جرمنی: کل آبادی میں صرف دو لاکھ اضافے کی وجہ بھی تارکین وطن
17 جنوری 2020
جرمنی کی مجموعی آبادی میں گزشتہ برس کے دوران محض تقریباﹰ دو لاکھ کا معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور اس کی وجہ بھی صرف تارکین وطن ہی تھے۔ پچھلے سال کے اختتام پر جرمنی کی مجموعی آبادی آٹھ کروڑ بتیس لاکھ تھی۔
اشتہار
جرمن شہر ویزباڈن میں قائم وفاقی دفتر شماریات نے جمعہ سترہ جنوری کو جاری کردہ اپنے اعداد و شمار میں بتایا کہ 2019ء کے دوران ملک کی مجموعی آبادی میں جو اضافہ ہوا، وہ گزشتہ سات برسوں کے دوران ریکارڈ کیا جانے والا کم ترین سالانہ اضافہ تھا۔
ان تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2018ء کے اختتام پر جرمنی کی کل آبادی تقریباﹰ 83 ملین تھی، جو 2019ء کے آخر تک 0.2 ملین اضافے کے ساتھ 83.2 ملین ہو گئی تھی۔ وفاقی جرمن دفتر شماریات کے مطابق یہ اضافہ 2012ء سے لے کر اب تک ملک میں سالانہ بنیادوں پر ریکارڈ کیا گیا سب سے کم اضافہ بھی تھا۔
جرمنی یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور 2015ء میں لاکھوں کی تعداد میں پناہ کے متلاشی تارکین وطن جرمنی آئے تھے، جن میں اکثریت جنگ زدہ عرب ملک شام کے شہریوں کی تھی۔ تب سالانہ بنیادوں پر جرمنی کی مجموعی آبادی میں کافی زیادہ اضافہ ہوا تھا۔ مگر اس کے بعد سے گزشتہ چار برسوں کے دوران جرمنی پہنچنے والے تارکین وطن کی سالانہ تعداد مسلسل کم ہی ہوتی رہی ہے۔
شرح اموات شرح پیدائش سے زیادہ
تازہ ترین ڈیٹا کے مطابق جرمنی کی آبادی میں یہ بہت کم سالانہ اضافہ بھی صرف تارکین وطن کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یورپی یونین کے رکن اس سب سے بڑے ملک میں شرح پیدائش بہت ہی کم ہے۔ اتنی کم کہ 1972ء سے لے کر اب تک ہر سال انتقال کر جانے والے شہریوں کی تعداد نومولود بچوں کی اوسط سالانہ تعداد سے کہیں زیادہ رہتی ہے۔
یورپ میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ممالک
امریکی ریسرچ سنٹر PEW کے مطابق یورپ میں مسلم آبادی بڑھ رہی ہے۔ اس وقت یورپ میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 4.9 فیصد ہے جبکہ 2050ء تک یہ 7.5 فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔ یورپ کے کن ممالک میں مسلمانوں کی کتنی تعداد آباد ہے؟
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
فرانس: 57.2 لاکھ
تصویر: AP
جرمنی: 49.5 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
برطانیہ: 41.3 لاکھ
تصویر: picture-alliance/empics/D. Dawson
اٹلی: 28.7 لاکھ
تصویر: Getty Images for Les Benjamins/S. Alemdar
ہالینڈ: 12.1 لاکھ
تصویر: AP
اسپین: 11.8 لاکھ
تصویر: picture-alliance/AA/E. Aydin
بیلجیم: 8.7 لاکھ
تصویر: picture-alliance/dpa/F.Sadones
سویڈن: 8.1 لاکھ
تصویر: Getty Images/AFP/A. Wiklund
بلغاریہ: 7.9 لاکھ
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
یونان: 6.2 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
10 تصاویر1 | 10
اس طرح اگر جرمنی آنے والے تارکین وطن کی وجہ سے شرح پیدائش میں کچھ بہتری نہ آتی تو گزشتہ تقریباﹰ نصف صدی کے دوران جرمنی کی مجموعی آبادی واضح طور پر بہت کم ہو چکی ہوتی۔
