چانسلرمیرکل کی جانب سے ملکی داخلی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ ماسن کو وزارت داخلہ میں اسٹیٹ سیکرٹری کےعہدے پر فائز کرنے کے فیصلے پر حکومتی اتحاد میں شدید اختلاف پایا جا رہا ہے۔ لہٰذا اس مسئلے پر مزید مذاکرات کیے جائیں گے۔
اشتہار
آج بروز اتوار حکومتی اتحادی جماعتوں کے سربراہوں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں ملکی داخلی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ ہانس گیورگ ماسن کے وزارت داخلہ میں تبادلے پر مذاکرات کیے جائیں گے۔ گزشتہ ہفتے حکومتی اتحادی جماعتوں کے سربراہوں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ماسن وزارت داخلہ میں بطور اسٹیٹ سیکرٹری کام کریں گے۔ بعد ازاں حکومتی اتحادی جماعتوں نے چانسلر میرکل کے اس فیصلے پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا تھا۔
اس کے پیش نظر چانسلر میرکل نے جمعہ کے روز ایک بیان میں کہا کہ ’وہ اس فیصلے پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘ مخلوط حکومت میں شامل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ آندریا ناہلس نے جرمن اخبار ’بلڈ آم زونٹاگ‘ سے گفتگو میں اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ماسن کے تبادلے کے معاملے پر حکومتی اتحاد ختم نہیں ہوسکتا‘۔ دوسری جانب سی ایس یو سے تعلق رکھنے والے ملکی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے ہانس گیورگ ماسن کے وزارت داخلہ میں بطور اسٹیٹ سیکرٹری کام کرنے کی حمایت کی ہے۔
جرمن حکومتی اتحاد میں چانسلر میرکل کے اس فیصلے کو ماسن کے عہدے میں ترقی سمجھا جا رہا ہے کیونکہ ماضی قریب میں جرمن اتحادی حکومت میں شامل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کا مطالبہ تھا کہ ماسن کو کیمنٹس میں ہونے والے پر تشدد واقعات کے حوالے سے ان کے متنازعہ بیان پر داخلی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ عہدے سے ہٹایا جائے۔
قبل ازیں داخلی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ ہانس گیورگ ماسن نے جرمن روزنامہ بلڈ سے گفتگو میں کہا تھا، ’’میں ایسی میڈیا رپورٹوں پر شک رکھتا ہوں کہ کیمنٹس میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے (غیرملکیوں) کا تعاقب کیا۔‘‘ جبکہ چانسلر میرکل نے اس ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے ’ہدف بنا کر ہراساں کرنے‘ کا عمل قرار دیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ جرمنی میں اس طرح کی نفرت قابل قبول نہیں ہے۔
ع آ/ ع ق (ڈی پی اے)
مہاجرین کے مبینہ جرائم پر دائیں بازو کا رد عمل شدید تر
جرمنی میں حالیہ کچھ عرصے میں ایک طرف جہاں مہاجرین کی طرف سے مبینہ جرائم کی خبریں سامنے آ رہی ہیں وہیں ملک میں انتہائی دائیں بازو کی جانب سے ان کے خلاف جذبات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ملاحظہ کیجیے یہ پکچر گیلری۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
جرمن شہری کی ہلاکت اور مظاہروں کا آغاز
کیمنٹس میں چھبیس اگست سے انتہائی دائیں بازو کی سوچ کے حامل افراد نے مظاہروں کا سلسلہ اُس وقت شروع کیا تھا جب ایک جرمن شہری کو سیاسی پناہ کے دو متلاشیوں نے ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: Jan Woitas/dpa/picture alliance
مظاہروں کے خلاف مظاہرے
اگرچہ رواں ماہ کی سات تاریخ کو کیمنٹس میں رائٹ ونگ گروپوں کے ارکان نے بھرپور مہاجرین مخالف مظاہرے کیے تاہم اگلے ہی روز کیمنٹس کے شہریوں نے بھی بڑی تعداد میں مہاجرین مخالف مظاہروں کے خلاف مظاہرے کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
مسائل کی ماں مہاجرت
انہی مظاہروں کے درمیان جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کی جانب سے بھی پناہ گزینوں کی مخالفت میں ایک تنقیدی بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ مہاجرت ہی تمام مسائل کی ماں ہے۔ زیہوفر نے کیمنٹس میں رائٹ وِنگ کی جانب سے کیے گئے مظاہروں پر تنقید بھی نہیں کی۔
تصویر: Imago/Sven Simon/F. Hoermann
میا وی کے قاتل کو سزائے قید
ستمبر کی تین تاریخ کو جنوب مغربی جرمن شہر لنڈاؤ میں ایک جرمن عدالت نے عبدل ڈی نامی ایک افغان تارک وطن کو پندرہ سالہ جرمن لڑکی میا وی کو قتل کرنے کے جرم میں ساڑھے آٹھ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ میا وی کی ہلاکت پر بھی اُس کے شہر کانڈل میں تارکین وطن کے خلاف مظاہرے کیے گئے تھے۔
تصویر: DW/A. Prange
ایک اور افغان مہاجر جیل میں
رواں ہفتے کے اختتام پر جرمن شہر ڈارم شٹڈ کی ایک عدالت نے ایک اور افغان مہاجر کو اپنی سترہ سالہ سابقہ گرل فرینڈ کو چاقو سے شدید زخمی کرنے کے جرم میں سات سال جیل کی سزا سنائی تھی۔ نو عمر افغان پناہ گزین پر الزام تھا کہ اس نے سن 2017 میں کرسمس سے قبل اپنی سابقہ گرل فرینڈ پر چاقو سے حملہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stein
کوئتھن، جرمن نوجوان کی ہلاکت
ابھی کیمنٹس شہر میں تناؤ پوری طرح کم نہ ہوا تھا کہ جرمن ریاست سیکسنی اَن ہالٹ کے شہر کوئتھن میں ایک بائیس سالہ جرمن نوجوان کی دو افغان مہاجرین کے ہاتھوں مبینہ قتل نے ہلچل مچا دی۔ ریاست کے وزیر داخلہ ہولگر شٹالک نیخت نے شہریوں سے پر امن رہنے کی اپیل کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Hein
کوئتھن میں مظاہرے
مقامی پولیس کے مطابق ’کیمنٹس پرو‘ گروہ کی طرف سے سوشل میڈیا پر کوئتھن میں مظاہرے کی کال دی گئی جس پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے مثبت ردعمل ظاہر کیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس مظاہرے میں پچیس ہزار افراد شریک ہوئے۔ جس میں چار سو سے پانچ سو افراد کا تعلق انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل افراد سے تھا۔