جرمنی یوکرین کو بھاری ہتھیار کیوں مہیا نہیں کر رہا؟
25 اپریل 2022
جرمن چانسلر اولاف شولس کو یوکرین کو بھاری ہتھیاروں کی فراہمی کے موضوع کے حوالے سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ وہ کییف کو روس کے خلاف جنگ میں بھاری اسلحے کی ترسیل میں مسلسل تاخیر کرتے جا رہے ہیں۔
اشتہار
برلن میں چانسلر شولس کی قیادت میں وفاقی جرمن حکومت اس حوالے سے کئی وجوہات کی نشاندہی کر چکی ہے کہ وہ یوکرین کو بھاری ہتھیار کیوں مہیا نہیں کر رہی۔ لیکن جرمن حکومتی موقف کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ بھی دیکھا جائے کہ آیا یہ وجوہات واقعی قائل کر دینے والی ہیں؟
جرمن اتحادیوں کا رویہ
یوکرین کی جنگ کے آغاز سے چانسلر اولاف شولس مسلسل یہ کہتے آئے ہیں کہ برلن حکومت مغربی دفاعی اتحاد نیٹو اور یورپی یونین میں اپنے ساتھی ممالک کے ساتھ قریبی اشتراک عمل سے ہی سارے فیصلے کرتی ہے۔ چند روز قبل اولاف شولس نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ یوکرین کو تو کینیڈا، برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک بھی وہی ہتھیار فراہم کر رہے ہیں، جو جرمنی کر سکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے کے اواخر میں امریکہ نے اعلان کیا کہ وہ یوکرین کو تقریباﹰ 800 ملین ڈالر کی نئی فوجی امداد دے گا، جس میں بھاری توپ خانہ بھی شامل ہو گا۔ یوں چوبیس فروری کے دن روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے کییف کے لیے زیادہ تر عسکری نوعیت کی امریکی امداد کی مجموعی مالیت تین بلین ڈالر سے بھی زیادہ ہو جائے گی۔
یوکرین: تباہی اور شکستہ دلی کے مناظر
روسی فوج کی طرف سے یوکرین پر تقریباﹰ چار ہفتوں سے حملے جاری ہیں۔ جنگ کی صورتحال میں شہریوں کی پریشانیاں مزید بڑھتی جارہی ہے۔ بھوک، بیماری اور غربت انسانی بحران کو جنم دے رہی ہیں۔
تصویر: Vadim Ghirda/AP Photo/picture alliance
جتنی طویل جنگ اتنی ہی زیادہ مشکلات
ایک عمررسیدہ خاتون اپنے تباہ شدہ گھر میں: یوکرین کے شہری جنگ کے سنگین اثرات محسوس کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق تقریباﹰ اگر صورتحال اگلے بارہ ماہ تک ایسے جاری رہی تو نوے فیصد ملکی آبادی غربت کا شکار ہو جائے گی۔ جنگی حالات یوکرینی معیشت کو دو عشرے پیچھے دھکیل سکتے ہیں۔
تصویر: Thomas Peter/REUTERS
بھوک کے ہاتھوں مجبور
یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف میں بھوک سے مجبور عوام نے ایک سپرمارکیٹ لوٹ لی۔ خارکیف، چیرنیہیف، سومی، اور اوچترکا جیسے شمالی مشرقی اور مشرقی شہروں کی صورتحال بہت خراب ہے۔ مقامی رہائشیوں کو مسلسل داغے جانے والے روسی میزائلوں اور فضائی بمباری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: Andrea Carrubba/AA/picture alliance
تباہی میں مدد کی پیشکش
دارالحکومت کییف میں ایک فائر فائٹر روسی حملوں سے تباہ شدہ عمارت کی رہائشی کو تسلی دے رہی ہے۔ اس امدادی کارکن کو کئی یوکرینی شہریوں کے ایسے غم بانٹنے پڑتے ہیں۔ تاہم روس کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف مسلح افواج کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ رہائشی مقامات کی تباہی سمیت روزانہ شہریوں کی اموات ہو رہی ہیں۔