1990ء میں جرمنی کے دوبارہ اتحاد کو اب تقریباﹰ تین عشرے ہونے کو ہیں۔ ان تین دہائیوں میں ملکی آبادی میں اکثر کچھ نہ کچھ اضافہ ہی ہوا ہے۔ صرف 1998ء اور 2003ء سے لے کر 2010ء تک کا عرصہ وہ ادوار تھے، جب ملکی آبادی بڑھنے کے بجائے کم ہوئی تھی۔
دفتر شماریات کے مطابق ملک میں بچوں کی اوسط شرح پیدائش اتنی کم ہے کہ ہر سال اوسطاﹰ شرح اموات شرح پیدائش سے زیادہ ہی رہتی ہے۔ 2019ء میں جرمنی میں کل تقریباﹰ سات لاکھ اسی ہزار بچے پیدا ہوئے جبکہ انتقال کر جانے والے شہریوں کی تعداد نو لاکھ تیس ہزار کے قریب رہی تھی۔
یوں گزشتہ برس جرمنی میں آباد جرمن شہریوں اور غیر جرمنوں کو ملا کر شرح پیدائش اور شرح اموات کے فرق کی وجہ سے ملکی آبادی میں کل تقریباﹰ ڈیڑھ لاکھ کی کمی ہوئی۔ آبادی میں ڈیڑھ لاکھ کی اس کمی کو دو لاکھ کے اضافے میں بدل دینے میں جرمنی میں رہائش پذیر تارکین وطن نے کلیدی کردار ادا کیا۔
م م / ع س (اے پی، ڈی پی اے)
جرمنی میں اسکول کا پہلا دن کیسا ہوتا ہے
بعض بچے انتہائی خوش تو کچھ خوفزدہ، مگر کوئی بھی بچہ اس سے بچ نہیں سکتا۔ جرمنی میں اسکول کا پہلا دن مختلف رسومات سے بھرپور ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض تو صدیوں پُرانی ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
تحائف سے بھری کون
جرمنی میں کسی بھی بچے کے اسکول کے پہلے دن کی سب سے اہم بات، ’شُول ٹیوٹے‘ یا اسکول کون ہوتی ہے۔ یہ ایک طرح کی علامت ہوتی ہے کہ اسکول میں بچے کے اگلے 12 یا 13 برسوں کا ہر ایک دن میٹھا رہے گا اور اس کے لیے تحائف لائے گا۔ یہ ایک ایسی روایت ہے جو انیسویں صدی کے آغاز سے چلی آ رہی ہے۔ مخروطی شکل کی گتے کی بنی اس بڑی سی کون میں تحفے، اسکول میں استعمال کی جانے والی چیزیں اور مٹھائیاں ہوتی ہیں۔
تصویر: imago/Kickner
ایک نئے مرحلے کا آغاز
اسکول کے پہلے سال کے پڑھائی کا آغاز اگست یا ستمبر میں ہوتا ہے اور داخلے کے لیے بچی کی عمر چھ سال ہونی چاہیے۔ ان کی اکثریت پہلے ہی ڈے کیئر سنٹر یا کنڈرگارٹن میں کچھ برس بِتا چکے ہوتے ہیں جو پبلک اسکول کا حصہ نہیں ہوتے اور نہ ہی ان میں پڑھنا لکھنا سکھایا جاتا ہے۔ جرمنی میں بہت سے بچوں اور والدین کے لیے بھی پہلا سال ایک نیا مرحلہ ہوتا ہے اور بہت مختلف بھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/S.Khan
ضرورت کے عین مطابق بستہ
اسکول کے پہلے دن سے قبل ہی والدین اپنے بچے کے لیے بیگ پیک یا کمر پر لادا جانے والا بستہ خریدتے ہیں جسے ’شول رانزن‘ کہا جاتا ہے۔ یہ عام طور پر چوکور شکل کا ہوتا ہے تاکہ اس میں نہ تو کاغذ یا کتابیں مڑیں اور نہ ہی کھانے کی چیزیں پھیلیں۔ بچوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ نئے ڈیزائن اور خوبصورت ترین بیگ پیک خریدیں۔ رواں برس ’اسٹار وار‘ کے ڈیزائن والے بیگ زیادہ مقبول ہیں جبکہ سپر مین ہمیشہ سے مقبول رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اسکول کے لیے ضروری اشیاء
