جرمنی: ’ہتھیاروں میں استعمال ہونے والے کیمیکل شام بھیجے گئے‘
26 جون 2019
ایک رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کی عائد کردہ پابندیوں کے باوجود جرمنی سے ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہو سکنے والے کیمیائی مادے جنگ زدہ ملک شام بھیجے گئے تھے۔ یہ مادے سارین گیس کی تیاری میں استعمال ہو سکتے ہیں۔
اشتہار
جرمن اخبار 'زُوڈ ڈوئچے سائٹُنگ‘ کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق جرمن صنعتی اداروں نے کئی برسوں سے خانہ جنگی کے شکار ملک شام پر یورپی یونین کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کی مبینہ خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسے برآمدی کیمیائی مادے شام بھیجے تھے، جن سے کیمیائی ہتھیار بنائے جا سکتے تھے۔
منگل پچیس جون کو شائع ہونے والی اس اخباری رپورٹ کے مطابق یہ حقیقت جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کے تین میڈیا ہاؤسز کی مشترکہ طور پر کی گئی چھان بین کے نتیجے میں سامنے آئی۔ یہ میڈیا ادارے جرمن اخبار 'زُوڈ ڈوئچے ساٹئُنگ‘، جرمن پبلک براڈکاسٹر 'بائریشر رُنڈفُنک‘ اور سوئس میڈیا گروپ 'ٹامیڈیا‘ تھے۔
رپورٹ کے مطابق یہ کیمیائی مادے جرمنی کی وسیع پیمانے پر کیمیکلز کا کاروبار کرنے والی کمپنی 'برَینٹاگ اے جی‘ نے سوئٹزرلینڈ میں بنائی گئی اپنی ایک ذیلی کمپنی کے ذریعے 2014ء میں شام کو بیچے اور ان میں 'آئسوپروپانول‘ اور 'ڈائی ایتھائل ایمین‘ جیسے کیمیائی مادے بھی شامل تھے۔ مزید یہ کہ یہ جرمن ساختہ کیمیکلز ایک ایسی شامی دوا ساز کمپنی کو بیچے گئے، جو دمشق میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے بہت قریب تھی۔
اس تحقیقی میڈیا رپورٹ سے یہ بات بھی پتہ چلی کہ ان کیمیکلز میں سے 'ڈائی ایتھائل ایمین‘ جرمنی کی بہت بڑی کیمیکلز کمپنی BASF کی طرف سے بیلجیم کے شہر اَینٹ وَریپ میں اس کے ایک کارخانے میں تیار کیا گیا تھا۔ اسی طرح 'آئسوپروپانول‘ نامی کیمیائی مادہ شمالی جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں 'ساسول سالوَینٹس‘ نامی کمپنی کا تیار کردہ تھا۔
ان کیمیکلز کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ اگرچہ انہیں مختلف ادویات کی تیاری میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم ان سے ایسے کیمیائی ہتھیار بھی تیار کیے جا سکتے ہیں، جن میں 'وی ایکس‘ اور سارین نامی اعصابی گیسیں بھی شامل ہیں۔ جہاں تک سارین گیس کا تعلق ہے تو یہ کیمیائی ہتھیار شامی خانہ جنگی کے دوران اسد حکومت کی طرف سے اب تک متعدد حملوں کے لیے استعمال کیا جا چکا ہے۔
خان شیخون میں کیمیائی حملہ
سن 2017ء میں اقوام متحدہ کے ماہرین نے پتہ چلایا تھا کہ شامی حکومت نے اپنے جنگی مخالفین کے خلاف کیمیائی ہتھیار کے طور پر جو سارین گیس استعمال کی تھی، وہ 'آئسوپروپانول‘ ہی کو استعمال کرتے ہوئے بنائی گئی تھی۔ اسی گیس کی مدد سے کیے جانے والے ایک حملے میں خان شیخون کے قصبے میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
شام میں حملے کیسے کیے گئے؟
امریکا، برطانیہ اور فرانس نے شام پر دمشق کے نواحی قصبے دوما میں کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال پر فضائی حملے کیے۔ اس پورے معاملے کو تصاویر میں دیکھیے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Ammar
کیمیائی ہتھیاروں کے مراکز پر حملے
امریکا، فرانس اور برطانیہ نے شامی دارالحکومت دمشق اور حمص شہر میں کیمیائی ہتھیاروں کے حکومتی مراکز کو نشانہ بنایا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Ammar
برطانوی لڑاکا طیارے ٹورناڈو