تصویر: Vadim Ghirda/AP Photo/picture alliance
جنگ کی تاریکی میں جنم
یہ تصویر ایک ماں اور اس کے نوزائیدہ بچے کی ہے، جس کی پیدائش خارکیف میں واقع ایک عمارت کی بیسمینٹ میں بنائے گئے عارضی میٹرنٹی سنٹر میں ہوئی ہے۔ کئی ہسپتال روسی فوج کی بمباری کا نشانہ بن چکے ہیں، جس میں ماریوپول کا ایک میٹرنٹی ہسپتال بھی شامل ہے۔
تصویر: Vitaliy Gnidyi/REUTERS
مایوسی کے سائے
یوکرین کے جنوب مشرقی شہر ماریوپول کے ہسپتال بھر چکے ہیں، ایسے میں گولہ باری سے زخمی ہونے والے افراد کا علاج ہسپتال کے آنگن میں ہی کیا جارہا ہے۔ کئی دنوں سے روس کے زیر قبضہ علاقوں میں بحرانی صورتحال ہے۔ یوکرینی حکام محصور شدہ شہروں میں لوگوں تک خوراک اور ادویات پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تصویر: Evgeniy Maloletka/AP/dpa/picture alliance
خوراک کی ضرورت
علیحدگی پسندوں کے زیرانتظام ڈونیسک خطے کے شہریوں کو انسانی امداد فراہم کی گئی ہے۔ مشرقی یوکرین کے علاقے لوہانسک اور ڈونیسک میں شدید لڑائی جاری ہے۔ روسی وزارت دفاع اور علیحدگی پسندوں کی اطلاعات کے مطابق انہوں نے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
تصویر: ALEXANDER ERMOCHENKO/REUTERS
خاموش ماتم
مغربی شہر لویو میں ہلاک ہونے والے یوکرینی فوجیوں کے لواحقین اپنے پیاروں کے جانے پر افسردہ ہیں۔ اسی طرح کئی شہری بھی موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے مطابق 24 فروری سے شروع ہونے والے روسی حملوں سے اب تک تقریباﹰ 724 شہریوں کی ہلاکت ہوئی ہے، جس میں 42 بچے بھی شامل ہیں۔
کییف میں ایک دکان پر روسی گولہ باری کے بعد یہ ملازم ملبہ صاف کر رہا ہے۔ یہ اسٹور کب دوبارہ کھل سکے گا؟ معمول کی زندگی کی واپسی کب ہوگی؟ اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔
اس کے برعکس فروری کے اواخر سے اپریل کے شروع تک جرمنی نے یوکرین کے لیے اس کے فوجی دفاع کی خاطر جس امداد کا اعلان کیا، اس کی مالیت تقریباﹰ 186 ملین یورو بنتی ہے۔ اس امداد میں مارٹر، فضائی دفاعی راکٹ سسٹم، مشین گنیں اور گولہ بارود کے علاوہ فوجی حفاطتی سامان بھی شامل ہے، مگر کوئی بھاری ہتھیار نہیں۔
چانسلر شولس کا دوہرا پیغام
جنوبی جرمن شہر میونخ میں وفاقی جرمن فوج کی یونیورسٹی کے دفاعی اور سکیورٹی امور کے پروفیسر کارلو ماسالا کہتے ہیں کہ چانسلر شولس کی حکمت عملی کے ذریعے دیے جانے والے پیغامات دو ہیں۔ ایک تو روس کے لیے اور دوسرا خود جرمن عوام اور شولس کی اپنی سیاسی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے۔
پروفیسر ماسالا کہتے ہیں، ''چانسلر شولس کو ان تمام افراد کی طرف سے حمایت کی ضرورت ہے، جو یہ سوچتے ہیں کہ یوکرین کو کوئی بھاری ہتھیار اس لیے فراہم نہیں کیے جانا چاہییں کیونکہ یوں نہ صرف روسی یوکرینی جنگی تنازعہ شدید ہو جائے گا بلکہ خود جرمنی بھی روسی کارروائیوں کے نشانے پر ہو گا۔‘‘