چوکور شکل کے بستے کی خریداری کے بعد اسکول کے پہلے روز سے قبل ہی اس میں ڈالنے کے لیے چیزوں مثلاﹰ پینسلیں، پین، فٹے اور فولڈرز وغیرہ کی خریداری کا مرحلہ آتا ہے۔ جرمنی میں نو عمر طلبہ عام طور پر اسکول میں لنچ نہیں کرتے۔ اس کی بجائے بریک کے دوران کھانے کے لیے گھر پر تیار کردہ ہلکے پھلکے کھانے پینے کی چیزیں ساتھ لے جاتے ہیں اور اس کے لیے مناسب بوُکس یا ڈبے کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gentsch
زندگی بھر یاد رہنے والا دن
دنیا بھر میں ہی تقریباﹰ ہر بچے کی اسکول کے پہلے دن تصویر ضرور اُتاری جاتی ہے۔ جرمنی میں بچے اس موقع پر اپنے ’شُول ٹیوٹے‘ کے ساتھ تصویر بنواتے ہیں، جو بعض اوقات ان کے اپنے قد سے بھی بڑا ہوتا ہے۔ مگر بچوں کے لیے عام طور پر یہ مصروفیت ان کے اسکول کے پہلے دن کی سب سے اہم بات نہیں ہوتی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Hirschberger
دعاؤں کے ساتھ آغاز
جرمنی میں اسکول کا پہلا دن دراصل اسکول سے شروع نہیں ہوتا، بلکہ ایک خصوصی تقریب سے اس کا آغاز ہوتا ہے جس میں بچوں کے والدین اور دیگر رشتہ دار بھی مدعو ہوتے ہیں۔ چرچ میں دعائیہ تقریب بھی عام طور پر اس روایت کا حصہ ہوتی ہے تاکہ نیا تعلیمی سلسلہ شروع کرنے پر بچوں کو دعاؤں سے نوازا جائے۔ بعض اسکول مسلمان بچوں کے لیے بین المذاہب تقریب کا اہمتام بھی کرتے ہیں۔ مسلمان بچوں کے لیے چرچ جانا ضروری نہیں ہوتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تجربہ کار لوگوں کی طرف سے رہنمائی
تقریب کے دوران اسکول کی بڑی کلاسوں کے طلبہ یا اساتذہ کی طرف سے نئے آنے والے بچوں کو پرفارمنس کے ذریعے یہ بتایا جاتا ہے کہ اسکول کی مصروفیات کیا ہوں گی یا اسکول میں کن چیزوں کا خیال رکھنا ہے۔ بعض اسکولوں میں ہر نئے آنے والے بچے کو تیسری یا چوتھی کلاس کا ایک بچہ اپنے ساتھ لے جا کر کلاس رُوم وغیرہ دکھاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/P. Steffen
اسکول کی عمارت کا تعارفی دورہ
پہلے روز کی مصروفیات میں بچوں کو اسکول کی عمارت کا ایک تعارفی دورہ بھی شامل ہوتا ہے اور پہلی کلاس میں آنے والے بچوں کو ان کی کلاسیں بھی دکھائی جاتی ہیں۔ اس تصویر میں نئے آنے والے بچوں کے لیے کلاس میں خوش آمدید لکھا ہوا نظر آ رہا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/G. Kirchner
فیملی گیٹ ٹو گیدر
اسکول میں ہونے والی تقریب کے بعد خاندان اپنے طور پر اس اہم دن کو منانے کا اہتمام کرتے ہیں جس میں دادا، دادی، نانا، نانی، خاندان کے دیگر افراد اور دوستوں وغیرہ کو مدعو کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر خصوصی کھانے اور کیک وغیرہ تیار کیے جاتے ہیں۔ مہمان اور خاندان کے افراد کی طرف سے بچے کو تحائف بھی ملتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/R. Goldmann
اسکول کا دوسرا دن
اسکول کی تقریب، کیک اور خصوصی کھانوں وغیرہ اور ’شُول ٹیوٹے‘ کھولے جانے کے ساتھ ہی عموماﹰپہلا دن تمام ہوتا ہے۔ اسکول کے دوسرے دن پہلی کلاس میں آنے والے یہ بچے اپنا پہلا سبق شروع کرتے ہیں۔ جرمنی میں ایلیمنٹری اسکول پہلی سے چوتھی تک ہوتا ہے۔ جس کے بعد وہ اپنی کارکردگی کی بناء پر تین مختلف طرح کے اسکولوں میں سے کسی ایک میں چلے جاتے ہیں۔