امریکا، فرانس اور برطانیہ کی جانب سے میزائلوں کے علاوہ لڑاکا طیاروں نے بھی اپنے اہداف کو نشانہ بنایا۔ حکام کے مطابق اس پورے مشن میں شریک تمام طیارے اپنی کارروائیاں انجام دینے کے بعد بہ حفاظت لوٹ آئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Matthews
کیمیائی حملے پر سخت ردعمل
امریکا، فرانس اور برطانیہ نے دوما میں مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا موثر جواب دیا جائے گا تاکہ مستقبل میں ایسے حملے نہ ہوں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Matthews
کیمیائی ہتھیاروں کا تحقیقی مرکز تباہ
یہ تصویر دمشق کے نواح میں قائم اس تحقیقی مرکز کی ہے، جہاں امریکی حکام کے مطابق کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق تحقیق جاری تھی۔ اس عمارت پر کئی میزائل لگے اور یہ عمارت مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
کوئی شخص ہلاک یا زخمی نہیں ہوا
امریکی حکام کے مطابق ان حملوں میں کسی شخص کے ہلاک یا زخمی ہونے کی اطلاعات نہیں ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان حملوں کا مقصد شامی حکومت گرانا نہیں بلکہ اس کی کیمیائی ہتھیاروں کی صلاحیت پر وار کرنا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Ammar
سلامتی کونسل منقسم
ان حملوں کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا، جس میں روس کی جانب سے ان حملوں کی مذمت سے متعلق قرارداد پیش کی گئی، جسے سلامتی کونسل نے مسترد کر دیا۔ شام کے موضوع پر سلامتی کونسل میں پائی جانے والی تقسیم نہایت واضح ہے۔
تصویر: picture alliance/Xinhua/L. Muzi
تحمل سے کام لینے کی اپیل
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے سلامتی کونسل کے رکن ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ اشتعال انگیزی کی بجائے تحمل کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے دوما میں کیمیائی حملے کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ شامی تنازعے کا واحد حل سیاسی مذاکرات سے ممکن ہے۔
تصویر: Reuters/E. Munoz
روس کی برہمی
شام پر امریکی، فرانسیسی اور برطانوی حملوں پر روس نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ’ناقابل‘ قبول قرار دیا۔ اس سے قبل روس نے دھمکی دی تھی کہ اگر شام میں تعینات کوئی روسی فوجی ان حملوں کا نشانہ بنا، تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
تصویر: Reuters/E. Munoz
جرمنی عسکری کارروائی کا حصہ نہیں بنا
جرمن حکومت نے شام میں عسکری کارروائی کا حصہ نہ بننے کا اعلان کیا۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے تاہم کہا کہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر امریکا، برطانیہ اور فرانس کی یہ کارروائی قابل فہم ہے۔ جرمنی اس سے قبل عراق جنگ میں بھی عسکری طور پر شامل نہیں ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappe
امریکی فورسز تیار ہیں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان حملوں کی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مستقبل میں شامی فورسز نے دوبارہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا، تو امریکی فورسز دوبارہ کارروائی کے لیے ہردم تیار ہوں گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ngan
10 تصاویر1 | 10
اسی دوران ان جرمن کیمیکلز کمپنیوں میں سے 'برَینٹاگ اے جی‘ نے تصدیق کر دی ہے کہ اس نے اپنی ایک سوئس ذیلی کمپنی کے ذریعے شام کو یہ کیمیکلز مہیا کیے تو تھے لیکن ایسا 'اس دور کے قوانین کے عین مطابق‘ کیا گیا تھا۔
شامی خانہ جنگی کی وجہ سے یورپی یونین کی طرف سےعائد کردہ پابندیوں کے مطابق 2012ء سے شام کو 'ڈائی ایتھائل ایمین‘ کی فراہمی کے لیے اور 2013ء سے 'آئسوپروپانول‘ کی برآمد کے لیے بھی قبل از وقت سرکاری اجازت درکار ہوتی ہے۔
سرکاری چھان بین
جرمن صوبے ہَیسے میں ریاستی دفتر استغاثہ کی طرف سے کہا گہا ہے کہ وہ شام کو ان کیمیائی مادوں کی برآمد کی غیر رسمی چھان بین کر رہا ہے اور یہ بات ابھی زیر غور ہے کہ آیا اس موضوع پر باقاعدہ مجرمانہ نوعیت کے الزمات کے تحت تفتیش کی جانا چاہیے۔ اسی طرح بیلجیم میں بھی حکام نے کہا ہے کہ وہ شام کو ان کیمیکلز کی فراہمی کے معاملے کی چھان بین کر رہے ہیں۔
ریبیکا اشٹاؤڈن مائر / م م / ع ا
شام میں کیمیائی حملے، کب اور کہاں
شام میں گزشتہ آٹھ سال سے جاری خانہ جنگی کے دوران اس ملک میں کئی بار کیمیائی حملے کیے گئے ہیں۔ اب تک اس ملک میں ایسے بڑے حملے کیمیائی حملےکب ہوئے، جانتے ہیں اس تصویری گیلری میں۔
تصویر: picture alliance/dpa/AA/M. Abdullah
19 مارچ 2013ء
حکومت کے زیر کنٹرول علاقے خان الاصل میں اعصاب شکن گیس کے حملے میں ایک درجن سے زائد فوجیوں سمیت 26 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کا ذمہ دار کون تھا، اس بات کا تعین نہیں کیا جا سکا کیونکہ حکومت اور باغی دونوں اس حملے کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرتے رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hamed
21 اگست 2013ء
دمشق کے قریب باغیوں کے زیر قبضہ علاقے غوطہ میں ہوئے ایک کیمیائی حملے میں اطلاعات کے مطابق 14 سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
تصویر: picture alliance/AA/I. Ebu Leys
25 اگست ء2013
غوطہ میں ہوئے مبینہ طور پر ہوئے کیمیائی حملے کا الزام حکومت پر عائد کیا گیا جس کے جواب میں شامی حکومت نے حملے کی تحقیقات کرنے کے لیے اقوام متحدہ کو اجازت دینے کا اعلان کیا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/A. Safarjalani
27 ستمبر 2013ء
اقوام متحدہ کے سکیورٹی کونسل نے شام کو اپنے کیمیائی ہتھیاروں کے زخیرے کو تلف کرنے حکم دیا اور ساتھ ہی دھمکی بھی دی کہ اگر ان احکامات پر عمل نہ کیا گیا تو ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Emmert
6 اکتوبر 2013ء
کیمیائی ہتھیاروں کی مذاحمت کار تنظیم ) او پی سی ڈبلیو( اور اقوام متحدہ کی ٹیم کے مطابق شام نے اپنے کیمیکل ہتھیار تلف کرنا شروع کر دیے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ANP/dpa/E. Daniels
23 جون 2014ء
او پی سی ڈبلیو کے مشن نے دعویٰ کیا کہ شام سے مکمل طور پر کیمیائی ہتھیاروں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
10 ستمبر 2014ء
او پی سی ڈبلیو کے مطابق اس برس کے آغاز میں ملک کے شمال مغربی صوبے ادلب میں ہوئے کیمیائی حملے میں کلورین استعمال کیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Dirani
3 مارچ 2017ء
او پی سی ڈبلیو کے مطابق وہ 2017ء کی ابتدا سے مبینہ طور پرکیے گئے زہریلی گیسوں کے آٹھ حملوں کے الزامات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Badra
4 مارچ 2017ء
انسانی حقوق کی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ادلب صوبے میں باغیوں کے زیر قبضہ ایک علاقے پر ایک مرتبہ پھر مبینہ طور پرکیمیائی حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 88 افراد ہلاک ہوئے
تصویر: picture-alliance/abaca/S. Mahmud Leyla
30 جون 2017ء
او پی سی ڈبلیو نے اس بات کی تصدیق کی کہ چار اپریل کو ادلب میں کیا گیا حملہ کیمیائی نوعیت کا تھا تاہم یہ تعین نہیں کیا جا سکا کہ اس کا اصل ذمہ دار کون تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/I. Ebu Leys
7 اپریل 2018ء
دمشق کے قریب واقع علاقے دوما میں کیے گئے حملے کے بارے میں یہ ہی شکوک ہیں کہ یہ کلورین کیمیکل کا حملہ تھا جس کے نتیجے میں کئی درجن افراد ہلاک ہوئے۔ دوسری جانب شامی حکومت کے مطابق یہ حملہ کیمیائی نہیں تھا۔