تشویش کافی حد تک بجا
جرمنی کی یہ تشویش اگرچہ کافی حد تک بجا ہے تاہم یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ جرمنی کے کئی مغربی اتحادی ملک مثلاﹰ امریکہ، برطانیہ اور نیدرلینڈز تو یوکرین کو بھاری ہتھیار فراہم کر رہے ہیں۔ یہی بات حال ہی میں یوکرینی پارلیمان کی ایک رکن لیزیا واسیلینکو نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں بھی لکھی تھی۔
امن کی فاختائیں اور ان کا تاریخی پس منظر
قدیمی زمانے سے فاختہ کو امن کا نشان قرار دیا جاتا ہے اور موجودہ دور میں اسے عالمی اتحاد کے نشان خیال کیا جاتا یے۔ یوکرین میں جنگ شدید ہوتی جا رہی ہے اور ایسے میں یہ پرندہ پھر دوستی اور اتحاد کی علامت بن گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa
ایک فاختہ یوکرین کے لیے
جرمن آرٹسٹ یُوسٹس بیکر نے فرینکفرٹ شہر کی ایک عمارت کی بیرونی دیوار پر ایک انتہائی بڑی فاختہ کی پینٹنگ بنائی ہے۔ یہ فاختہ شاخِ زیتون پکڑے ہوئے ہے اور اس کو یوکرینی جھنڈے کے رنگوں یعنی نیلے اور زرد سے سمویا گیا ہے۔ یہ تصویر یوکرین کے لیے فرینکفرٹ کے شہریوں کی جانب سے اظہارِ امید و یکجہتی ہے۔ اس فاختہ کو بنانے میں یُوسٹس بیکر کو تین دن لگے تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa
سفید، خاص اور اچھا
قدیمی زمانے سے فاختہ کے ساتھ خاص قوتوں کو نتھی کرنے کا سلسلہ پایا جاتا ہے۔ یہ معصومیت کا نشان بھی قرار دی جاتی ہے۔ عام لوگوں کا گمان ہے کہ اس پرندے میں پِتہ نہیں ہوتا اور اس باعث یہ کڑواہٹ اور بدی سے مبریٰ ہے۔ کلاسیکی مزاج میں اس پرندے کو نسائی نزاکت سے بھی تعبیرکیا جاتا ہے۔ سفید فاختہ محبت کی یونانی دیوی ایفروڈائیٹ کی ساتھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Leemage
بائبل کا استعارہِ اُمید
کشتی میں چالیس ایام گزارنے کے بعد پیغمبر نوح نے فاختہ کو سیلاب کے اترنے کی خبر لانے کے لیے بھیجا تھا۔ شاخِ زیتون کے ساتھ اس کی واپسی نے سیلاب کے ختم ہونے اور آسمانی امن کا مژدہ سنایا۔
تصویر: picture alliance / imageBROKER
امن کا آئیکون
مشہورِ عالم مصور پکاسو کی ایک پینٹنگ فاختہ کو سن 1950 کی دہائی میں امن تحریک کا نشان بنایا گیا اور یوں یہ تاریخ کا حصہ بن گئی۔ پکاسو نے فاختہ کو کئی مرتبہ اپنی پینٹنگز میں استعمال کیا۔ انہوں نے اپنی بیٹی کا نام پالوما رکھا۔ ہسپانوی زبان میں فاختہ کو پالوما کہتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
’کھلا ہاتھ‘
پکاسو کی پینٹنگ سے متاثر سوئس فرانسیسی ماہرِ تعمیرات لی کوربوزیئر نے شمالی بھارتی شہر چندی گڑھ میں تصویر میں دکھائی دینے والے اسکلپچر کو تخلیق کیا۔ اس میں انسانی ہتھیلی کو ایک فاختہ میں ضم ہوتے دکھایا گیا ہے۔ اسے سن 1947 میں بھارت کی انگریز راج سے آزادی کا نشان قرار دیا گیا۔
تصویر: picture alliance / Photononstop
امن تحریک کا نشان
