جرمنی کے لیے ہیلتھ کیئر نظام کو تارکین وطن کی تلاش
9 نومبر 2025
دنیا کے بہت سے ممالک کی طرح جرمنی کو لیبر شارٹیج کا سامنا ہے۔ محققین اس رجحان کو بیان کرنے کے لیے ایک نئی اصطلاح متعارف کرائی ہے، جسے بین الاقوامی مائیگریشن انڈسٹری کا نام دیا گیا ہے۔ تو کیا جرمنی تارکین وطن ورکز کے لیے پرکشش بھی ہے؟
گزشتہ چند برسوں کے دوران جرمنی میں معمر افراد اور مریضوں کی دیکھ بھال کے شعبے میں کام کرنے کے لیے تین لاکھ سے زیادہ افراد اپنے آبائی وطن چھوڑ کر یہاں آ چکے ہیں۔ یہ رجحان بظاہر جرمنی کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ اُن نرسوں اور ہیلتھ ورکرز کے لیے بھی اتنا ہی سودمند ہے جنہوں نے اپنے وطن، خاندان اور ثقافت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے؟
بھرتیوں کا ایک نیا نظام
جنوبی جرمنی کی یونیورسٹی آف ایرلانگن نیورمبرگ سے تعلق رکھنے والے جیوگرافر اسٹیفن کورڈیل کے مطابق، 'ہیلتھ کیئر کے شعبے میں ہنر مند کارکنوں کی نقل مکانی اب ایک انتہائی پیشہ ورانہ عمل بن چکی ہے۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ سرکاری و نجی شعبے، حتیٰ کہ انفرادی نرسنگ ہومز بھی، نرسنگ کے عملے اور تربیت یافتہ افراد کو اپنی جانب راغب کرنے کی مسلسل جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔
ان کے ساتھی ٹوبیاس ویڈنگر اس عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں، ''کچھ کمپنیاں بھرتی کرنے والی ایجنسیوں سے کہتی ہیں کہ اگلے تربیتی سال کے لیے ہمیں پانچ تارکین وطن چاہییں۔ اگر ان میں سے کوئی واپس چلا جائے تو ایجنسی فوراً نیا ورکر فراہم کر دیتی ہے۔‘‘
’مہاجرین کے بغیر یہ نظام منہدم ہو جائے گا‘
جرمن فیڈرل ایمپلائمنٹ ایجنسی کے مطابق، نرسنگ ہومز میں تمام نرسنگ اسٹاف میں سے تقریباً ایک تہائی غیر ملکی شہری ہیں۔ اگر پورے ہیلتھ کیئر سیکٹر کو دیکھا جائے تو ہر پانچ میں سے ایک شخص بیرونِ ملک سے آیا ہے۔ یہ رجحان بڑھ رہا ہے، مگر خطرہ یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے ملازمین اب ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں، جو باقی رہ جائیں گے، ان پر اضافی کام کا بوجھ بڑھنے سے وہ پیشہ چھوڑنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔
ایرلانگن نیورمبرگ کی فریڈرش آلیگزانڈر یونیورسٹی کے محققین نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ تارکین وطن کا پس منظر رکھنے والے افراد کے لیے نرسنگ کی جاب کو پرکشش کیسے بنایا جائے۔ انہوں نے اس پر ایک تحقیق کی۔ اس تحقیق کے لیے انہوں نے نرسوں، ہسپتالوں کے مینیجرز، نگہداشت کے مراکز کے منتظمین، لینگوئج اسکولوں اور ایجنسیوں کے نمائندوں سے گفتگو کی۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ ان افراد کے لیے اس شعبے کو ایک خوش آئند اور طویل المدتی کیسے بنایا جائے۔
رنگین بروشرز اور حقیقی زندگی میں فرق
اسٹیفن کورڈیل کہتے ہیں کہ برلن خوبصورت ہے، ہائیڈلبرگ رومانوی ہے، یہ وہ وعدے ہیں جو رنگین بروشرز پر درج کیے جاتے ہیں۔ لیکن حقیقت اکثر اس سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ کئی نرسیں جرمنی کے دیہی علاقوں میں پہنچتی ہیں جہاں زندگی بروشر میں دکھائے گئے خوابوں کے برعکس ہوتی ہے۔ کچھ کو مناسب رہائش نہیں ملتی، کچھ کو جرمن زبان سیکھنے میں دشواری پیش آتی ہے۔
