افريقی نژاد امريکی شہری جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد دنیا بھر میں نسل پرستی کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ ایسے میں جرمن آئین سے لفظ 'نسل‘ کو حذف کرنے يا نہ کرنے پر بحث شروع ہو گئی ہے۔
اشتہار
جرمنی کے بنیادی قوانين کے سیکشن تین کی شق تین میں بیان ہے کہ 'کسی بھی شخص کے ساتھ مہربانی یا نا مہربانی جنس، تناسب، نسل، زبان، وطن، اوریجن، عقیدے یا مذہب و سیاسی آراء کی بنیاد پر نہیں کی جائے گی۔ کسی فرد کو اس کی معذوری کی بنیاد پر نامہربانی کا شکار نہیں کیا جا سکتا۔‘ اس آئینی شق سے لفظ 'نسل‘ کو خارج کرنے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے لیکن فی الحال سارے سیاستدان اس معاملے پر يکساں رائے نہیں رکھتے۔
ایک افريقی نژاد امريکی شہری جارج فلوئڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد دنیا بھر میں رنگ اور نسل کی بنیاد پر پائی جانے والی تفریق کے خلاف آواز احتجاج اور مظاہروں کی صورت ميں میں بلند کی جا رہی ہے۔ امریکا سمیت جرمنی، فرانس اور کئی دوسرے ممالک میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
جرمنی ميں لفظ نسل کو آئينی شق سے خارج کرنے کے معاملے میں ماحول دوست سیاسی جماعت گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والے بعض سیاستدان بھی متحرک ہے۔ اس پارٹی کے شریک چیئرمین رابرٹ ہابیک اور جرمن ریاست شلیسوگ ہولشٹائن کی پارلیمنٹ کی نائب صدر امیناتا طورے نے مشترکہ طور پر ملکی بنیادی آئین میں سے لفظ 'نسل‘ کو حذف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے 'نسل‘ کوئی چیز نہیں ہے اور ایک ریاست میں صرف لوگ ہوتے ہیں۔ ان دونوں سیاستدانوں نے بظاہر ملکی بنیادی آئین میں 'نسل‘ کا متبادل نہیں دیا۔
گرین پارٹی کی شریک چیئرپرسن انالینا بیئربوک نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قانون کی نظر میں سبھی انسان برابر ہیں اور یہ بات ملکی آئین کے پہلے آرٹیکل ميں واضح ہے اور يہ کہ نسل کے لفظ کو حذف کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اس تناظر میں چانسلر میرکل کی وزیر انصاف کرسٹین لامبیرشٹ کا کہنا ہے کہ وہ بھی اس مطالبے پر متفق ہیں۔
پولیس تشدد کے خلاف غم وغصہ اب پوری دنیا میں پھیلتا ہوا
02:26
کاروبار نواز جرمن سیاسی جماعت فری ڈیموکریٹک پارٹی کے سیاستدان مارکو بشمان کا کہنا ہے کہ ملکی دستور کھل کر نسل پرستی کی مذمت کرتا ہے اور اس مناسبت سے بہتر الفاظ کے ساتھ وضاحت ممکن ہے۔ سوشلسٹ بائیں بازو کی سیاسی جماعت ڈی لنکے کا کہنا ہے کہ اس مناسبت سے پارلیمنٹ میں دس برس قبل اس نے ایک تحریک پیش کی تھی اور اس میں بھی اس لفظ کو دستور میں سے نکالنے کا ذکر تھا۔ ڈی لنکے کے رکن پارلیمنٹ ژان کورٹے کا کہنا ہے کہ صرف کوئی نسل پرست ہی انسانی نسل میں فرق محسوس کر سکتا ہے۔
جرمنی کے انسانی حقوق کے انسٹیٹیوٹ سے منسلک ہینڈرک کریمر کا کہنا ہے کہ لفظ Race یا نسل اب پرانا اور بوسیدہ ہو چکا ہے۔ کریمر مزید کہتے ہیں کہ یہ لفظ لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے اور بسا اوقات وہ اس بارے میں کچھ بھی کہنے سے قاصر رہتے ہیں۔ کریمر نے بتایا کہ فرانس، فن لینڈ اور سویڈن نے لفظ ریس یا نسل کو اپنے اپنے دستور سے حذف کر دیا ہے۔
جرمنی کی ژینا یونیورسٹی کے ایک تحقیقی مقالے میں جلد کی رنگت، آنکھ کے رنگ یا کھوپڑی کی ساخت کی بنيادر پر نسل کا تعين ہی انسانوں ميں تقسیم، ظلم و جبر اور کئی ملين افراد کے قتل کا باعث بنا۔ واضح کیا گیا کہ اسی عمل سے لوگوں کو غلام بنانے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ حیاتیاتی اعتبار سے بھی سب انسان مساوی ہیں۔ اس مقالے کو 'ژینا اعلان‘ کا نام بھی دیا گیا اور اس ميں يہ بیان کیا گیا ہے کہ انسانی نسل میں تفریق ہی در اصل نسل پرستی ہے۔
جرمن زبان میں لفظ Rasse کا لغوی مطلب Race یا نسل ہے۔ یہ لفظ جانوروں کی افزائش کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ جرمن بنیادی آئین میں تبدیلی کوئی آسان عمل نہیں ہے۔ کسی بھی تبدیلی کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس مناسبت سے پیش کردہ تحریک کی منظوری دو تہائی اکثریت سے ہی ممکن ہے۔
پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے قتل پر امریکا سراپا احتجاج