گزشتہ نصف صدی سے فاختہ امن تحریک کا نشان ہے۔ امن کے حصول کے ہر احتجاج میں فاختہ کی تصویر والے جھنڈے بلند کیے جاتے ہیں، یہ امن کی امید کا حوالہ خیال کیا جاتا ہے۔ تحریک کا لوگو فن لینڈ کی ایک فوٹوگرافر میکا لاؤنیس کی سن 1970 میں بنائی گئی ایک تصویر سے ماخوذ ہے۔
تصویر: Daniel Naupold/picture alliance/dpa
پرندے آزاد کرنا
پرندے آزاد کرنے کا استعارہ صرف سیاسی میدان میں مقبول نہیں بلکہ نجی تقریبات اور شادی بیاہ پر بھی ایسا کیا جاتا ہے۔ سفید پرندے وفاداری کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ کھیلوں کی تقریبات میں فاختاؤں کو اڑانے سے مراد مخالف ٹیموں کے لیے محبت و خلوص کا اظہار ہے۔
تصویر: picture alliance/Actionplus
کاغذی فاختائیں
سن 2021 کے موسم گرما میں برطانوی شہر لیورپول کے کیتھڈرل میں پندرہ ہزار کاغذ کی فاختاؤں کو لٹکایا گیا تھا۔ آرٹسٹ پیٹر والکر کے اس ڈیزائن سے مراد امن تھا۔ لوگوں کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ ان کاغذی فاختاؤں پر اپنے امن کے پیغامات درج کریں۔
تصویر: Peter Byrne/picture alliance
پرانے پیغام کا احیاء
یوکرینی جنگی حالات نے برلن کے شہریوں کو پبلو پکاسو کی پینٹنگ والے جھنڈے کو لہرانے کا پھر موقع دیا۔ سب سے پہلے یہ جھنڈا تھیئٹر کے ڈرامہ نویس اور شاعر بیرٹولڈ بریشٹ نے سن 1950 میں امن کے نشان کے طور پر اپنے تھیئٹر پر لہرایا تھا۔ اس کا احیاء یوکرین کے ساتھ یکجہتی کے اظہار میں کیا گیا۔
تصویر: Jens Kalaene/dpa/picture alliance
ایک خونی جنگ
رواں برس جرمن شہر کولون میں کارنیوال کے روزن مونٹاگ یا روز منڈے کی روایتی پریڈ امن ریلی میں تبدیل ہو گئی تھی۔ اس میں پچیس ہزار افراد شریک تھے۔ اس پریڈ میں شامل ایک فلوٹ پر خون میں لتھڑی ساختہ چھید کرتا روسی جھنڈے دکھایا گیا تھا۔
امریکہ نے تو ابھی پچھلے ہفتے ہی یہ اعلان کیا تھا کہ وہ یوکرین کو 11 ہیلی کاپٹر، 200 بکتر بند گاڑیاں اور توپوں سے فائر کیے جانے والے تقریباﹰ 40 ہزار گولوں کے علاوہ مزید کئی ایسے ہتھیار بھی فراہم کرے گا، جو سب کے سب بھاری اسلحے کے زمرے میں آتے ہیں۔
جرمن فوج اپنی صلاحیتوں کی حدوں پر
جرمنی یہ بھی کہہ چکا ہے کہ وہ یوکرین کو مزید کوئی عسکری امداد اس لیے مہیا نہیں کر سکتا کہ یوں وہ خود اپنی دفاعی ذمے داریاں پورا کرنے کی حالت میں نہیں رہے گا۔ اس بارے میں وفاقی جرمن فوج کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل مارکوس لاؤبن تھال نے حال ہی میں ملکی نشریاتی ادارے زیڈ ڈی ایف کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''اپنی وفاقی فوج کے کسی بھی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے قابل رہنے کے لیے خود ہمیں بھی دفاعی نظاموں کی ضررت ہے۔‘‘
اشتہار
یوکرینی سفیر کا موقف
برلن میں یوکرین کے سفیر آندرے میلنِک ان یوکرینی اہلکاروں میں شمار ہوتے ہیں، جو جرمنی پر سب سے زیادہ تنقید کر رہے ہیں ۔ انہوں نے ابھی چند روز قبل ہی کہا تھا، ''یہ دعویٰ، کہ وفاقی جرمن فوج یوکرین کو مزید عسکری امداد مہیا کرنے کی پوزیشن میں نہیں، قطعی ناقابل فہم ہے۔‘‘
