جرمن وزارت خارجہ نے واضح کیا ہے کہ پناہ گزینوں کی رہائش اور دیکھ بھال کی ذمہ داری متعلقہ ممالک کی ہے اور یونانی جزیروں پر بسنے والے تارکین وطن کے لیے برلن حکومت مزید مدد نہیں کرسکتی۔
اشتہار
جرمن دارالحکومت برلن میں وفاقی وزارت خارجہ کی جانب سے مقامی اخبار کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا، ’’جرمن حکومت یونان کے جزیروں پر مقیم تارکین وطن کی مزید مدد نہیں کر سکتی۔‘‘ تاہم وفاقی وزارت داخلہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ یونان میں موجود تارکین وطن کی جرمنی منتقلی اور موجودہ صورتحال کی بہتری کے حوالے سے برلن حکومت ایتھنز حکام سے تعاون جاری رکھے گی۔
یونانی جزیرے لیسبوس کا موریا کیمپ، مہاجرین پر کیا گزر رہی ہے
لیسبوس کے یونانی جزیرے پر پھنسے ہوئے تارکین وطن کو حالات مزید خراب ہونے کی توقع ہے۔ انسانی بنیادوں پر سہولیات مہیا کرنے والی کئی غیر سرکاری تنظیمیں یا تو اپنا کام سمیٹ کر جانے کی تیاری میں ہیں یا پہلے ہی رخصت ہو چکی ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
ایجئین میں پھنسے مہاجرین
مہاجرین کی مد میں نجی فلاحی تنظیموں کو یورپی یونین کی جانب سے دی جانے والی فنڈنگ رواں برس اگست میں ختم ہو گئی تھی۔ تب سے یونانی حکومت ہی جزائر پر مقیم پناہ گزینوں کی تنہا دیکھ بھال کر رہی ہے۔ تاہم نہ تو ان مہاجرین کی منتقلی کا کوئی واضح پلان ہے اور نہ ہی اب یہاں مہاجرین کو فراہم کی جانے والی سہولیات میں کوئی تسلسل رہ گیا ہے۔
تصویر: DW/V. Haiges
نہ یہاں نہ وہاں
موریا کا مہاجر کیمپ اور تارکین وطن کے لیے بنائے گئے دوسرے استقبالیہ مراکز میں اب مہاجرین کے نئے گروپوں کو سنبھالنے کی استطاعت نہیں رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں تناؤ کی کیفیت بڑھ رہی ہےاور انفرادی سطح پر ہونے والے جھگڑے جلد ہی نسلی گروپوں کے درمیان سنجیدہ نوعیت کی لڑائی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
حفظان صحت کی سہولتیں
موریا کے باہر عارضی نوعیت کے غسل خانے کے باہر استعمال شدہ شیمپو اور پانی کی بوتلوں کا ڈھیر پڑا ہے۔ موریا مہاجر کیمپ میں حفظان صحت کی سہولتوں کے فقدان کے باعث بہت سے لوگوں نے صفائی ستھرائی کے لیے دوسرے امکانات تلاش کرنے شروع کر دیے ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
فیصلے کا انتظار
اریٹیریا کے تارک وطن امان نے اپنے خیمے میں چائے یا پانی کا نہ پوچھنے پر معذرت کی ۔ وہ تین ماہ سے اپنی پناہ کی درخواست پر فیصلے کا منتظر ہے۔ امان کا کہنا ہے کہ موریا کیمپ کے اندر کافی زیادہ مسائل ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
’ہم انسان ہیں‘
اس تصویر میں ایک افغان مہاجر موریا مہاجر کیمپ میں ابتر رہائش کی صورتحال کے خلاف احتجاج کے لیے پلے کارڈ بنا رہا ہے۔ احتجاج کرنے والے بیشتر پناہ گزین قریب ایک سال سے لیسبوس پر ہیں اور اپنی درخواستوں پر فیصلوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ معلومات کی کمی، ابتر رہائشی صورت حال اور افغانستان واپس بھیجے جانے کا خوف ان تارکین وطن کو مستقل وسوسوں میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔
تصویر: DW/V. Haiges
یونان بھی مجبور
لیسبوس کے افغان مہاجرین مجوزہ احتجاج پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ مہاجرین کے بحران کی وجہ سے لیسبوس کے جزیرے پر سیاحوں کی آمد میں سن 2015 کی نسبت قریب 75 فیصد کم ہوئی ہے۔ یونان میں جاری اقتصادی بحران نے بھی جزیرے کے حالات پر گہرے منفی اثرات ڈالے ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
ہر روز نئے تارکین وطن کی آمد
سن 2015 سے ہی مہاجرین پر لازم ہے کہ وہ اپنی پناہ کی درخواستوں پر حتمی فیصلے تک جزیرے پر رہیں گے۔ متعدد درخواستوں کو روکنے اور اپیل کے طویل عمل کے سبب تارکین وطن کی ایک مختصر تعداد کو فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
سن 2015ء سے جرمن وفاقی حکومت کی جانب سے یونان کے میدانی علاقوں اور جزائر پر موجود پناہ گزینوں کی دیکھ بھال سے متعلق تعاون کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ ملکی وزارت خارجہ کے دفتر سے جاری کردہ اس بیان میں خاص طور پر تاہم یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شدید سرد موسم کے دوران یونان پہنچنے والے تارکین وطن کے تحفظ کے لیے مدد کی جاتی رہی ہے۔ ماضی قریب میں یونان کی شمال مشرقی بندرگاہ ’تھیسالونیکی‘ میں مہاجرین کے لیے تعمیر کی گئی عارضی رہائش گاہوں میں 135 گرم کنٹینر نصب کیے گئے تھے۔ ان کنٹینرز میں آٹھ سو کے قریب افراد کو عارضی طور پر رکھا جا سکتا ہے۔
علاوہ ازیں تارکین وطن کے لیے سرگرم بیشتر امدادی تنظیموں نے موسمِ سرما کے حوالے سے ہنگامی ہدایات جاری کر رکھی ہیں۔ ان امدادی اداروں کے مطابق یونانی جزیرے لیسبوس پر پہنچنے والے تارکین وطن کو سردی سے بچانے کے لیے دستیاب سہولیات ناکافی ہیں۔ ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نامی تنظیم نے بتایا ہے کہ ’مردوں، خواتین اور بچوں کو گرمیوں میں استعمال کیے جانے والے کھلے خیموں میں رہائش فراہم کی جا رہی ہے‘۔
یونانی کیمپوں میں سردی سے بچاؤ کی ان ناکافی سہولیات کے حوالے سے امدادی تنظیموں نے یونان اور یوپی یونین کے حکمرانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ لیسبوس اور دیگر یونانی ’جزائر پر مقیم تارکین وطن کو میدانی علاقوں میں منتقل کیا جائے‘۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ یونان میں پناہ گزینوں کے بحران سے نمٹنے کے لیے یورپی یونین نے اب تک 1.4 بلین یورو کی امدادی رقم مختص کر رکھی ہے۔