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے خلاف منظم غیر منصفانہ سلوک کے خلاف مظاہروں نے پر تشدد شکل اختیار کر لی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ملکی فوج اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے تیار ہے اور استعمال کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
’میرا دم گھٹ رہا ہے‘
پولیس کی طرف سے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مبینہ ظالمانہ طرز عمل کے خلاف تازہ مظاہروں کا آغاز پیر 25 مئی کو چھیالیس سالہ افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ ایک پولیس افسر نے فلوئڈ کو منہ کے بل گرا کر اس کے ہاتھوں میں ہتھ کڑی ڈالنے کے باوجود اس کی گردن کو اپنے گھٹنے سے مسلسل دبائے رکھا۔ اس کی وجہ سے فلوئڈ سانس گھٹنے سے موت کے منہ میں چلا گیا۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
پر امن احتجاج سے پرتشدد جھڑپیں
ہفتے کے دن تک زیادہ تر مظاہرے پر امن تھے مگر رات کے وقت کچھ جگہوں پر پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر نیشنل گارڈز تعینات کر دیے گئے۔ انڈیاناپولس میں کم از کم ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا مگر پولیس کا کہنا تھا کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ فلاڈیلفیا میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ نیویارک میں پولیس کی گاڑی نے احتجاجی مظاہرین کو ٹکر دے ماری۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/J. Mallin
دکانوں میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ
لاس اینجلس میں ’بلیک لائیوز میٹر‘کے نعرے لگانے والے مظاہرین پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کیا گیا اور ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ بعض شہروں، جن میں لاس اینجلس، نیویارک، شکاگو اور مینیاپولس شامل ہیں، مظاہرے جھڑپوں میں بدل گئے۔ ساتھ ہی لوگوں نے مقامی دکانوں اور کاروباروں میں تھوڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Pizello
’لوٹ مار کب شروع ہوئی ۔۔۔‘
امریکی صدر نے دھمکی دی ہے کہ وہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج بھیج سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول ان کی انتظامیہ پرتشدد مظاہروں کو سختی سے روکے گی۔ ٹرمپ کے یہ الفاظ ملک بھر میں غم و غصے کا سبب بنے۔ ٹرمپ نے تشدد کی ذمہ داری انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپوں پر عائد کی۔ تاہم مینیسوٹا کے گورنر کے بقول ایسی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ سفید فاموں کی برتری پر یقین رکھنے والے لوگ تشدد کو بھڑکا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/K. Birmingham
میڈیا بھی نشانہ
ان مظاہروں کی کوریج کرنے والے بہت سے صحافیوں کو بھی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے اہلکاروں نے نشانہ بنایا۔ جمعے کو سی این این کے سیاہ فام رپورٹر عمر جیمینیز اور ان کے ساتھی کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ کئی صحافیوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا یا گرفتار کیا گیا جب وہ براہ راست رپورٹنگ کر رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو کے صحافی اسٹیفان سیمونز پر بھی اس وقت گولی چلا دی گئی جب وہ ہفتے کی شب براہ راست رپورٹ دینے والے تھے۔
تصویر: Getty Images/S. Olson
مظاہروں کا سلسلہ دنیا بھر میں پھیلتا ہوا
یہ مظاہرے پھیل کر اب دیگر ممالک تک پہنچ چکے ہیں۔ ہمسایہ ملک کینیڈا میں ہفتے کے روز ہزاروں افراد نے ٹورانٹو اور وینکوور میں سڑکوں پر مارچ کیا۔ جرمنی، برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے علاوہ کئی یورپی ملکوں میں بھی سیاہ فاموں کے خلاف ناروا سلوک اور نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔ ان مظاہروں میں امریکی مظاہرین کے ساتھ اظہار یک جہتی بھی کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Shivaani
ہیش ٹیگ جارج فلوئڈ
ہفتے کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں واقع امریکی سفارت خانے کے سامنے ہزاروں لوگوں نے مارچ کیا۔ مظاہرین نے جارج فلوئڈ کی ہلاکت اور امریکا میں منظم انداز میں نسل پرستی پھیلائے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