یوکرینی سفیر کے مطابق جرمن فوج کے پاس موجود مارڈر نامی تقریباﹰ 400 جدید ترین جنگی ٹینکوں میں سے اس وقت 100 کے قریب ٹینک فوجیوں کی تربیت کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور یہ سو ٹینک تو جرمنی یوکرین کو فوری طور پر مہیا کر ہی سکتا ہے۔
کیا یوکرینی فوجی جرمن ٹینک استعمال کر سکیں گے؟
جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ یوکرینی فوجی صرف وہی جنگی ٹینک بخوبی استعمال کر سکتے ہیں، جن کا انہیں اچھی طرح عسکری تجربہ ہے۔
پروفیسر کارلو ماسالا کے مطابق یوکرین میں فیڈرل جرمن آرمی کے جدید ترین ٹینکوں کے مناسب استعمال سے متعلق برلن حکومت کے موقف میں کافی وزن ہے اور یہ تشویش بجا ہے کہ یوکرینی فوجی جرمنی کے مارڈر ٹینکوں کو مؤثر طور پر استعمال نہیں کر سکیں گے۔ خاص طور پر اس لیے کہ یوکرینی فوج کے پاس ان انتہائی جدید ٹینکوں کو استمعال کرنے، ان کی دیکھ بھال کا اور خرابی کی صورت میں پرزوں کی تبدیلی کا کوئی بنیادی ڈھانچہ سرے سے موجود ہی نہیں۔
پوٹن کے بلیک لسٹ ارب پتی دوست کون ہیں؟
یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت کے جواب میں مغربی ریاستوں نے روس کی معیشت اور صدر ولادیمیر پوٹن کے اندرونی حلقے پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
تصویر: Christian Charisius/dpa/picture alliance
ایگور سیشین
سیشین روس کے سابق نائب وزیر اعظم اور سرکاری تیل کمپنی روزنیفٹ کے چیف ایگزیکٹو افسر ہیں۔ یورپی یونین کی پابندیوں کی دستاویز میں انہیں پوٹن کے "قریب ترین مشیروں اور ان کے ذاتی دوست" کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اس دستاویز میں کہا گیا ہے کہ سیشین روس میں غیر قانونی طور پر الحاق شدہ کریمیا کے استحکام کی حمایت کرتے ہیں۔
تصویر: Alexei Nikolsky/Russian Presidential Press and Information Office/TASS/picture alliance
الیکسی مورداشوف
مورداشوف نے روس میں سب سے بڑی نجی میڈیا کمپنی، نیشنل میڈیا گروپ میں بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ یورپی یونین کا کہنا ہے کہ یہ میڈیا ہاؤس یوکرین کو غیر مستحکم کرنے کی ریاستی پالیسیوں کی حمایت کرتا ہے۔ اس الزام کا جواب دیتے ہوئے اس ارب پتی کا کہنا تھا کہ "موجودہ جغرافیائی سیاسی تناؤ سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔'' مورداشوف نے جنگ کو ''دو برادرانہ عوام کا المیہ'' قرار دیا۔
تصویر: Tass Zhukov/TASS/dpa/picture-alliance
علیشیر عثمانوف
ازبکستان میں پیدا ہونے والے عثمانوف دھاتوں اور ٹیلی کام کے ٹائیکون ہیں۔ یورپی یونین کے مطابق عثمانوف پوٹن کے پسندیدہ اولیگارکس یا طبقہؑ امراء میں سے ایک ہیں۔ یورپی یونین نے الزام لگایا کہ اس ارب پتی نے "صدر پوٹن کا بھر پور دفاع کیا ہے اور ان کے کاروباری مسائل حل کیے ہیں۔" امریکہ اور برطانیہ نے بھی عثمانوف کو اپنی بلیک لسٹ میں شامل کر لیا ہے۔
تصویر: Alexei Nikolsky/Kremlin/Sputnik/REUTERS
میخائل فریڈمین اور ایون
