جرمنی یونان میں موجود مہاجر بچوں کو اپنے ہاں لانے پر آمادہ
9 مارچ 2020
جرمن حکام نے آج پیر نو مارچ کو بتایا کہ یہ فیصلہ جرمن چانسلر انگیلامیرکل کی اپنی حکومت کی حلیف جماعتوں کے ساتھ یورپ کی سرحدوں پر درپیش صورت حال اور کورونا وائرس کے حوالے سے گفتگو کے بعد کیا گیا۔
اشتہار
جرمن حکومت کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے، ”ان بچوں کو اپنے یہاں رکھنے کے لیے یورپی سطح پر ایک انسانی حل تلاش کرنے کے حوالے سے بات چیت ہو رہی ہے۔" بیان میں مزید کہا گیا ہے، ”ہم اس مشکل انسانی صورت حال میں یونان کی مدد کرنا چاہتے ہیں اور یونانی جزیروں پر بنائے گئے کیمپوں میں رہنے والے پندرہ سو بچوں میں سے تقریباً ایک ہزار بچوں کو اپنے یہاں پناہ دینا چاہتے ہیں۔"
خیال رہے کہ ترکی کی حکومت کے اس اعلان کے بعد کہ وہ مہاجرین کو روکنے کی کوشش نہیں کرے گا، گزشتہ ہفتے سے ہی مہاجرین بڑی تعداد میں یونانی سرحد پر جمع ہونا شروع ہوگئے تھے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ایسے میں یورپی یونین 2015ء میں پیش آنے والے مہاجرین کے بحران جیسی صورتحال سے بچنا چاہتا ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان مہاجرین کے بحران کی تازہ صورتحال کا حل تلاش کرنے کے لیے آج نو مارچ کو بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں یورپی رہنماوں سے بات چیت کریں گے۔ ایردوان نے امید ظاہر کی ہے کہ بات چیت سے اس بحران کا کوئی حل نکل آئے گا۔
قبل ازیں ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے اتوار آٹھ مارچ کو یونان پر زور دیا تھا کہ وہ مہاجرین کے لیے اپنے دروازے کھول دے۔ انہوں نے استنبول میں تقریر کرتے ہوئے کہا، ”میں یونان سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ بھی مہاجرین کے لیے اپنے دروازے کھول دے اور اس بوجھ سے آزاد ہو جائے۔"
یہ امر اہم ہے کہ ترکی میں تقریباً چالیس لاکھ مہاجرین اور پناہ گزین پناہ لیے ہوئے ہیں۔ یورپی یونین اور انقرہ حکومت کے مابین 2016ء کے ایک معاہدے کے تحت انقرہ حکومت ان پناہ گزینوں کو یونان کی طرف بڑھنے سے روکنے کی ذمہ دار ہے۔ اس معاہدہ کے تحت ترکی کو اربوں یورو کی مالی مدد دی گئی تھی، لیکن ترکی کا دعوٰی ہے کہ یورپی یونین نے معاہدے کی شرائط پوری نہیں کی ہیں۔
ج ا / ا ب ا (اے ایف پی‘ ڈی پی اے)
یونانی کوسٹ گارڈز کا مہاجرین کے خلاف طاقت کا استعمال
01:45
وُوچجیک مہاجر کیمپ: مہاجرین سردی سے شدید خوفزدہ
بوسنیا اور ہیرسے گووینا کے شمال مغرب میں رواں برس موسم گرما سے مہاجرین کا کیمپ قائم ہے۔ حالات ناقابل قبول ہو چکے ہیں۔ یہ کیمپ گندگی سے بھرا ہے اور مضر صحت ہے۔ یہاں ہر شے کی کمی ہے اور اب سردی شدید ہوتی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
سردی کے علاوہ کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا
وُوچجیک کے مہاجر کیمپ کو اکتوبر کے اختتام سے سردی نے گھیر لیا ہے۔ بوسنیا میں درجہ حرارت دس سیلسیئس سے گر چکا ہے۔ زیادہ تر مہاجرین موسم سرما سے بچاؤ کے لباس بھی نہیں رکھتے۔ ان کا واحد سہارا عطیہ شدہ کپڑے اور کمبل ہیں۔ بعض کے پاس تو بہتر جوتوں کا جوڑا بھی نہیں ہے۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
زہریلا دھواں یا ٹھنڈ سے موت
