1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

جرمنی کی مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے حل کے لیے کوششیں اب تیز تر

19 اکتوبر 2023

وزیر خارجہ بیئربوک کے تازہ دورے کا مقصد اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا اعادہ اور حماس پر یرغمالیوں کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنا ہے۔ ادھر جرمن وزیر دفاع نے لبنان میں اقوام متحدہ کی امن فوج میں شامل جرمن فوجیوں سے ملاقات کی ہے۔

Israel | Besuch Außenministerin Annalena Baerbock in Netivot
اینا لینا بئیربوک نے گزشتہ ہفتے اسرائیل کا دورہ کیا تھاتصویر: Ilia Yefimovich/dpa/picture alliance

جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک اسرائیل اور حماس کے مابین لڑائی کے پس منظر میں اردن، اسرائیل اور لبنان میں ہنگامی مذاکرات کے نئے ادوار کے لیے برلن سے روانہ ہو گئی ہیں۔ جمعرات کے روز اردن کے لیے روانگی سے قبل بیئربوک نے اسرائیل کو جرمن حکومت کی طرف سے یکجہتی کا یقین دلایا۔

وفاقی جرمن وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ لڑائی حماس کے ساتھ ہے، فلسطینی شہری آبادی کے ساتھ نہیں، جو اس تنازعے میں بہت زیادہ نقصان اٹھا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے دورےکا استعمال کرتے ہوئے فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے زیر قبضہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے دباؤ بھی ڈالنا چاہتی ہیں۔  غزہ میں حماس کے زیر قبضہ تقریباً 200 یرغمالیوں میں جرمن شہری بھی شامل ہیں۔

جرمن وزیر خارجہ اپنے مصری ہم منصب سمیع شکری کے ہمراہ تصویر: Ahmed Hasan/AFP

انالینا بیئربوک نے غزہ پٹی میں شہری آبادی کے لیےامداد کی فراہمی کو مربوط کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ میں انسانی بنیادوں پر امداد سے متعلقہ امور کے لیے ایک خصوصی ایلچی بھی مقرر کیا ہے۔ اسرائیل نے غزہ کا ''مکمل محاصرہ‘‘ کر کے اسے سیل کر رکھا ہے۔

جرمن وزیر خارجہ نے کہا کہ جرمنی غزہ کو انسانی بنیادوں پر جامع امداد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ جرمن شہریوں کے لیے جلد از جلد غزہ چھوڑنے کے طریقے تلاش کرنے کے لیے بھی پوری شدت سے کام کیا جا رہا ہے۔  برلن میں وفاقی دفتر خارجہ کا خیال ہے کہ سو سے زائد جرمن شہری غزہ پٹی کے علاقے میں موجود ہیں۔

اسرائیل نے دو ملین سے زائد کی آبادی والی اور انتہائی گنجان آباد  اس ساحلی پٹی کے لیے خوراک، پانی اور بجلی کی ترسیل منقطع کر رکھی ہے۔ اسرائیلی فورسزکی غزہ پر مسلسل فضائی بمباری سے سینکڑوں عمارتیں ملیا میٹ ہو چکی ہیں اور ہزاروں افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔

جرمن وزیر دفاع اپنے اسرائیلی ہم منصب کے ساتھتصویر: Tobias Schwarz/AFP/Getty Images

اسرائیلی فضائی بمباری کی یہ مہم اسرائیل پر سات اکتوبر کو حماس کے مربوط دہشت گردانہ حملوں کے جواب میں کی جا رہی ہے۔ حماس کے ان حملوں میں اسرائیل میں 1,400 سے زیادہ افراد مارے گئے تھے، جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ اسرائیل میں اس واقعے کو ملکی تاریخ کی بدترین تباہی قرار دیا گیا ہے۔

جرمن وزیر دفاع لبنان میں

جرمنی کے وزیر دفاع بورس پسٹوریئس نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری لڑائی کے تناظر میں اس خطے میں اقوام متحدہ کی امن فوج میں خدمات انجام دینے والے جرمن فوجیوں سے ملنے کے لیے جمعرات کو لبنان کا سفر کیا۔ جنوبی لبنان میں اقوام متحدہ کے امن مشن کے ہیڈ کوارٹر کے قریب سمندر میں ایک جنگی بحری جہاز پر تقریباً 140 جرمن فوجی تعینات ہیں۔ امن مشن کا یہ دفتر اتوار کو ایک راکٹ حملے کی زد میں آ گیا تھا، جس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔

برلن میں جرمن وزارت دفاع نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا، ''جنگی بحری جہاز اولڈن برگ پر وزیر دفاع نے فوجیوں کی کوششوں کا شکریہ ادا کیا اور انہیں اسرائیل اور غزہ کے مابین تنازعے کے خطے میں جرمن فوجیوں پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں آگاہ بھی کیا۔‘‘

جرمن چانسلر اولاف شولستصویر: Annegret Hilse/REUTERS

جرمنی میں سامیت دشمنی کی کوئی جگہ نہیں، شولس

جرمن چانسلر اولاف شولس نے جرمنی میں سامیت دشمنی کے ساتھ ساتھ اسرائیل دشمنی کے خلاف سخت حکومتی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ چانسلر شولس نے جمعرات کے روز برلن میں جرمنی کی وفاقی پارلیمان میں قانون سازوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے ایک ''واضح موقف‘‘ کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور کسی کو بھی دوسری طرف نہیں دیکھنا چاہیے۔

انہوں نے کہا، ''جرمنی میں سامیت دشمنی کی کوئی جگہ نہیں اور ہم اس کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ہم سب شہری ہونے کے حوالے سے اور سیاسی ذمہ داریاں اٹھانے والوں کی حیثیت سے بھی ایسا کریں گے۔‘‘ اولاف شولس نے کہا کہ جرمنی میں یہ معاملہ موجودہ ملکی قوانین اور ضوابط کو نافذ کرنے کا بھی ہے۔

وفاقی جرمن چانسلر کا کہنا تھا، ''حکام کو اس بارے میں واضح ہونا چاہیے اور ان تمام اجتماعات پر پابندی لگانا چاہیے، جہاں سامیت مخالف نعرے لگائے جانے کا خطرہ ہو، جہاں لوگوں کے قتل کی تعریف کی جا سکتی ہو اور جہاں دوسری چیزیں، جنہیں ہم یہاں قبول نہیں کر سکتے، وہ کی جا رہی ہوں۔‘‘

ش ر⁄ م م، ع ا (ڈی پی اے، روئٹرز)

غزہ کی جنگ کے سعودی اسرائیلی روابط پر اثرات

03:30

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں