جرمن آئین کے ستر برس، پارلیمانی بحث: ’ہٹلر اور پرندے کی بیٹ‘
مقبول ملک مارسیل فیورسٹیناؤ / ک م
17 مئی 2019
وفاقی جرمن پارلیمان میں اسی ماہ ملکی بنیادی آئین کے ستر برس مکمل ہونے پر ارکان نے سولہ مئی کو دو گھنٹے تک ایک بحث میں حصہ لیا۔ بحث کے دوران دائیں بازو کے عوامیت پسند ارکان کے موقف کے باعث صورت حال کھچاؤ کا شکار ہو گئی۔
اشتہار
وفاقی جمہوریہ جرمنی کا آئین اصطلاحاﹰ ’بنیادی قانون‘ کہلاتا ہے، جو دوسری عالمی جنگ کے بعد اتحادی طاقتوں کے قبضے کے دور میں وجود میں آنے والی موجودہ جرمن ریاست کی اساس ہے۔ اس آئین کی پہلی شق ہی یہ کہتی ہے کہ انسانی وقار کی کسی بھی حالت میں نفی نہیں کی جا سکتی۔ اسی لیے یہ آئینی شق پارلیمان میں ہونے والی کئی بحثوں میں بار بار حوالے کے طور پر بھی سننے میں آتی ہے۔
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔
تصویر: picture alliance/dpa/Aktivnews
8 تصاویر1 | 8
آئین کی پہلی شق کی اہمیت
ایوان میں بحث کا آغاز چانسلر میرکل کی پارٹی کرسچین ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو اور اس کی ہم خیال صوبے باویریا کی جماعت کرسچین سوشل یونین یا سی ایس یو پر مشتمل مشترکہ پارلیمانی حزب کے سربراہ رالف برِنک ہاؤس کی تقریر سے ہوا۔
انہوں نے اور ان کے بعد تقریریں کرنے والے کئی مقررین نے کہا کہ بنیادی قانون کے ستر برس کی تکمیل ایک خوش کن سنگ میل ہے، جس دوران جرمن قوم نے اپنی ان غلطیوں اور شرم ناک فیصلوں کا احساس کرتے ہوئے ان سے سبق بھی سیکھے، جن کا ارتکاب نازی دور میں کیا گیا تھا۔
ان میں سے اہم ترین سبق آج تک یہی ہے: ’’انسانی وقار کی کسی بھی حالت میں نفی نہیں کی جا سکتی۔‘‘
اشارہ اے ایف ڈی کی طرف
اپنی تقریر میں رالف برِنک ہاؤس نے بین السطور میں یہ تنبیہ بھی کی کہ یہی جرمن آئین واضح طور پر اس بات کی بھی نفی کرتا ہے کہ پارلیمان کو، جو ریاست کا ایک آئینی ادارہ ہے، اس کی کارکردگی کے حوالے سے کمزور بنایا جائے اور یوں ریاست کو بھی کمزور کر دیا جائے۔ تب ایوان میں موجود تمام اراکین اور مہمانوں کی گیلری میں بیٹھے ہوئے ہر فرد نے اندازہ لگا لیا تھا کہ سی ڈی یو اور سی ایس یو کے پارلیمانی حزب کے سربراہ کا اشارہ انتہائی دائیں بازو کی عوامیت پسند جرمن سیاسی جماعت الٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ یا اے ایف ڈی کی طرف تھا، جس کے اپنے ارکان بھی اس وقت بنڈس ٹاگ میں اپنی نشستوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔
اے ایف ڈی گزشتہ وفاقی الیکشن کے بعد پہلی مرتبہ ملکی پارلیمان میں پہنچی تھی۔ سیاسی طور پر یہ سچ ہے کہ جب سے اے ایف ڈی کے منتخب ارکان پہلی بار وفاقی جرمن پارلیمان میں پہنچے ہیں، تب سے ایوان میں ہونے والی بحثوں کا لہجہ تیز اور بہت تیکھا ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ اے ایف ڈی کے ارکان کا یہ خیال بھی ہے کہ انہیں بار بار ایسے بالواسطہ الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جیسے وہ اس پارلیمانی ادارے کے وقار کو نقصان پہنچا رہے ہوں۔
عوامیت پسند پارٹی کے رہنما کا خطاب
پھر اے ایف ڈی کے پارلیمانی حزب کے سربراہ آلیکسانڈر گاؤلینڈ نے اپنا خطاب کیا، جن کی عمر اس وقت 78 برس ہے۔ وہ ماضی میں 40 برس تک سی ڈی یو کے رکن رہے تھے اور پھر 2013ء میں ’متبادل برائے جرمنی‘ نامی اس رائٹ ونگ پاپولسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے تھے، جس کی بنیاد بھی اسی سال رکھی گئی تھی۔ گاؤلینڈ ماضی میں بڑی مہذب سیاسی تقریریں کرتے تھے لیکن اب وہ اپنے سیاسی خطابات میں اکثر ایسی حدود بھی پار کر جاتے ہیں، جنہیں تاحال شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔ اے ایف ڈی کے پارلیمانی حزب کے سربراہ آلیکسانڈر گاؤلینڈ کبھی کبھی بہت حساس موضوعات پر بھی بڑی حیران کن باتیں دانستہ طور پر کرتے ہیں۔
ہٹلر دور ’ایک پرندے کی بیٹ‘ جیسا
گاؤلینڈ کی سیاسی سوچ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے بقول’جرمنی کی ہزار سال سے بھی زیادہ طویل عرصے پر محیط شاندار تاریخ‘ میں ہٹلر اور اس کے نازی دور کی حیثیت ’کسی پرندے کی بیٹ‘ سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ بات کہتے ہوئے نہ صرف گاؤلینڈ کو باقاعدہ احساس تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں بلکہ ساتھ ہی انہوں نے ہٹلر اور نازی دور کے ان خوفناک جرائم کو بھی معمولی بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی، جو مجموعی طور پر کروڑوں انسانوں کی ہلاکت کا باعث بنے تھے اور یہودیوں کی مکمل نسل کشی کی ایک نپی تلی کوشش بھی تھے۔
اپنی جماعت کے نام کا ذکر ہی نہیں
گاؤ لینڈ کے بقول جرمنی میں آج بھی آئین کی بالادستی کے کئی دشمن ہیں، جن میں دائیں باز وکے انتہا پسند بھی شامل ہیں، بائیں بازو کی شدت پسند قوتیں بھی اور، ان کے بقول، جرمنی میں آباد مسلمانوں کی آبادی کا ایک حصہ بھی۔
لیکن جس بات کا ذکر اے ایف ڈی کے اس رہنما نے بالکل نہیں کیا وہ یہ تھی کہ خود ان کی اپنی جماعت ’متبادل برائے جرمنی‘ بھی ایک ایسی پارٹی ہے، جس کی جرمنی میں داخلی انٹیلیجنس کے نگران ادارے بی ایف وی کی طرف بڑے قریب سے نگرانی کی جا رہی ہے۔
عوامیت پسند یورپی رہنما کیا روس کے ساتھ ہیں؟
سن 2014 میں یوکرائنی بحران کے باعث یورپی یونین امریکا کی طرف راغب ہوئی اور روس پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ یوں کئی اہم یورپی رہنما ماسکو حکومت سے دور ہو گئے تاہم عوامیت پسند یورپی سیاست دان روس کی طرف مائل ہوتے نظر آئے۔
تصویر: DW/S. Elkin
سٹراخا روس پر عائد پابندیاں ختم کرنے کے حامی
آسٹریا کے نائب چانسلر ہائنز کرسٹیان سٹراخا کئی مرتبہ یورپی یونین پر زور دے چکے ہیں کہ روس پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں۔ عوامیت پسند پارٹی FPÖ کے رہنما سٹراخا مشرقی یورپ میں نیٹو کے آپریشنز میں وسعت کے بھی خلاف ہیں۔ 2005ء میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ’ حالیہ عشروں میں روس نے جارحیت نہیں دکھائی‘۔ ممکنہ روسی عسکری کارروائی کے پیش نظر نیٹو نے روس کے ساتھ متصل یورپی سرحدوں پر اپنی موجودگی بڑھائی ہے۔
تصویر: Reuters/H. Bader
’روس اور سفید فام دنیا‘، ژاں ماری لے پین
فرانس کے انتہائی دائیں بازو کے سیاسدتان ژاں ماری لے پین کو 2015ء میں اس وقت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جب انہوں نے کہا کہ فرانس کو روس کے ساتھ مل کر ’سفید فام دنیا‘ کو بچانا چاہیے۔ قبل ازیں انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ نازی جرمن دور کے گیس چیمبرز ’تاریخ کی ایک تفصیل‘ ہیں۔ ان اور ایسے ہی دیگر بیانات کی وجہ سے ان کی بیٹی مارین لے پین نے انہیں اپنی سیاسی پارٹی نیشنل فرنٹ سے بے دخل کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/G. Fuentes
’روس کے اثر میں نہیں‘، مارین لے پین کا اصرار
فرانسیسی قوم پرست سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ کی رہنما مارین لے پین کے مطابق یورپی یونین کی طرف سے روس پر عائد کردہ پابندیاں ’بالکل بیوقوفانہ‘ ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’کریمیا ہمیشہ سے ہی روس کا حصہ تھا‘۔ نیشنل فرنٹ اعتراف کرتی ہے کہ اس نے روسی بینکوں سے قرضے لیے تاہم لے پین کے بقول روس کا ان پر یا ان کی پارٹی پر اثرورسوخ نہیں ہے۔ سن 2017ء میں انہوں نے کریملن میں روسی صدر پوٹن سے ملاقات بھی کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Klimentyev
متبادل برائے جرمنی کے روس کے ساتھ مبینہ تعلقات
مہاجرت مخالف جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی روسی پس منظر کے حامل ووٹرز میں قدرے مقبول ہے۔ اس پارٹی کی سابق رہنما فراؤکے پیٹری نے سن 2017ء میں روسی صدر کی سیاسی پارٹی کے قانون سازوں سے ماسکو میں ملاقات کی تھی۔ اے ایف ڈی روس پرعائد پابندیوں کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیتی ہے۔ تاہم اس پارٹی کے رہنما ایلیس وائیڈل اور الیگزینڈر گاؤلینڈ کے بقول اے ایف ڈی پوٹن یا ان کی ’مطلق العنان حکومت‘ کی حمایت نہیں کرتی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
وکٹور اوربان کے پوٹن کے ساتھ ’خصوصی تعلقات‘
ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان کئی مرتبہ بوڈا پیسٹ میں روسی صدر پوٹن کی میزبانی کر چکے ہیں۔ دونوں رہنما اپنے طرز حکمرانی کے طریقہ کار میں کئی مماثلتیں رکھتے ہیں۔ اوربان کا کہنا کہ ہے یورپی سیاستدان خود کو اچھا دکھانے کی کی خاطر پوٹن کو ’برا‘ ثابت کرتے ہیں۔ تاہم سیرگئی اسکریپل پر کیمیائی حملے کے بعد روسی اور یورپی سفارتی بحران کے نتیجے میں ہنگری نے روسی سفارتکاروں کو بیدخل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters/Laszlo Balogh
گیئرت ولڈرز کا دورہ روس اور تنقید
اسلام مخالف ڈچ سیاست دان گیئرت ولڈرز نے سن 2014ء میں پرواز MH-17 کے مار گرائے جانے پر روس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور 2018ء میں ماسکو پر پابندیاں عائد کرنے کی حمایت کی۔ تاہم روس کے ایک حالیہ دورے کے بعد ان کے موقف میں واضح تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ انہوں نے اب کہا ہے کہ وہ نیٹو اور امریکا کے حامی ہیں لیکن مہاجرت کے بحران اور مسلم انتہا پسندی کے خلاف روس ایک اہم حلیف ثابت ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/P. Dejong
اٹلی کے نئے نائب وزیراعظم ماتیو سالوینی
اٹلی میں حال ہی میں قائم ہونے والی حکومت میں عوامیت پسند سیاسی جماعت ’لیگ‘ اور فائیو اسٹار موومنٹ شامل ہیں۔ دونوں سیاسی پارٹیاں روس پر پابندیوں کے خلاف ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مشرقی یورپ میں نیٹو کو ’جارحانہ‘ اقدامات نہیں کرنا چاہییں۔ لیگ کے اعلیٰ رہنما ماتیو سالوینی ملک کے نئے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ بنے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ وہ ’امن کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں، جنگ کے لیے نہیں‘۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
7 تصاویر1 | 7
تاریخ سے سبق سیکھنا ممکن ہے
جہاں تک جرمنی کے بنیادی آئین کے ستر برس مکمل ہونے کی بات ہے تو بنڈس ٹاگ کہلانے والے وفاقی جرمن ایوان زیریں میں بہت سے منتخب ارکان نے زور دے کر کہا کہ یہی بنیادی قانون جرمن تاریخ کی عظیم ترین کامیابیوں میں سے ایک ہے۔
اس کے علاوہ اگرچہ کئی مؤرخین نے یہ بھی کہا ہے کہ انسان بالعموم تاریخ سے کچھ نہیں سیکھتا، تاہم بنیادی جرمن قانون وہ سچائی بھی ہے، جس کی مدد سے ایسے مؤرخین کے اس طرح کے تمام دعوے بھی غلط ثابت ہو چکے ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے چند برس بعد اس دور کی صرف مغربی جرمن حصے پر مشتمل ریاست وفاقی جمہوریہ جرمنی میں ریاستی آئین کے طور پر بنیادی قانون کا نفاذ 23 مئی 1949ء کو ہوا تھا اور اس ماہ کی 23 تاریخ یعنی آئندہ ہفتے جمعرات کے دن ملک میں اس آئین کے نفاذ کے ٹھیک 70 برس پورے ہو جائیں گے۔
کیمنِٹس کے انتہائی دائیں بازو اور نازی سیلیوٹ کرتا بھیڑیا
جرمنی میں کئی مقامات پر تانبے سے بنے بھیڑیے کے ایسے مجسمے نصب کیے گئے ہیں جو نازی دور کے سیلیوٹ کے حامل ہیں۔ اب ان مجسموں کو مشرقی شہر کیمنٹس میں بھی نصب کیا گیا ہے، جہاں ان دنوں اجانب دشمنی کی وجہ سے خوف پایا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’بھیڑیوں کی واپسی‘
جرمنی میں تانبے کے 66 مجسموں کی ایک سیریز تخلیق کی گئی، یہ نازی سیلیوٹ کا انداز بھی اپنائے ہوئے ہیں، یہ جرمنی میں ممنوع ہے۔ مجسمہ ساز رائنر اوپولکا کے بقول یہ تخلیق نسل پرستی کے خطرے کی علامت ہے۔ تاہم انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے ہمدرد خود کو بھیڑیے سے تشبیہ دینے لگے ہیں۔ مہاجرت مخالف AFD کے رہنما ہوئکے نے کہا ہے کہ ہٹلر کے پراپیگنڈا وزیر گوئبلز نے 1928ء میں بھیڑیے کی اصطلاح استعمال کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
کیمنٹس میں دس بھیڑیے
فنکار رائنر اوپولکا نے اپنے یہ مجسمے ایسے مقامات پر لگائے ہیں جہاں اجانب دشمنی اور نسل پرستانہ رویے پائے جاتے ہیں۔ ان کو ڈریسڈن میں پیگیڈا تحریک کی ریلیوں کے دوران نصب کیا گیا تھا۔ میونخ کی عدالت کے باہر بھی یہ مجسمے اُس وقت نصب کیے گئے تھے جب انتہائی دائیں بازو کی خاتون بیاٹے شاپے کو قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ شاپے نیو نازی گروپ این ایس یو کے دہشت گردانہ سیل کی رکن تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
انتہائی دائیں بازو کے بھیڑیے
کیمنٹس شہر میں گزشتہ جمعے کو انتہائی دائیں بازو کی ایک نئی ریلی کا انتظام کارل مارکس کے مجسمے اور تانبے کے بھیڑیے کے سامنے کیا گیا۔ اس ریلی میں انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں نے بھیڑیے کے پہناوے میں جارح رویہ اپنا رکھا تھا اور بعض نے آنکھوں کو چھپا رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’کیمنٹس میں جرأت ہے‘
رواں برس ماہِ ستمبر کے اوائل میں انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں کی وجہ سے کیمنٹس کے تشخص پر انگلیاں بھی اٹھیں۔ اس دوران مرکزِ شہر میں نسل پرستی اور قوم پرستی کی مذمت کے جہاں بینر لگائے گئے وہاں ایک بڑے میوزیکل کنسرٹ کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اس کنسرٹ میں 65 ہزار افراد نے شرکت کر کے واضح کیا کہ اُن کی تعداد دائیں بازو کے قوم پرستوں سے زیادہ ہے۔
تصویر: Reuters/T. Schle
شہر کے تشخص پر نشان
کیمنِٹس کی شہری انتظامیہ نے انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان سے فاصلہ اختیار کر رکھا ہے۔ سٹی ایڈمنسٹریشن کے کئی اہلکاروں کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں سے کیمنِٹس کا تشخص مستقلاً مسخ ہو سکتا ہے۔ شہری انتظامیہ نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے انتہا پسندوں کے خلاف عدالتی عمل کو سرعت کے ساتھ مکمل کیا جائے جنہوں نے نفرت کو فروغ دے کر تشدد اور مظاہروں کو ہوا دی تھی۔