اپنے آپ کو گرم رکھنے کے لیے پاکستانی، افغان اور شامی مہاجرین جنگل سے جمع شدہ لکڑیوں کو جلاتے ہیں۔ اپنے پتلے ترپالوں والے خیموں میں یہ مہاجرین منجمد کر دینے والی سردی سے بچنے کے لیے زہریلے دھوئیں میں سانس لینے پر مجبور ہیں۔ اس دھوئیں سے انہیں پھیپھڑوں کی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
ملبے پر زندگی
وُوچجیک کا مہاجر کیمپ رواں برس جون میں ضرورت کے تحت قائم کیا گیا۔ بوسنیا ہیرسے گووینا میں سات سے آٹھ ہزار کے درمیان مہاجرین ہیں۔ زیادہ تر شمال مغربی شہر بہاچ کی نواحی بستی میں رکھے گئے ہیں۔ سبھی کیمپ گنجائش سے زیادہ مہاجرین سے بھرے ہیں۔ وُوچجیک کا کپمپ بہاچ سے چند کلو میٹر دور زمین کی بھرائی کر کے بنایا گیا ہے۔ یہ مہاجر کیمپ کے بین الاقوامی ضابطوں سے عاری ہے۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
انتہائی خطرناک کیمپ
امدادی تنظیمیں بوسنیا ہیرسے گووینا سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وُوچجیک کے کیمپ کو بند کر دیا جائے اور یہاں کے مہاجرین کو بہتر رہائش فراہم کی جائے۔ اقوام متحدہ کے مہاجرت کے ادارے کے کوآرڈینیٹر کے مطابق اگر مہاجرین نے موسم سرما اس کیمپ میں گزار دیا تو کئی کی موت ہو سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
یورپی یونین: نزدیک مگر بہت دور
وُوچجیک کا کیمپ کروشیا کی سرحد سے صرف چھ کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ کئی مہاجرین یورپی یونین کی حدود میں داخل ہونے کی کوششیں کر چکے ہیں۔ بعض کامیاب اور بعض ناکام رہے۔ ناکام ہونے والے واپس اسی کیمپ پہنچ جاتے ہیں۔ اس علاقے میں بارودی سرنگیں بھی ہیں اور سڑک پر چلنا ہی بہتر ہے۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
ٹھنڈے پانی میں نہانا
وُوچجیک کے کیمپ میں کنستروں میں ٹھنڈا پانی دستیاب ہے۔ یہی پینے اور نہانے کے لیے ہے۔ غیرصحت مندانہ ماحول بڑے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کیمپ میں خارش کی بیماری اسکیبیز پھیلنا شروع ہو گئی ہے۔ بنیادی طبی امدادی دستیاب نہیں۔ شدید علالت کی صورت میں ہسپتال لے جایا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
باہر کی دنیا سے رابطہ
وُوچجیک کیمپ میں پانی اور بجلی کی محدود سپلائی ہے۔ موبائل فون رکھنے والے خوش قسمت ہیں کہ اُن کا رابطہ باہر کی دنیا سے ہے اور یہی ان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ بعض مہاجرین کے مطابق ان کے فون چوری یا ضائع ہو چکے ہیں اور کئی کے فون سرحد پر کروشیا کی پولیس نے نکال لیے ہیں۔ کروشیا ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
گھر جیسی چھوٹی سی جگہ
وُوچجیک کیمپ میں یہ مہاجرین اپنے ملک جیسی روٹیاں پکانے میں مصروف ہیں۔ ریڈ کراس انہیں خوراک کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے لیکن یہ خوراک بہت کم خیال کی جاتی ہے۔ ریڈ کراس کے علاقائی سربراہ نے چند ماہ قبل سرائیوو حکومت پر الزام لگایا تھا کہ اُس نے علاقے کو نظرانداز کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
اکھٹے رہنے میں بہتری ہے
اس کیمپ میں آگ پوری طرح مہاجرین کے جسموں کو گرم رکھنے کے لیے ناکافی ہے۔ وہ وُوچجیک سے فوری طور پر منتقل ہونا چاہتے ہیں۔ ایک افغان مہاجر کے مطابق سلووینیا اور کروشیا میں مویشیوں کے لیے بنائی گئی عمارتیں اس کیمپ سے بہتر ہیں۔ اُس کے مطابق یہ کیمپ نہیں ہے اور نہ ہی انسانوں کو رکھنے کی کوئی جگہ ہے۔