فلپائن، انڈیا، انڈونیشیا اور تیونس جیسے ممالک کے لیے ٹرپل وِن پروگرامز متعارف کرائے گئے ہیں، جن کا مقصد یہ ہے کہ تینوں فریقین، یعنی جرمنی، بھرتی کرنے والی ایجنسی اور نرس سب کو برابر فائدہ پہنچے گا۔
لیکن زمینی حقیقت مختلف ہے۔ کورڈیل کے مطابق، کچھ نرسیں بھاری فیسیں ادا کرتی ہیں، یہاں تک کہ 12 ہزار یورو تک، انہیں قرض لینا پڑتا ہے اور پھر جرمنی آ کر قرض اتارنے کے لیے دوسری نوکری بھی کرنی پڑتی ہے۔
بہت سے ممالک میں نرسنگ ایک یونیورسٹی ڈگری کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ لیکن جرمنی میں یہ پیشہ ورانہ تربیت کا حصہ ہے۔
یہ فرق بھی کئی بار غلط فہمیوں کو جنم دیتا ہے۔ فلپائن سے تعلق رکھنے والی ایک نرس کہتی ہیں، ''میرے ملک میں ہم آئی ویزا لگاتے ہیں، دوا کا خیال رکھتے ہیں، کیتھیڈر لگاتے ہیں اور وہ سب کرتے ہیں جو ایک نرس کی ذمہ داری ہوتی ہے ہمیں صرف مریضوں کو نہلانے یا کھانا دینے کے لیے رکھا جاتا ہے۔ میں سمجھ نہیں پاتی کہ ایسا کیوں ہے۔‘‘
جرمن زبان سیکھنے اور کام کا بوجھ
اس ضمن میں جرمن زبان بھی ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والی ایک نرس کا کہنا ہے، ''مجھے شام کو جرمن پڑھنی ہوتی ہے۔ ہفتے کے آخر میں امتحان کی تیاری کرنی ہوتی ہے۔ لیکن دن میں کام اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ پڑھائی کے لیے توانائی ہی نہیں بچتی۔‘‘زبان نہ آنے کی وجہ سے کچھ نرسوں کے لیے اپنے ساتھیوں یا مریضوں کو اپنی بات سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے، جس سے وہ خود کو الگ تھلگ محسوس کرتی ہیں۔
تعلق، قبولیت اور پائیداری
ایرلانگن نیورمبرگ یونیورسٹی کی ٹیم کے مطابق، نرسوں کی اپنے ادارے اور اس ملک سے طویل المدتی وابستگی صرف اچھی تنخواہ پر منحصر نہیں بلکہ اس بات پر بھی ہے کہ انہیں ٹیم کا حصہ سمجھا جاتا ہے یا نہیں۔ جہاں ادارے رہائش، رہنمائی اور سماجی انضمام کے پروگرام فراہم کرتے ہیں، وہاں ملازمین زیادہ دیر تک رہنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔
کچھ ہسپتالوں نے اب 'بڈی سسٹم‘ متعارف کرایا ہے۔ جس میں تجربہ کار نرسیں نئے آنے والوں کو کام کے ساتھ ساتھ جرمن زبان، ثقافت اور طرزِ زندگی سیکھنے میں مدد کرتی ہیں۔
نئی پالیسی کی ضرورت
ماہرین کے مطابق، اگر جرمنی اپنے ہیلتھ کیئر نظام کو مضبوط رکھنا چاہتا ہے تو اسے انسانی نقطہ نظر کو ذہن میں رکھ کر پالیسی ترتیب دینا ہوگی۔ جیسا کہ ایک تحقیق میں کہا گیا ہے، ''اگر ہم انہیں محض لیبر فورس کے طور پر دیکھیں گے، انسان کے طور پر نہیں، تو وہ یہاں زیادہ دیر نہیں رہیں گے۔‘‘ پائیدار حل تبھی ممکن ہے جب جرمنی ان مہاجر نرسوں کو نہ صرف کام بلکہ زندگی اور معاشرے کے حصے کے طور پر قبول کرے۔
نتیجہ
جرمنی کے لیے ہیلتھ کیئر کے لیے 'غیر ملکی نرسیں‘ ناگزیر ہیں۔ لیکن جرمنی کو ان کے لیے صرف ایک روزگار کی منزل نہیں بلکہ ایک نیا گھر بننے کی ضرورت ہے۔ اگر ان کی ضروریات کو سمجھا جائے اور ان کے لیے سازگار ماحول بنایا جائے تو یہ "میڈیکل مائیگریشن" سب کے لیے ایک وِن ونِ سچوئشن ثابت ہو سکتی ہے۔