جرمنی کا 2600 افغان باشندوں کے لیے عارضی ویزوں کا اعلان
16 ستمبر 2021
برلن حکومت نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی جانب سے کنٹرول سنبھالے جانے کے بعد وہاں سے نکالے گئے چھبیس سو متاثرہ ترین افغان شہریوں کو جرمنی میں رہنے کے لیے عارضی رہائشی اجازت نامے جاری کیے جائیں گے۔
اشتہار
جرمن وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان کے مطابق ویزوں کے اجراء کی فہرست میں ایسے افغان شہری شامل کیے گئے ہیں، جن کی حفاظت کی جرمنی پر خاص طور سے ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
برلن حکومت کے مطابق انسانی حقوق کے کارکنان، صحافی، فنکاروں کے ساتھ ساتھ سائنسدان اور سول سوسائٹی کے ممبران کا شمار ایسے متاثرہ گروپ میں ہوتا ہے، جن کی جانوں کو طالبان کے دور حکومت میں خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
کابل سے انخلا کا مشن، تصویروں میں
افغان طالبان کے پندرہ اگست کو ملکی دارالحکومت پر قبضے کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد افراد کو کابل سے نکالا جا چکا ہے۔ لیکن اس مشن کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری طالبان کے رحم و کرم پر ہیں۔
تصویر: U.S. Air Force/Getty Images
سفارتی عملے کا امریکی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے انخلا
جیسے ہی افغان طالبان نے کابل کا محاصرہ کیا، شہر میں واقع امریکی سفارت خانے سے اس کا عملہ نکال لیا گیا۔ یہ تصویر پندرہ اگست کی ہے، جب امریکی چینوک ہیلی کاپٹر ملکی سفارتی عملے کے انخلا کے لیے روانہ کیے گئے۔ جرمنی نے بھی انخلا کے اس مشن کے لیے ہیلی کاپٹر اور چھوٹے طیارے روانہ کیے تھے۔
تصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images
کابل ایئر پورٹ تک پہنچنے کی دوڑ
سولہ اگست کو کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر مقامی لوگوں کا جم غفیر دیکھا گیا۔ یہ لوگ طالبان کے خوف سے ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں ایئر پورٹ کی حدود میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ ان افغان باشندوں کا کہنا تھا کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کو جان و مال کے خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
تصویر: Reuters
کابل سے نکلنے کے لیے بے چین
یہ ڈرامائی منظر بھی کابل ایئر پورٹ کا ہے، جہاں لوگوں کا ہجوم ایک امریکی فوجی طیارے میں سوار ہونے کی ناکام کوششوں میں ہے۔ جہاز میں داخل ہونا تو ممکن نہیں تھا، لیکن متعدد افراد اس جہاز کے لینڈنگ گیئر اور پہیوں سے لپٹ گئے کہ شاید اسی طرح وہ کابل سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں۔ جب جہاز اڑا تو ان میں سے کئی افراد زمین گر کر ہلاک بھی ہو گئے۔
تصویر: AP Photo/picture alliance
دو دہائیوں بعد طالبان کی واپسی
افغانستان میں امریکی اتحادی فوجی مشن کے خاتمے سے قبل ہی افغان طالبان نے ملک بھر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اب کابل کی سڑکوں پر بھی یہ جنگجو سکیورٹی کے پیش نظر گشت کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لوگوں کو خوف ہے طالبان اپنے وعدوں کے برخلاف انتقامی کارروائیاں کریں گے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
تحفظ کی تمنا
افغان لوگوں کے ہاتھ جو بھی لگا، انہوں نے سمیٹ کر کابل سے فرار کی کوشش شروع کر دی۔ ان کا رخ ایئر پورٹ کی طرف ہی تھا۔ جرمن ایئر فورس کا یہ طیارہ افغان باشندوں کو لے کر ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پہنچا۔ انخلا کے مشن میں شریک زیادہ تر فوجی طیارے لوگوں کو لے کر تاشقند، دوحہ یا اسلام آباد اترے، جہاں سے ان افراد کو مسافر پروازوں کے ذریعے ان کی حتمی منزلوں تک لے جایا جائے گا۔
تصویر: Marc Tessensohn/Bundeswehr/Reuters
مدد کی کوشش
جرمنی میں امریکا کی رمشٹائن ایئر بیس پر پہنچنے والے افغان مہاجرین کو بنیادی اشیائے ضرورت کے اشد ضرورت تھی۔ اس ایئر بیس نے ایسے ہزاروں افغان شہریوں کو شیلٹر فراہم کیا جبکہ خوراک اور دیگر بنیادی ایشا بھی۔ لیکن ان کی آباد کاری کا معاملہ آسان نہیں ہو گا۔
