جرمنی کے اتحاد کو تئیس سال ہو گئے
3 اکتوبر 2013آج جرمن قوم اپنے اتحاد کا دن بڑی گرمجوشی سے منا رہی ہے۔ جرمن تاریخ کے اس اہم دن کی مناسبت سے آج رنگا رنگ تقاریب کا انعقاد ہوا رہا ہے۔ جرمن اتحاد کا دن ہر سال کی طرح اس بار بھی بڑے زور و شور سے منایا جا رہا ہے۔ اس سال سب سے بڑی اور مرکزی تقریب کا انعقاد جنوبی شہر اشٹٹ گارٹ میں ہو رہا ہے۔ اس موقع پر اشٹٹ گارٹ کے ایک تاریخی کلیسا میں دعائیہ تقریب بھی منعقد ہوئی۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل، وفاقی صدر یوآخم گاؤک اور وفاقی پارلیمان کے اسپیکر نوربرٹ لامرٹ کے علاوہ متعدد دیگر اہم سیاسی شخصیات بھی اس تقریب میں شریک ہوئیں۔ جرمنی کے پروٹسٹنٹ چرچ اور کیتھولک کلیسا سے منسلک افراد بھی بڑی تعداد میں اپنے وطن کے دوبارہ اتحاد کی امسالہ سالگرہ کے موقع پر اس کلیسائی تقریب میں شریک ہوئے۔
ادھر دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے سیاسی گروپوں نے قوم پرستی اور سرمایہ دارانہ نظریات کے خلاف احتجاج کا اہتمام بھی کیا۔ اشٹٹ گارٹ میں دو احتجاجی ریلیوں کا اہتمام کیا گیا تھا جن کا مقصد سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت کا اظہار تھا۔
اشٹٹ گارٹ ہی میں ایک عوامی تقریب بھی منعقد ہو رہی ہے جس میں چار لاکھ تک افراد کی شرکت متوقع ہے۔ اس میں متحدہ جرمنی کے مشرق میں نئے وفاقی صوبوں اور مغرب میں پرانے وفاقی صوبوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے شہری حصہ لے رہے ہیں۔ اشٹٹ گارٹ کے ایک مرکزی علاقے میں تمام جرمن صوبوں کے اسٹالز لگائے گئے ہیں جن میں ہر صوبے کی مخصوص ثقافتی پہچان اپنے تمام تر رنگوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہے۔ اس علاقے میں پہنچ کر ایسے لگتا ہے جیسے دیکھنے والوں نے یکدم پورے جرمنی کی سیر کر لی ہو۔
’قوم تو ہم ہیں‘، یہ نعرہ لاکھوں جرمن باشندے 1989ء کے موسم خزاں کے ایک پیر کو منعقد ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں لگا رہے تھے، اس وقت کی جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک کے جنوب میں واقع اُم البلاد کہلانے والے لائپزگ میں۔ یہ مظاہرین سوشلسٹ نظام حکومت کا خاتمہ چاہتے تھے۔ اسی سال نومبر میں دیوار برلن گرا دی گئی اور پھر 3 اکتوبر 1990ء کو جی ڈی آر کی پوری ریاست ماضی کا حصہ بن گئی۔
جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک کے شہریوں کو سب سے زیادہ تکلیف اس بات پر تھی کہ انہیں مغربی حصے کی وفاقی جرمن ریاست کے کسی بھی شہری سے رابطے کی اجازت نہیں تھی۔ تب مشرقی اور مغربی جرمن باشندوں کے مابین رابطوں پر سخت پابندی تھی۔ اب جبکہ دونوں طرف کے جرمن شہریوں کو دوبارہ متحد ہوئے 23 سال گزر چکے ہیں، بہت سے ذہنوں میں اب بھی دیوار برلن کھڑی ہے، اطراف کے عام شہریوں کے درمیان فکری، معاشی اور سیاسی فاصلے اب بھی موجود ہیں۔ اس امر کی بہت سی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ نئے مشرقی صوبوں اور پرانے مغربی صوبوں کے شہریوں کے عمومی معیار زندگی میں پایا جانے والا فرق ہے۔