1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن آٹو موبائل صنعت کے زوال پر بننے والی ڈاکومنٹری

25 فروری 2020

جرمنی کی مشہور ترین موٹر ساز کمپنیوں کا مرکز صوبہ باویریا ہے۔ یہاں سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان فلمساز نے اس بار برلینالے فلم فیسٹیول میں ایک انوکھے موضوع پر اپنی ڈاکومینٹری فلم اسکرین کی۔

Berlinale 2020 Perspektive Deutsches Kino Filmstill Automotive
تصویر: Jonas Heldt

جرمنی کی آٹو موبائل انڈسٹری جس انتشار کا شکار ہے اُس نے کار سازی کی صنعت میں نا صرف ملازمتوں کو خطرے میں ڈالا ہے بلکہ اس سے جرمنی کی قومی شناخت کو بھی دھچکہ لگا ہے۔ دنیا بھر میں یورپ کی اقتصادی رگ جرمنی کو سب سے زیادہ اس کی موٹر کار سازی کی صنعت سے پہچانا جاتا ہے۔ آٹومیشن اور ڈیجیٹائزیشن کے اس دور میں کم ہُنر مند ملازمین جرمنی کی طاقتور آٹوموبائل انڈسٹری میں اپنی ملازمتیں برقرار رکھنے کی سخت جدو جہد کر رہے ہیں۔ جرمنی کی موٹر ساز صنعتوں سے وابستہ ہونا کار کنوں کے لیے دولت سے زیادہ عزت کا باعث ہوتا ہے۔

اس انوکھے موضوع پر ایک ڈاکومینٹری اسکرین کی جا رہی ہے اس بار برلن میں منعقدہ مشہور زمانہ بین الاقوامی فلم میلے ''برلینالے‘‘ میں۔ جرمنی کی کار انڈسٹری میں عدم اطمینان اور انتشار کی ایک بڑی وجہ جرمن گاڑیوں کی بیرونی ممالک سے مانگ یا طلب میں کمی ہے۔ اس کے علاوہ گاڑیوں سے گیس کے اخراج سے متعلق سخت قوانین اور موٹر گاڑیوں کی جگہ بجلی سے چلنے والی یا برقی گاڑیوں کا مارکیٹ میں آنے جیسے عوامل نے اب یورپ کی اس سب سے بڑی معیشت پر وسیع نشان چھوڑنا شروع کر دیے ہیں۔ جرمنی میں اس صنعت سے وابستہ ملازمین میں بے روزگاری تیزی سے بڑھ رہی ہے، جاب سکیورٹی ختم ہوتی جا رہی ہے اور تنخواہ میں اضافے کے امکانات بھی معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔

’جرمن آٹومیٹیو ایسو سی ایشن‘  VDA  ایسوسی ایشن کے مطابق توقع کی جا رہی ہے کہ جرمن آٹو موبائل کارخانہ دار اور ان کے سپلائرز اگلی دہائی میں ان کی 830،000 ملازمتوں کا تقریباً دسواں حصہ کم  کرنے پر مجبور ہوں گے۔

برلینالے 2020 ء میں اسکرین ہونے والی ڈاکومنٹری آٹو موٹییوتصویر: Pius Neumaier

چند تھنک ٹینکس اور سرکاری اہلکاروں نے آئندہ دہائی میں اس سے کہیں زیادہ تعداد میں بے روزگاری میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے جس کی وجہ الیکٹرک کاریں ہیں جن کی تیاری کے لیے دیگر گاڑیوں کے مقابلے میں کم 'اسمبلی‘ کام یا پُرزے جوڑنے کا کام درکار ہوتا ہے۔ اس لیے الیکٹرک موٹر کار سازی کے لیے چھوٹے اور آسان کاموں کی جگہ خودکاری یا آٹومیشن نے لے لی ہے اور بہت سی موٹر ساز کمپنیاں اپنے پیداواری یا پروڈکشن پلانٹس کو منتقل کر رہی ہیں۔

برلینالے کی ڈاکومینٹری Automotive

اس دستاویزی فلم میں 20 سالہ سیڈانور کو وفاقی جرمن صوبے باویریا کے شہر انگولشٹائن میں ایک کار فیکٹری میں نائٹ شفٹ میں کام کرتے دکھایا گیا ہے۔ سیڈانور روبوٹ کے لیے اسمبلی لائن میں کھڑی گاڑی کے پرزے چھانٹ رہی ہے۔  لیکن جب جرمنی میں ڈیزل اخراج سکینڈل کا شور ہوتا ہے تو جُز وقتی ملازمت کرنے والی سیڈانور سب سے پہلے بے روزگار ہونے والے ورکرز میں شامل ہوتی ہے۔

سیڈانور کا خواب ہے کہ وہ  کسی طرح مستقل ملازمت کا معاہدہ حاصل کر لے اور اتنے پیسے کما لے کہ ایک روز وہ مرسڈیز بینز خرید سکے۔ اس کے برعکس ایک 33 سالہ خاتون ایوا، جو کار Audi کی ہیڈ ہنٹر ہے ، جو اس کی کچھ لاجسٹکس کو خود کار بنانے کے لیے ماہرین کی تلاش میں ہے۔ ایوا کا ہدف ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ  دولت کمائے تاکہ وہ کام کی اس جدید دنیا سے جلد از جلد فرار ہو کر اپنے ساتھی کے ساتھ کیریبین میں ساحل سمندر پر ایک پراپرٹی خرید سکے۔

جرمن موٹر سازی کی صنعت میں تیزی سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ تصویر: Jonas Heldt

اپنی ڈاکومینٹری فلم Automotive کے مرکزی خیال کے بارے میں اس کے ہدایتکار یوناس ہیلڈٹ، جو میونخ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان فلم ساز ہیں کہیتے ہیں، ''یہ نہایت دلچسپ امر ہے کہ دونوں خواتین اپنے اپنے روزگار یا جاب کے بارے میں ایک دوسرے سے کتنا مختلف نظریہ رکھتی ہیں۔ ایوا کے لیے کام ضروریات پورا کرنے کا ایک ذریعہ ہے جبکہ سیڈانور کی جاب کافی حد تک اُس کی شناخت ہے۔‘‘

فلم کا مرکزی خیال

ہدایتکار یوناس ہیلڈٹ مزید کہتے ہیں کہ بے روزگاری کا خوف اور عدم تحفظ کا احساس ایوا میں بھی پایا جاتا ہے، گرچہ وہ بحیثیت ایک ماہر کے بہت اچھی تنخواہ پا رہی ہے اور انتہائی مہارت والی نوکری کر رہی ہے تب بھی اُسے بھی یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ اس کی نوکری بھی سو فیصد محفوظ نہیں کیونکہ بہتر اور جدید ترین ایلگوردم ایک دن اس کی نوکری کو بھی کھا سکتا ہے۔ یوناس ہیلڈٹ کہتے ہیں، ''میں اپنی دستاویزی فلم میں جو کچھ دکھانا چاہتا تھا اُس کا تعلق اس حقیقت سے ہے کہ جلد یا بدیر ہر ایک کا متبادل پیدا ہو جاتا ہے اور اس حقیقت سے مستقبل میں کام کے کردار اور اہمیت کے بارے میں بہت سے اہم سوالات جنم لیتے ہیں۔‘‘

ک م/ش ح/ روئٹرز

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں