جرمنی کے پیچیدہ پبلک براڈکاسٹنگ سسٹم کو سمجھا کیسے جائے؟
21 اگست 2022
جرمنی میں ریاست کے اپنے انتظام میں کام کرنے والا کوئی بھی ٹیلی وژن یا ریڈیو اسٹیشن نہیں ہے اور سبھی نشریاتی ادارے یا تو پبلک براڈکاسٹر ہیں یا پھر نجی شعبے کے میڈیا ہاؤسز۔ اس بارے میں بحث کہ جرمن پبلک براڈکاسٹنگ سسٹم کو کیسے چلایا جانا چاہیے، اس وقت اور بھی شدید ہو گئی جب حال ہی میں برلن سے کام کرنے والے نشریاتی ادارے آر بی بی کی سابقہ سربراہ پیٹریشیا شلیزنگر سے متعلق ایک بڑا سسکینڈل سامنے آیا۔
یہ اسکینڈل اس بارے میں تھا کہ RBB کی سابقہ خاتون سربراہ شلیزنگر نے مبینہ طور پر نہ صرف اپنے شوہر کے لیے مالی طور پر ایک بہت پرکشش کنسلٹنسی معاہدے کے لیے سہولت کاری کی بلکہ اپنی نجی رہائش گاہ سے آرڈر کیے جانے والے بہت مہنگے کھانوں کے لیے ادائیگیاں بھی اپنے اس نشریاتی ادارے کی رقوم سے کیں، جس کے لیے مالی وسائل عام شہری ریڈیو اور ٹی وی لائسنس کی مد میں ادائیگیوں کی صورت میں مہیا کرتے ہیں۔
عوامیت پسند سیاست دانوں کا مطالبہ
یہ کرپشن اسکینڈل اتنا بڑا اور پبلک براڈکاسٹرز کے لیے اتنا تباہ کن ثابت ہوا کہ کئی عوامیت پسند سیاست دانوں کو اپنے پسندیدہ موضوع کو دوبارہ اچھالنے کا موقع مل گیا اور انہوں نے ایک بار پھر یہ کہنا شروع کر دیا کہ جرمن پبلک براڈکاسٹرز عوامی رقوم کا بہت زیادہ اور بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ انتہائی دائیں بازو کی عوامیت پسند سیاسی جماعت متبادل برائے جرمنی یا اے ایف ڈی نے تو فوری طور پر یہ بھی کہہ دیا کہ جرمن پبلک براڈکاسٹرز کے موجودہ نظام میں اصلاحات ممکن ہی نہیں اور اس نظام کو کوڑے دان میں ڈال دینا چاہیے۔
جرمنی کی چند قدرے اعتدال پسند سیاسی جماعتیں بھی پبلک براڈکاسٹنگ کے موجودہ نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ وفاقی چانسلر اولاف شولس کی قیادت میں موجودہ مخلوط حکومت میں شامل ایک چھوٹی جماعت، ترقی پسندوں کی فری ڈیموکریٹک پارٹی نے تو گزشتہ برس ہی ایک پارٹی قرارداد منظور کرتے ہوئے یہ مطالبہ کر دیا تھا کہ عوامی شعبے کے ان جرمن ریڈیو اور ٹی وی اداروں کی تعداد کم کی جانا چاہیے۔ یہ تجویز بعد میں موجودہ حکومت کے قیام کی وجہ بننے والے مخلوط حکومتی معاہدے کی دستاویز کا حصہ نہیں بن سکی تھی اور جرمن صحافیوں کی کئی تنظیموں نے بھی اس مطالبے کو بہت پاپولسٹ قرار دے دیا تھا۔
فی گھرانہ ماہانہ فیس کتنی؟
جرمنی میں مجموعی طور پر 21 ٹی وی چینلز اور 83 ریڈیو اسٹیشن ایسے ہیں، جو زیادہ تر ان عوامی رقوم سے ہی چلائے جاتے ہیں جو عام ناظرین اور سامعین سالانہ لائسنس فیس کے طور پر ادا کرتے ہیں۔ اس وقت اس فیس کی مالیت 18.36 یورو ماہانہ ہے، جو ہر جرمن گھرانے کو ادا کرنا ہوتی ہے۔ اس طرح سالانہ آٹھ ارب یورو سے زائد کے مالی وسائل جمع ہوتے ہیں، جنہیں یہی سب پبلک براڈکاسٹرز مل کر استعمال کرتے ہیں۔
جرمنی کا بین الاقوامی نشریاتی ادارہ ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) بھی تکنیکی طور پر اسی پبلک براڈکاسٹنگ سسٹم کا حصہ ہے مگر چونکہ اس کے دنیا کی درجنوں زبانوں میں پروگرام اندرون ملک کے بجائے بیرونی دنیا کے لیے ہوتے ہیں، اس لیے ڈی ڈبلیو کو اس کے مالی وسائل عوام کی ادا کردہ لائسنس فیس سے نہیں بلکہ وفاقی حکومت کی طرف سے براہ راست مہیا کیے جاتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کی کارکردگی کا نگران ادارہ وفاقی جرمن پارلیمان کی قائم کردہ وہ کونسل ہے جو ڈی ڈبلیو کی براڈکاسٹنگ کونسل کہلاتی ہے۔
زیادہ تر علاقائی موضوعات
جرمنی کے پبلک براڈکاسٹنگ سسٹم میں پائے جانے والے بہت زیادہ تنوع کی وجہ یہ ہے کہ یہ نظام بنیادی طور پر علاقائی نوعیت کا ہے اور اس میں شامل نشریاتی ادارے اپنے پروگراموں میں اپنے اپنے علاقوں کی کوریج کو فوقیت دیتے ہیں۔ یہ نظام دوسری عالمی جنگ کے بعد تشکیل دیا گیا تھا۔ اس میں ماضی کی، مغربی حصے پر مشتمل جرمن ریاست، وفاقی جمہوریہ جرمنی پر قابض مغربی طاقتوں نے بھی کلیدی کردار ادا کیا تھا اور مختلف نشریاتی ادارے مختلف فوجی طاقتوں کے زیر اثر مغربی جرمن خطوں میں قائم کیے گئے تھے۔
گزشتہ برس جرمنی میں 83 صحافیوں پر حملے ہوئے
مثال کے طور پر WDR نامی نشریاتی ادارہ جس صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں قائم کیا گیا، وہ برطانوی فوجی زون کا حصہ تھا۔ جنوب مغربی جرمنی میں قائم کردہ SWF جس خطے کے لیے اپنی نشریات پیش کرتا ہے، وہ ماضی میں فرنچ ملٹری زون تھا۔ اسی طرح چار عوامی نشریاتی ادارے BR باویریا کے لیے، SDR جنوبی جرمنی کے لیے، HR وفاقی صوبے ہیسے کے لیے اور RB بریمن کے لیے جس پورے علاقے میں قائم کیے گئے تھے، وہ ماضی کی مغربی جرمن ریاست میں امریکی فوج کے زیر انتظام خطہ تھا۔
دوبارہ اتحاد کے بعد مزید تنوع
بعد کے برسوں میں اس نظام میں مسلسل اصلاحات لائی جاتی رہیں اور ان نشریاتی اداروں کا انتظام بھی بتدریج جرمنوں کو منتقل کیا جاتا رہا۔ یہ اسی مسلسل تبدیلی کا نتیجہ تھا کہ 1954ء میں جرمن پبلک براڈکاسٹرز کا ایک مشترکہ چینل اے آر ڈی یا فرسٹ جرمن براڈکاسٹنگ چینل کے طور پر شروع کیا گیا۔
پھر 1961ء میں جرمن پبلک ٹیلی وژن کا دوسرا چینل زیڈ ڈی ایف بھی شروع کر دیا گیا۔ ان دونوں چینلز کی خاص بات یہ ہے کہ یہ دونوں ہی اپنی نشریات میں ملک گیر اہمیت کے حامل موضوعات اور پروگرام شامل کرتے ہیں اور ان میں علاقائی اہمیت کے پروگرام نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔
دیوار برلن گرائے جانے کے تقریباﹰ ایک سال بعد 1990ء میں جب دونوں جرمن ریاستوں کا اتحاد عمل میں آیا، تو ملک کے پبلک براڈکاسٹنگ نیٹ ورک میں نئے ادارے بھی شامل کر لیے گئے، جن کا تعلق سابقہ مشرقی جرمنی کے ان ریاستی علاقوں سے تھا جنہیں تب سیاسی طور پر 'نئے جرمن علاقے‘ کہا جا رہا تھا۔ اس طرح موجودہ وفاقی جمہوریہ جرمنی میں پبلک براڈکاسٹنگ کا نظام مزید متنوع ہو گیا تھا۔
مالیاتی کم امیدی کی نئی لہر
جرمنی میں پبلک براڈکاسٹنگ اداروں کے لیے عوامی شعبے کی طرف سے مالی وسائل کی فراہمی عشروں سے ایک اہم موضوع رہی ہے۔ اکثر یہ کہا جاتا رہا ہے کہ بہت سے نشریاتی ادارے اپنے مشہور ٹی پروگراموں کی صرف ایک ایک قسط یا ایک ایک شو کی ریکارڈنگ پر ہی ایک لاکھ یورو تک خرچ کر دیتے تھے۔
جرمن فیڈریشن آف جرنلسٹس (DJV) کے ترجمان ہینڈرک سوئرنر نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ‘‘ایک بات تو طے ہو چکی ہے۔ وہ یہ کہ جرمنی میں اب کوئی بھی یہ ضمانت نہیں دے سکتا کہ ملک کے پبلک براڈکاسٹرز کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کا موجودہ نظام اور طریقہ کار آئندہ بھی اسی طرح کام کرتے رہیں گے۔‘‘
پبلک براڈکاسٹرز پر عوامی اعتماد
جرمنی کی مائنز یونیورسٹی کی طرف سے گزشتہ پانچ سال سے جاری ایک مسلسل تحقیق اور اس تحقیق کے ہر سال جاری کیے گئے نتائج کے مطابق جرمن عوام کی 70 فیصد تعداد ملکی پبلک براڈکاسٹرز کے بارے میں یہ یقین رکھتی ہے کہ ان کی طرف سے فراہم کردہ معلومات قابل اعتماد ہوتی ہیں۔
یہ درست ہے کہ پبلک براڈکاسٹرز اگر صرف اپنے پیشہ وارانہ معیار ہی کو یقینی بناتے ہوئے قطعی غیر جانبدار بھی رہیں تو عوام کی اکثریت بھلا ان پر اعتماد کیوں نہیں کرے گی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ پچھلے پانچ سال کے دوران جرمن عوام کی 65 سے لے کر 72 فیصد تک تعداد کا کہنا یہی رہا ہے کہ انہیں ان عوامی نشریاتی اداروں اور ان کی فراہم کردہ معلومات پر اعتماد ہے۔
ہینڈرک سوئرنر کے مطابق، ''صحافی غیر جانب دار ہوں گے، اور صحافت معیاری ہو گی، تو عوام نشریاتی اداروں پر اعتماد بھی کریں گے۔‘‘
م م / ع ا (بینجمن نائٹ)