یورپی یونین کے بیان میں فریڈمین کو "ایک اعلیٰ روسی سرمایہ کار اور پوٹن کے اندرونی حلقے کا سہولت کار قرار دیا گیا ہے۔" خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق فریڈمین اور ان کے قریبی ساتھی پیوٹر ایون نے تیل، بینکنگ اور ریٹیل سے اربوں ڈالر کمائے ہیں۔ یورپی یونین کی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ایون ان دولت مند روسی تاجروں میں سے ایک ہے جو کریملن میں پوٹن سے باقاعدگی سے ملاقات کرتے ہیں۔
تصویر: Mikhail Metzel/ITAR-TASS/imago
بورس اور ایگور روٹنبرگ
روٹنبرگ کا خاندان پوٹن کے ساتھ قریبی تعلقات کے حامل قرار دیا جاتا ہے۔ بورس ایس ایم پی بینک کے شریک مالک ہیں، جو توانائی کی فرم گیز پروم سے منسلک ہے۔ ان کے بڑے بھائی آرکیڈی، جو پہلے ہی یورپی یونین اور امریکی پابندیوں کی زد میں ہیں، پوٹن کے ساتھ نوجوانی سے جوڈو کی مشق کر رہے ہیں۔ بورس اور ایگور روٹنبرگ کو برطانیہ اور امریکہ نے بھی بلیک لسٹ میں شامل کر لیا ہے۔
تصویر: Sergey Dolzhenko/epa/dpa/picture-alliance
گیناڈی ٹمچینکو
ٹمچینکو بینک روسیا کے بڑے شیئر ہولڈر ہیں۔ یورپی یونین کی دستاویز کے مطابق یہ بینک روسی فیڈریشن کے سینئر حکام کا ذاتی بینک سمجھا جاتا ہے۔ بینک نے ان ٹیلی ویژن اسٹیشنوں میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے جو یوکرین کو غیر مستحکم کرنے کی روسی حکومت کی پالیسیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ یورپی یونین کا کہنا ہے کہ بینک روسیا نے کریمیا میں اپنی شاخیں بھی کھولی ہیں۔ اور یہ بینک کریمیا کے غیر قانونی الحاق کی حمایت کرتا ہے
تصویر: Sergei Karpukhin/AFP/Getty Images
ضبط شدہ کشتیاں
نئی پابندیوں میں پوٹن کے قریبی دوستوں کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں اور ان پر سفری پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ حالیہ دنوں میں اٹلی، فرانس اور برطانیہ میں بھی روس کی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی کئی لگژری کشتیاں پکڑی گئی ہیں۔ سیشین، عثمانوف اور ٹمچینکو ان ارب پتیوں میں شامل تھے جن کی کشتیاں ضبط کی گئی تھیں۔ مونیر غیدی (ب ج، ع ح)
تصویر: Imago/M. Segerer
7 تصاویر1 | 7
برلن کا جواب: اور زیادہ مالی وسائل
جرمن چانسلر شولس کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت نے یوکرین کو ایک بلین یورو سے زائد کے مالی وسائل مہیا کیے ہیں، تاکہ وہ جرمنی سے اپنے لیے ہتھیار خرید سکے۔
برلن حکومت ان رقوم سے فضائی دفاعی راکٹ نظام اور گولہ بارود خریدے کی اجازت تو دیتی ہے مگر وہ جرمنی سے یوکرین کو ان جنگی طیاروں اور جنگی ٹینکوں کی فروخت کی حامی نہیں، جن کا مطالبہ کییف حکومت کر رہی ہے۔
سلووینیا کے ساتھ تبادلے کی پیش کش
جرمن حکومت اس وقت جس ایک اور امکان پر کام کر رہی ہے، وہ یورپی ملک سلووینیا کے ساتھ جنگی ٹینکوں کے تبادلے کا رستہ ہے۔ سلووینیا نیٹو کا رکن ملک ہے اور برلن حکومت یہ سوچ رہی ہے کہ اگر سلووینیا اپنے سوویت یونین کے دور کے جنگی ٹینکوں میں سے کچھ یوکرین کو مہیا کرے، تو ان کی کمی پورا کرنے کے لیے جرمنی جواباﹰ سلووینیا کو اپنے جدید ترین مارڈر ٹینکوں میں سے کچھ مہیا کر سکتا ہے۔