تصویر: Airman Edgar Grimaldo/AP/picture alliance
طالبان کے دور میں زندگی
طالبان کی عملداری میں افغانستان کو چلانا آسان نہیں ہو گا۔ اب تک طالبان حکومت سازی کے کسی فارمولے کو طے نہیں کر سکے جبکہ اس شورش زدہ ملک کے لیے عالمی امداد بھی روک دی گئی ہے۔ اس ملک میں بے گھر پانچ ملین افراد کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے آئی او ایم نے چوبیس ملین ڈالر کی ہنگامی مدد کی اپیل کی ہے تاکہ ابتر صورت حال سے نمٹا جا سکے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
محفوظ راستہ
چوبیس اگست کو لی گئی اس تصویر میں ایک امریکی فوجی ایک بچے کو حامد کرزئی ایئر پورٹ کی طرف لے جا رہا ہے تاکہ اس کو اس کے کنبے سے ملایا جا سکے۔ اکتیس اگست کو امریکی افواج کے انخلا کی تکمیل کے بعد یہ صورتحال زیادہ پیچیدہ ہو جائے گی۔
تصویر: Sgt. Samuel Ruiz/U.S. Marine Corps/Reuters
ہزاروں پیچھے رہ جائیں گے
اگرچہ افغان عوام کے انخلا کا یہ آپریشن ختم ہو چکا ہے لیکن پھر بھی ہزاروں افراد کابل ایئر پورٹ کے گرد جمع ہیں۔ دہشت گردانہ حملوں کے باوجود یہ لوگ ہوائی اڈے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتے۔ ایسی خفیہ رپورٹیں ہیں کہ کابل کے ہوائی اڈے کو مزید حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
تصویر: REUTERS
خوش قسمت لیکن مایوس
افغانستان سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جانے والے افراد کی کیفیات ملی جلی ہیں۔ وہ خود کو خوش قسمت بھی تصور کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ایک مایوسی کا شکار بھی ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے پیچھے کئی ملین ایسے ہم وطنوں کو چھوڑ کر اپنے ملک سے فرار ہوئے، جن کے حکمران طالبان ہیں۔
تصویر: Anna Moneymaker/AFP/Getty Images
اکتیس تاریخ آخری دن
افغانستان سے انخلا کے مشن کا آخری دن اکتیس اگست ہے۔ انخلا کے اس مشن میں شریک امریکی فوجی بھی منگل اکتیس اگست کو افغانستان سے نکل جائیں گے۔ جرمنی سمیت کئی دیگر اتحادی ممالک کی ریسکیو ٹیمیں گزشتہ ہفتے ہی اپنے مشن مکمل کر چکی ہیں۔
تصویر: picture alliance / newscom
11 تصاویر1 | 11
اس کے علاوہ کابل پر طالبان کے قبضے سے قبل جرمن کمپنیوں کے افغان ملازمین اور مقامی تنظیمیں بھی اس فہرست میں شامل کی گئی ہیں۔
افغان مہاجرین جرمنی میں کب تک قیام کر سکیں گے؟
جرمن حکومت کے مطابق ان عارضی رہائشی اجازت ناموں کی مدت تین سال تک محدود ہو گی اور وصول کنندگان کے خاندان اور بچوں کو بھی یہ ویزے جاری کیے جائیں گے۔ مذکورہ افغان باشندوں کو جرمنی میں پناہ کی درخواست جمع کرانے کی بھی ضرورت نہیں ہو گی۔ تاہم رہائشی اجازت نامہ حاصل کرنے سے پہلے اس فہرست کے لیے منتخب کیے گئے تمام افراد کی سکیورٹی کلیئرنس ضروری ہو گی۔
افغان خواتين کا روايتی لباس: رنگا رنگ کرتياں يا برقعہ؟
02:36
جرمن دفتر خارجہ کی خاتون ترجمان ماریہ ادیباہر نے کہا کہ اس فہرست میں شامل زیادہ تر افراد اس وقت جرمنی میں موجود نہیں ہیں۔
جرمنی نے افغانیوں کی مدد کے لیے کیا انتظامات کیے ہیں؟
جرمن وزارت خارجہ نے بتایا ہے کہ افغان سول سوسائٹی کے اراکین اور سائنسدانوں کی مالی معاونت کے پروگرام میں تقریباﹰ 10 ملین یورو مختص کیے گئے ہیں۔ یہ فنڈز وظیفے کے طور پر عارضی حفاظتی قیام کے دوران ادا کیے جائیں گے۔
جرمنی کابل ہوائی اڈے سے غیرملکی اور افغان شہریوں کے انخلا کے بین الاقوامی آپریشن کا حصہ تھا۔ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد چند ہی ہفتوں کے دوران جرمن فوجی دستے 4587 افراد کو اس شورش زدہ ملک سے باہر نکالنے میں کامیاب رہے۔ ان میں 3800 افغان شہری تھے، جن میں سے زیادہ تر جرمن فوج اور جرمن کمپنیوں کے ساتھ مقامی عملے کے طور پر وابستہ رہے تھے۔ کابل سے ایئر لفٹ آپریشن مکمل ہونے کے بعد خصوصی پروازوں کے ذریعے کئی افغان باشندے قطر پہنچائے گئے۔ ان میں سے سینکڑوں افراد اب جرمنی پہنچ چکے ہیں۔