جرمنی: 74 ہزار مہاجرین دوسرے یورپی ملکیوں میں بھی رجسٹرڈ
23 اگست 2018
جرمنی میں حکام نے ایسے چوہتر ہزار تارکین وطن کی نشاندہی کی ہے جنہوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرا رکھی ہیں لیکن وہ دیگر یورپی ممالک میں بھی پہلے سے سیاسی پناہ کی درخواست گزار ہیں۔
اشتہار
یہ اعداد و شمار وفاقی وزارت داخلہ نے جرمن پارلیمان میں اسلام اور مہاجرین مخالف جماعت ’ایف ڈی پی‘ کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں جاری کیے ہیں۔ حکام کے مطابق رواں برس کے آغاز تک ’بی اے ایم ایف‘ کے اہلکاروں نے سیاسی پناہ کے ایسے چوہتر ہزار درخواست گزاروں کی نشاندہی کی ہے، جنہوں نے جرمنی کے علاوہ یورپی یونین کے کسی دوسرے رکن ملک میں بھی اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرا رکھی ہیں، یا کم از کم وہاں رجسٹرڈ ہیں۔
وفاقی وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق ان میں سے تقریبا نصف تارکین وطن نے جرمنی سے پہلے اٹلی، یونان یا سپین میں وہاں کے حکام کو سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ ’بلڈ‘ اخبار نے برلن حکومت کے انہی اعداد و شمار کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں یہ بھی بتایا ہے کہ قریب 61 ہزار ایسے تارکین وطن کی نشاندہی یورپی یونین کی مشترکہ ڈیٹابیس ’یوروڈاک‘ کی مدد سے کی گئی۔
وفاقی جرمن حکومت نے یہ بھی بتایا ہے کہ 23 جون سے لے کر بارہ اگست تک کے عرصے کے دوران جرمن سکیورٹی اہلکاروں نے 143 تارکین وطن کو آسٹریا کے متصل سرحد سے ہی واپس لوٹا دیا۔ جرمن سرحدوں سے لوٹا دیے گئے یہ مہاجرین پہلے ہی سے دوسرے ممالک میں رجسٹرڈ تھے اور ان امر کی نشاندہی بھی ’یوروڈاک‘ نظام ہی کی مدد سے کی گئی تھی۔
جرمنی نے حال ہی میں اسپین کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس کے مطابق اسپین میں پہلے سے رجسٹرڈ مہاجرین اگر جرمنی آئے تو حکام انہیں فوری طور پر واپس اسپین بھیج سکیں گے۔ برلن حکومت اٹلی کے ساتھ بھی ایسا ہی ایک معاہدہ کرنا چاہتی ہے۔
ش ح / ع ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)
جرمنی: سات ہزار سے زائد پاکستانیوں کی ملک بدری طے
جرمنی میں غیر ملکیوں سے متعلق وفاقی ڈیٹا بیس کے مطابق ملک کی سولہ وفاقی ریاستوں سے سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کو لازمی ملک بدر کیا جانا ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس صوبے سے کتنے پاکستانی اس فہرست میں شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
باڈن ورٹمبرگ
وفاقی جرمن ریاست باڈن ورٹمبرگ سے سن 2017 کے اختتام تک ساڑھے پچیس ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا تھا۔ ان میں 1803 پاکستانی شہری بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
باویریا
جرمن صوبے باویریا میں ایسے غیر ملکی شہریوں کی تعداد تئیس ہزار سات سو بنتی ہے، جنہیں جرمنی سے ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں 1280 پاکستانی بھی شامل ہیں، جو مجموعی تعداد کا 5.4 فیصد ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Anspach
برلن
وفاقی جرمن دارالحکومت کو شہری ریاست کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ برلن سے قریب سترہ ہزار افراد کو لازماﹰ ملک بدر کیا جانا ہے جن میں تین سو سے زائد پاکستانی شہری شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
برانڈنبرگ
اس جرمن صوبے میں ایسے غیرملکیوں کی تعداد قریب سات ہزار بنتی ہے، جنہیں لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں سے سات فیصد (471) کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Oliver Mehlis
ہیسے
وفاقی صوبے ہیسے سے بھی قریب گیارہ ہزار غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جانا ہے جن میں سے 1178 کا تعلق پاکستان سے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا
جرمنی میں سب سے زیادہ آبادی والے اس صوبے سے بھی 71 ہزار غیر ملکیوں کو لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں افغان شہریوں کی تعداد ڈھائی ہزار سے زائد ہے۔ پاکستانی شہری اس حوالے سے پہلے پانچ ممالک میں شامل نہیں، لیکن ان کی تعداد بھی ایک ہزار سے زائد بنتی ہے۔
تصویر: imago/epa/S. Backhaus
رائن لینڈ پلاٹینیٹ
رائن لینڈ پلاٹینیٹ سے ساڑھے آٹھ ہزار غیر ملکی اس فہرست میں شامل ہیں جن میں پانچ سو سے زائد پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
سیکسنی
جرمن صوبے سیکسنی میں ساڑھے گیارہ ہزار غیر ملکی ایسے ہیں، جن کی ملک بدری طے ہے۔ ان میں سے 954 پاکستانی شہری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دیگر صوبے
مجموعی طور پر سات ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کی ملک بدری طے ہے۔ دیگر آٹھ جرمن وفاقی ریاستوں میں پاکستانیوں کی تعداد پہلے پانچ ممالک کی فہرست میں شامل نہیں، اس لیے ان کی حتمی تعداد کا تعین ممکن نہیں۔