٹر معمر القذافی کا زوال ایک منظم مسلح تحریک کے بعد ہوا لیکن اُس کے بعد اس تحریک میں شامل عسکری گروپوں کو منظم نہیں کیا جا سکا۔ ہر گروپ کے پاس وافر ہتھیار اور جنگجو موجود تھے۔ مختلف وقتوں پر انتخابات بھی ہوئے لیکن امن و استحکام قائم نہیں ہو سکا۔ اس دوران جہادی گروپ بھی لیبیا میں فعال ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Turkia
افریقی ممالک اور مصر
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے لیبیا اور سوڈان میں پیدا عدم استحکام کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے افریقی براعظم کے کئی ممالک کے سربراہان کو ایک سمٹ میں مدعو کیا۔ یہ سربراہ اجلاس رواں برس اپریل میں ہوا تھا۔ اس میں دونوں ملکوں میں جاری بحرانوں کو حل کرنے کے امور پر توجہ مرکوز کی گئی لیکن کوئی مناسب پیش رفت نہ ہو سکی۔
تصویر: Reuters/The Egyptian Presidency
غیر قانونی مہاجرین اور لیبیا
براعظم افریقہ کے کئی ملکوں کے کی سماجی و معاشی حالات کے تناظر میں بے شمار افراد یورپ پہنچنے کی خواہش میں ہیں۔ ان مہاجرین کی کشتیوں کو بحیرہ روم میں پکڑ کر واپس لیبیا پہنچایا جاتا ہے۔ لیبیا میں ان مہاجرین کو حراستی میں مراکز میں رکھا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک مرکز پر حفتر کے فضائی حملے میں درجنوں مہاجرین مارے گئے تھے۔